چند دن بعد

جاوید چوہدری  منگل 4 جون 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

وہ دونوں ایک بینچ پر بیٹھے تھے‘ دونوں کے ہاتھ میں فائل تھی اور دونوں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے‘ ایک نسبتاً مغرور تھا‘ اس کی گردن میں سریا تھا‘ وہ گردن اکڑا کر ناک کی سیدھ میں دیکھ رہا تھا‘ اس کی ناک پر قیمتی عینک دھری تھی‘ بالوں میں جیل لگا تھا‘ قمیض تازہ استری شدہ تھی‘ پتلون سلوٹوں سے پاک تھی اور بدن سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی‘ دوسرا شخص نسبتاً مسکین تھا‘ اس کی ناک پر پرانی عینک تھی‘ عینک کی کمانی پر میل جمی تھی‘ شرٹ کی سلوٹیں بتا رہی تھیں وہ بغیر دھلے‘ بغیر استری ہوئے تیسری یا چوتھی بار پہنی جا رہی ہے‘ پتلون کثرت استعمال سے جینز بن چکی تھی‘ جوتوں پر مٹی اور کیچڑ تھا جب کہ جسم سے پسینے کی بو آ رہی تھی‘ مسکین شخص ترچھی آنکھوں سے بار بار مغرور شخص کی طرف دیکھتا تھا‘ زیر لب مسکراتا تھا اور پھر گود میں رکھی فائل تھپتھپاتا تھا اور مغرور شخص کی گردن میں اس کے ساتھ ہی تنائو بڑھ جاتا تھا‘ یہ کھیل پچھلے آدھ گھنٹے سے جاری تھا‘ لوگ آ رہے تھے‘ ان کو دیکھ رہے تھے‘ سلام کر رہے تھے اور جا رہے تھے‘ صاحب کا چپڑاسی بھی باہر آتا تھا‘ دونوں کو دیکھتا تھا‘ ذرا سا مسکراتا تھا اور اندر چلا جاتا تھا‘ برآمدے کی ہر چیز‘ ہر حرکت نپی‘تلی اور مستقل تھی حتیٰ کہ دیوار کا کلاک بھی پچھلے آدھ گھنٹے سے ایک ہی جگہ ٹھہرا ہوا تھا‘ اس کی سیکنڈ کی سوئیاں ٹک ٹک کرتی تھیں مگر گھنٹے کی سوئیاں ایک ہی جگہ رکی تھیں‘ وہ آگے کی طرف نہیں سرک رہی تھیں‘ مسکین نے ایک بار پھر فائل تھپتھپائی‘ مغرور نے اس بار گردن گھمائی اور نفرت سے اس کی طرف دیکھ کر بولا ’’کیا بکواس ہے‘ تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو‘‘ مسکین نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ سر میں اور آپ ایک ہی بینچ پر بیٹھے ہیں‘ ہم دونوں کا فیصلہ تیسرے شخص نے کرنا ہے‘ ہم دونوں اپنے بلاوے کا انتظار کر رہے ہیں‘ میں اس صورتحال کو انجوائے کر رہا ہوں‘‘ مغرور کی ہنسی چھوٹ گئی‘ اس نے پورا منہ کھول کر قہقہہ لگایا‘ اس کے قہقہے کی آواز کوریڈور میں گونجی‘ لوگوں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا لیکن مغرور شخص حیران نظروں پر توجہ دیے بغیر قہقہے لگاتا جا رہا تھا‘ وہ بار بار مسکین شخص کی فائل بھی تھپتھپا رہا تھا‘ مغرور شخص کے قہقہوں کے دوران مسکین نے بھی ہنسنا شروع کر دیا اور یوں کوریڈور میں قہقہے گونجنے لگے‘ مغرور شخص نے ہنستے ہنستے مسکین کا ہاتھ پکڑا‘ اسے بینچ سے اٹھایا اور چیئرمین کے کمرے کی طرف چل پڑا‘ وہ دروازے پر پہنچا‘ چپڑاسی نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ اسے دھکیل کر اندر داخل ہو گیا‘ اندر چیئرمین تین افسروں کے ساتھ میٹنگ کر رہاتھا‘ اس نے گھبرا کر مغرور شخص کی طرف دیکھا‘ مغرور اور مسکین شخص ابھی تک قہقہے لگا رہے تھے‘ چیئرمین کے ساتھ بیٹھے لوگ بھی حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے‘ مغرور نے اپنی فائل چیئرمین کی میز پر پٹخی اور ہنستے ہوئے بولا ’’ بخاری صاحب آپ کو دومنٹ کے لیے میری بات سننا ہوگی‘‘ بخاری صاحب نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور سختی سے بولے ’’ میں مصروف ہوں‘ آپ کو باہر انتظار کرنا ہوگا‘‘ مغرور شخص نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ پھر آپ مہربانی فرما کر باہر بڑا بینچ رکھوا دیں‘ اس بینچ پر صرف دو لوگ بیٹھ سکتے ہیں‘ وہاں تین لوگوں کا بینچ ہونا چاہیے کیونکہ چند دن بعد آپ کو بھی ہمارے ساتھ بیٹھنا ہو گا‘‘ چیئرمین حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ مغرور شخص بولا ’’ یہ شخص‘‘ اس نے مسکین شخص کا ہاتھ آگے بڑھایا ’’ یہ شخص میرا ماتحت تھا‘ اس نے ضابطے کی خلاف ورزی کی‘ میں نے اس کے خلاف انکوائری شروع کرا دی‘ اس نے میرے ساتھ اسی طرح بدتمیزی کی‘ یہ دروازہ کھول کر زبردستی میرے دفتر میں گھس آیا‘ میں ناراض ہو گیا‘ میں نے اس کے خلاف نیب کیس بنوا دیا‘ یہ معطل ہو گیا اور نیب کے دفتروں کے چکر لگانے لگا‘ اس کا کیس مختلف دفتروں‘ ٹیموں اور کمیشنوں سے ہوتا ہوا آخر میں آپ کے پاس آ گیا‘ مجھے پچھلے وزیراعظم نے ایک کام کہا‘ وہ کام میری اوقات سے بڑا تھا‘ میں نے معذرت کر لی‘ وہ مجھ سے ناراض ہو گئے‘ حج کرپشن کا کیس سامنے آیا‘ وزیراعظم نے کسی صحافی کو میرا نام دے دیا‘ اس نے میرے خلاف خبر چلا دی‘ عدالت نے میرا نام بھی انکوائری میں ڈال دیا‘ حکومت نے مجھے معطل کر دیا اور میں بھی نیب کے دفتروں کے دھکے کھانے لگا‘ آپ قسمت دیکھئے‘ ہم دونوں آج آپ کے دروازے کے سامنے ایک ہی بینچ پر بیٹھے تھے‘ میں نے آپ کے چپڑاسی کو تین بار چٹ دے کر بھجوایا مگر آپ نے مجھے اندر نہیں بلایا‘ میں وہ شخص ہوں جس کے دروازے پر لوگ پانچ پانچ گھنٹے بیٹھے رہتے تھے مگر آج میں آپ کے دروازے پر بیٹھا ہوں اور آپ میری بات تک سننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ مجھے آپ کے اس غرور میں آپ کا مستقبل نظر آ رہا ہے چنانچہ میری آپ سے درخواست ہے آپ کمرے کے باہر بڑا بینچ رکھوا دیں کیونکہ حالات یہی رہے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب آپ بھی ہمارے ساتھ اسی بینچ پر بیٹھے ہوں گے‘ آپ کے ہاتھ میں بھی فائل ہو گی اور آپ بھی ہماری طرح فائل تھپتھپا رہے ہوں گے‘‘ یہ داستان سن کر چیئرمین نیب بھی ہنس پڑا اور اس نے انھیں بیٹھنے کی دعوت دے دی۔

یہ واقعہ چند ماہ پرانا ہے مگر اس کی جڑیں ہزاروں لاکھوں سال کی تاریخ میں گڑی ہیں جب کہ شاخیں اور پتے سیکڑوں ہزاروں سال مستقبل میں جھانک رہے ہیں‘ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی چیز دائمی نہیں‘ دنیا کی ہر چیز‘ ہر انسان‘ اس کی کامیابی‘ اس کی اچیومنٹ‘ اس کے اختیار‘ اس کے اقتدار‘ اس کے تکبر اور اس کے غرور کی ایک ’’ ایکسپائری ڈیٹ‘‘ ہے‘ اس تاریخ پر پہنچ کر اس کی لائٹ خود بخود آف ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی محتاج اور غنی‘ حکمران اور ماتحت‘ آقا اور غلام‘ افسر اور ملازم‘ سیٹھ اور مزدور اور ظالم اور مظلوم سب ایک ہو جاتے ہیں‘ یہ چند دنوں کا کھیل ہوتا ہے‘ یہ کھیل ختم ہوتے ہی ہر چیز وقت کے معدے میں چلی جاتی ہے اور پھر دلدل میں بنے نشانوں اور ریت کے تراشے بتوں کی طرح اس کا نشان تک نہیں رہتا‘ میاں نواز شریف کل وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے‘ یہ حلف اٹھاتے ہی اس وزیراعظم ہائوس میں چلے جائیں گے جس سے ان کو 12 اکتوبر 1999ء کو گرفتار کر کے نکال دیا گیا تھا‘ میاں صاحب ذرا تصور کریں‘ یہ بارہ اکتوبر 1999ء شام چھ بجے تک دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے سربراہ تھے‘ یہ دو تہائی اکثریت کے مالک بھی تھے‘ یہ آئین میں جو چاہتے ترمیم کر سکتے تھے مگر پھر یہی میاں صاحب شام چھ بجے ملزم بن چکے تھے‘ یہ فوج کے نرغے میں تھے‘ ان پر طیارہ ہائی جیک کرنے کا کیس بن چکا تھا اور اس مقدمے کی سزا موت تھی اور اس کے بعد میاں نواز شریف اور ان کے خاندان پر ابتلاء کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہو گیا‘ یہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری مصیبت کا شکار ہوتے چلے گئے اور آپ اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو اس دور میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری میں کوئی فرق نہیں تھا‘ یہ بھی جیل میں تھے اور وہ بھی جیل میں‘ یہ جنرل مشرف کے بنائے مقدمے بھگت رہے تھے اور وہ میاں نواز شریف کے تخلیق کردہ کیسزبھگتا رہے تھے‘ آپ ذرا سی تفصیل میں جا کر دیکھیں تو ایک ایسا وقت بھی آیا جب آصف علی زرداری پر مقدمے بنانے والے سیف الرحمن خان دونوں ایک ہی عدالت میں‘ ایک ہی جج کے سامنے پیش ہوئے‘ یہ دونوں ایک ہی قسم کی جیل میں بھی بند تھے جب کہ یہ وزیراعظم ہائوس جس میں کل میاں نواز شریف تیسری بار داخل ہوں گے‘ اس میں چودہ برسوں میں ایک چیف ایگزیکٹو (جنرل پرویز مشرف) اور سات وزراء اعظم آئے اور چلے گئے‘ یہ وزراء اعظم بھی فرعون کے لہجے میں بولتے تھے‘ ایڑیاں بجا بجا کر اللہ کی زمین پر چلتے تھے اور انگلی کے اشارے سے لوگوں کے مقدر بدلنے کا حکم دیتے تھے‘ ان کے ملاقاتیوں کی فہرست بھی بہت لمبی ہوتی تھی اور لوگ ان سے ملنے کے لیے‘ ان کی جھلک دیکھنے کے لیے بھی سارا سارا دن دھوپ میں بیٹھے رہتے تھے لیکن یہ لوگ آج کہاں ہیں‘ یہ لوگ آج زندہ ہونے کے باوجود اقتدار کے یتیم بن چکے ہیں‘ وہ جنرل پرویز مشرف جس کی غرور میں بھیگی پھنکاریں پوری دنیا سنتی تھی اور جس نے یہ دعویٰ کر کے خود کو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کا مقرب ثابت کرنے کی کوشش کی ’’ میں دوبار خانہ کعبہ کی چھت پر گیا ہوں‘‘ وہ آج اس ایوان اقتدار سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ’’ ہائوس اریسٹ‘‘ ہے جب کہ باقی وزراء اعظم ٹیلی ویژن پر ارکان اسمبلی کو حلف اٹھاتے اور میاں نواز شریف کو عوام کی طرف ہاتھ ہلاتے دیکھتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ ہم اسے لوگوں پر پھیرتے رہتے ہیں‘ یہ وقت کل راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کا تھا اور یہ آج میاں نواز شریف کے دروازے پر کھڑا ہے‘ اللہ تعالیٰ میاں نواز شریف کو اس تکبر سے بچائے جس کے آخر میں بینچ اور فائلیں آتی ہیں‘ اللہ کرے نواز شریف اس بار یہ سمجھ جائیں اقتدار کی ہر چیز موم کی ہوتی ہے‘ یہ زیادہ دیر تک وقت کی تپش برداشت نہیں کر سکتا اور چند دن بعد جنرل مشرف ہوں یا نواز شریف دونوں برابر ہوتے ہیں‘ مجبور‘ لاچار‘ پریشان اور نادم۔کاش میاں صاحب سمجھ جائیں اگر انھوں نے اس بار نہ سمجھا تو وہ وقت آتے دیر نہیں لگے گی جب یہ ایک ہی بینچ پر جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھے ہوں گے اور صاحب اندر میٹنگ میں مصروف ہو ں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔