پرانا اور نیا پاکستان

ظہیر اختر بیدری  منگل 4 جون 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

الیکشن کے بعد پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کی جو آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ اب صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ساری ’’جمہوری دنیا‘‘ اس مسئلے سے دوچار ہے البتہ پاکستان میں یہ مسئلہ اس لیے منفرد بن گیا ہے کہ یہاں جیتنے والی اور ہارنے والی تقریباً تمام جماعتوں کو یہ شکایت لاحق ہوگئی ہے۔ دھاندلیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں سب سے اونچی آواز تحریک انصاف کی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف یہ یقین کیے بیٹھی تھی کہ 11 مئی کو وہ حکمران جماعت کی حیثیت سے ابھرے گی اس خواہش کے پورا نہ ہونے کا منطقی اور نفسیاتی ردعمل تحریک انصاف کے احتجاج میں شدت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔

تحریک انصاف اگرچہ اپنی خواہش کے مطابق حکمران جماعت بن کر تو نہ ابھر سکی لیکن وہ ملک کی تیسری بڑی جماعت ضرور بن گئی۔ یہ اعزاز اگرچہ عمران خان کی 17 سالہ صبر آزما جدوجہد کو جاتا ہے لیکن تحریک انصاف اگر مستقبل میں اور آگے بڑھنا چاہتی ہے تو اسے سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ تیسری بڑی پارٹی کی حیثیت سے اس کی کامیابی کی وجہ کیا ہے۔عمران خان کی ساری انتخابی مہم اگرچہ میاں برادران اور آصف علی زرداری پر جارحانہ حملوں پر مشتمل ہے اور اس کا ایک نفسیاتی فائدہ یہ ہوا کہ عوام جو بات آپس میں کر رہے تھے وہ بات عمران خان کے منہ سے جارحانہ انداز میں سن کر انھیں ذہنی تسکین بھی ہوئی اور وہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے پر مجبور ہوئے اس حقیقت کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ عوام کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ کیا اس کے منشور اس کے پروگرام کا نتیجہ تھیں یا سابقہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی کا ردعمل؟

عمران خان نے تحریک انصاف کے منشور کے حوالے سے دو باتوں پر اصرار کیا ہے۔ایک یہ کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد 30 دن کے اندر ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردیں گے دوسرے یہ کہ عوام کو گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلا دیں گے۔ اس کے ساتھ ان کا نعرہ ’’ایک نیا پاکستان‘‘ رہا ہے۔ سب سے پہلے کرپشن کی گہرائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی ہے اس کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس نظام کو ختم نہیں کیا جاتا۔ اگر عمران خان کا مقصد یہ رہا ہے کہ وہ کم ازکم اعلیٰ سطحی کرپشن کو ختم کردیں گے تو عمران خان اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اعلیٰ سطحی کرپشن کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سمیت جن اداروں نے سخت جدوجہد کی اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ایک بیوروکریٹ 86 ارب روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کرکے بڑی آسانی کے ساتھ ملک سے فرار ہوگیا۔ لہٰذا کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ محض خیال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔

آج پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی ہے۔ خیبر سے کراچی تک ہزاروں بے گناہ انسان اس عفریت کی نذر ہورہے ہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ملک کی دو بڑی اور حریف جماعتوں کو تو انتخابی مہم چلانے کی کھلی آزادی حاصل رہی اور ملک کی تین جماعتوں پی پی پی، متحدہ اور اے این پی کو بہ جبر انتخابی مہم چلانے سے روک دیا گیا اور چھوٹی موٹی کارنر میٹنگز کرنے والے کارکنوں اور رہنماؤں کو بھی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ یہ سزا انھیں ان کی پانچ سالہ ناقص کارکردگی کے عوض نہیں دی گئی بلکہ اس لیے دی گئی کہ یہ جماعتیں اپنے سیاسی نظریات کے حوالے سے لبرل اور ترقی پسند ہیں کیا اس کھلی امتیازی پالیسی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ دونوں جماعتیں مذہبی انتہاپسندوں کی پسندیدہ جماعتیں ہیں؟ اس کا ثبوت اس حقیقت سے بھی ملتا ہے کہ یہ جماعتیں ہمیشہ دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریزاں رہیں اور پاکستانی عوام کے قتل عام، پاکستانی حساس اداروں کی تباہی کو امریکا کی جنگ کا نام دیتی رہیں۔ یوں اس واضح جنگ کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرتی رہیں ۔

تحریک انصاف کے قائد کا نعرہ ’’نیا پاکستان‘‘ ہے۔ جب نئے پاکستان کی بات کی جاتی ہے تو لازماً پرانے پاکستان پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں جو علاقے پاکستان کو ملے بدقسمتی سے وہ علاقے قبائلی، سرداری اور خانی نظام میں جکڑے ہوئے انتہائی پسماندہ علاقے تھے جہاں عملاً جاگیردارانہ نظام نافذ تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے حکمران ان پسماندہ ترین نظاموں کو تبدیل کرنے کے لیے ان علاقوں میں تعلیم لازمی کرتے اور صنعتوں کا جال بچھا کر انھیں ترقی یافتہ معاشروں میں ہونے کی کوشش کرتے لیکن ہوا یہ کہ ان علاقوں کو آزاد قبائل کا نام دے کر انھیں ملک بھر کے جرائم پیشہ لوگوں کی پناہ گاہ بنادیا گیا اس پر ظلم یہ ہوا کہ ضیاء الحق نے ان انتہاپسند طاقتوں کو امریکی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ امریکا تو اس جہاد سے روس کو افغانستان سے نکال کر بھاگ لیا لیکن اس کے چھوڑے ہوئے مجاہد آج پورے پاکستان کو خون میں نہلا رہے ہیں اور ہمارے رہنما اسے امریکا کی جنگ کہہ رہے ہیں۔

ہم نے پرانے انتہائی پسماندہ پاکستان کے عناصر ترکیبی کا مختصر ذکر کردیا ہے تاکہ اس پس منظر میں نئے پاکستان کی تشکیل پر غور کیا جاسکے۔ عمران خان جس نئے پاکستان کا نعرہ لگا رہے ہیں اگر اس کا مقصد ہمارے سیاستدانوں کی روایتی عوام کو دھوکا دینے کی نعرے بازی ہے تو ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں۔ اگر وہ خلوص نیت اور ایمانداری سے نئے پاکستان کی بات کر رہے ہیں تو پھر انھیں نئے پاکستان کے عناصر ترکیبی کا ادراک ہونا چاہیے۔نیا پاکستان نہ ہمارے کسی ماڈرن شاپنگ پلازہ میں مل سکتا ہے نہ باہر سے امپورٹ کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کی تعمیر پرانے پاکستان پر ہی کرنا ہوگی۔ نئے پاکستان کا مطلب جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے ہر شعبے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

پرانے پاکستان میں قبائلی سرداری اور جاگیردارانہ روایات کو مذہبی ضرورت کا درجہ دیا گیا ہے اس ذہنیت کو تبدیل کرنا ہوگا۔ پرانے پاکستان میں تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑایا جارہا ہے۔ اس بے ہودگی کو روک کر جگہ جگہ نئے تعلیمی ادارے قائم کرنا اور تعلیم کو مفت اور لازمی کرنا ہوگا۔ پرانے پاکستان میں فرقہ وارانہ نفرتوں کو قتل وغارت تک پہنچا دیا گیا ہے نئے پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی محبت اور اخوت کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ پرانے پاکستان میں صنعتی ترقی کو شجر ممنوعہ بنادیا گیا ہے نئے پاکستان میں صنعتی ترقی کو فروغ دینا ہوگا، صنعتی ترقی کے لیے امن وامان شرط اول ہے جس کے لیے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، سماجی جرائم کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ زرعی اصلاحات لانا اور سردرای اور قبائلی نظام کو بتدریج ختم کرنا ہوگا۔ یہ نئے پاکستان کے عناصر ترکیبی ہیں خان صاحب کو اگلے پانچ سالوں میں اس سمت میں پیش رفت کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی جس کے لیے نعروں کی نہیں سخت محنت اور نظریاتی یکسوئی کی ضرورت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔