مقامی حکومتیں اور طرز حکمرانی کا بحران 

سلمان عابد  اتوار 23 ستمبر 2018
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

کسی بھی سیاسی اور جمہوری معاشروں میں اگر جمہوریت کی ساکھ ، افادیت، شفافیت ، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور انصاف پر مبنی نظام دیکھنا ہے تو اس کے لیے مقامی سطح کے نظام کا جائزہ لینا ہوگا۔

ایک مشہور قول ہے کہ اگر مقامی سطح پر نظام کی بنیاد جمہوری اور شفافیت پر مبنی نہیں تو اوپر کی سطح پر موجود سیاسی اورجمہوری نظام اول اپنی افادیت یا ساکھ کھودیتا ہے اور دوئم یہ نظام مخصوص طبقات کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے ۔عام آدمی کا سب سے زیادہ استحصال ایک ایسے نظام میں ہوتا ہے جہاں مقامی سطح پر موجود نظام لوگوں کی بنیادی ضرورتوں اورمسائل کا ادارک یا فہم نہیں رکھتا۔

پاکستان میں حکمرانی کے نظام پر شدید تنقید کی جاتی ہے ۔ کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت، اہل دانش کا طبقہ اور میڈیا سمیت تمام فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ ہم حکمرانی کے بحران سے گزررہے ہیں ۔لیکن فیصلہ سازی میں موجود فریقین جو عملا فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ حکمرانی کے نظام کو شفاف بنانے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کو مسائل کے حل کو سمجھنے کا فہم نہیں یا وہ خود ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو عوامی مفادات سے زیادہ ان کے ذاتی ، خاندانی اور جماعتی بنیادوں پرکام کرسکے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان جمہوریت کے ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے، لیکن مقامی نظام کی حکمرانی میں ہم ارتقائی عمل سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ملک کی سیاسی اشرافیہ یا حکمران طبقوں  میں مقامی نظام حکومت ان کی ترجیحات میں بہت پیچھے ہے۔ جو سیاسی جماعتیں، قیادتیں،اہل دانش جمہوریت کی بہت زیادہ بڑھ چڑھ کر دہائی یا سول بالادستی کی بات کرتے ہیں ان کے ایجنڈے میں بھی مقامی نظام حکومت کی بحث بہت کمزور ہے۔

جو سیاسی جماعتیں قانون اور آئین کی بالادستی کی بات کرتی ہیں وہ اسی آئین کی شق140-Aکو بھول جاتی ہیں جو سیاسی اورجمہوری حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ ان مقامی حکومت کے نظام کے تحت بروقت اور تسلسل کے ساتھ انتخابات کو یقینی بنانے، منتخب افراد کو سیاسی، انتظامی اورمالی اختیارات دینے اور عورتوں،کسانوں، اقلیتوں، مزدوروں سمیت نوجوان طبقہ کی نمایندگی کو یقینی بنانا ہے۔

معروف دانشور اورمقامی حکومتوں کے ماہر زاہد اسلام اس اہم موضوع پر کئی دہائیوں سے تسلسل سے فکری کام کرکے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی توجہ اس اہم موضوع پر دلاتے ہیں۔ زاہد اسلام نے اپنی کتاب میں برصغیر کے مقامی حکومتوں کے تصور، پاکستان کا سیاسی وسماجی ارتقا، حکمرانی کا بحران،مقامی حکومتوں کے مختلف ماڈلز،محروم طبقات اور ان کی نمایندگی،مقامی حکومتوں کی قانون سازی سمیت دیگر موضوعات پر تفصیل کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔کیونکہ جو سیاسی حکومتیں وہ اس مقامی نظام حکومت کو اپنا حلیف سمجھنے کے بجائے اپنا حریف سمجھتی ہیں۔بالخصوص ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی اس مقامی نظام کو اپنے لیے خطرہ اورمتبادل نظام سمجھتے ہیں اور یہ ہی طبقہ اس نظام کو موثر بنانے میں سب سے زیادہ رکاوٹیں بھی پیدا کرتا ہے ۔کیونکہ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ اگر ترقیاتی فنڈز مقامی نظام حکومت کے ماتحت ہونگے تو ان کی عملی طور پر اسمبلیوں اورمقامی سیاست میں افادیت ختم ہوجائے گی، جو ان کو قبول نہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی سیاست میں جس سیاسی نظام کو کامیابی کی بنیادی کنجی قرار دیتے ہیں اس میں مقامی نظام حکومت کو فوقیت حاصل ہے۔اس وقت عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں براہ راست ان کی حکومت ہے۔ اگرچہ اس وقت چاروں صوبوں میں مقامی نظام حکومت موجود ہے۔خیبر پختونخوا اور سندھ میں پہلے سے ہی موجود حکومتیں دوبارہ انتخاب جیت کر سامنے آئی ہیں۔ اس لیے وہاں بحران کی کیفیت نہیں۔البتہ سندھ میں پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کے درمیان مقامی نظام پر سرد جنگ موجود ہے۔

اصل معرکہ بلوچستان اوربالخصوص پنجاب ہے۔ جہاں پہلے سے موجود صوبائی حکومتوں کو حالیہ انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے سیاسی تناظر میں یہاں نظام کی تبدیلی کا عمل ناگزیر لگتا ہے ۔کیونکہ نئی صوبائی حکومتیں سیاسی بنیادوں پر ضلعی نظام میں اپنے سیاسی مخالفین کی حکومتوں کو برداشت کرنے کے بجائے متبادل نظام لانے کو تریح دیں گی۔بیوروکریسی اورانتظامیہ کو مضبوط بنانے کے بجائے زیادہ انحصار عوام کے منتخب نمایندوں پر کیا جائے تاکہ وہ اس سیاسی اور جمہوری نظام میں مقامی سطح پر ووٹروں کو جوابدہ ہوں۔

ہر قسم کی صوبوں میں مقامی نظام کے متبادل کمپنیوں اور اتھارٹیوں کو ختم کر کے مقامی نظام حکومت سے جوڑا جائے۔ امن و آمان کے لیے مقامی نظام میں کمیونٹی پولسینگ کو متعارف کروایا جائے۔عورتوں کی 33 فیصد نمایندگی کو یقینی بنایا جائے۔اسی طرح کسانوں، اقلیتوں، مزدوروں اور نوجوان طبقات کی نمایندگی بھی یقینی ہو۔پولیس کے نظام میں شفافیت پیدا کرنے کے لیے پبلک سیفٹی کمیشن اور کمیونٹی کی شمولیت کے لیے سٹیزن کمیونٹی بورڈ ز متعارف کروائے جائیں۔

مقامی حکومتوں کا نظام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ارکان اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز کو ختم کیا جائے اور مقامی ترقی مقامی اداروں کی بنیاد پر ہو۔ہر ضلع کا اپنا ترقیاتی منصوبہ ہو اور اسی بنیاد پر وسائل کی تقسیم بھی ہو۔اگر حکومت چیرمین یا ناظم کے ضلعی انتخاب براہ راست کرنا چاہ رہی ہے تو اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔اسی طرح دنیا میں مقامی نظام میں لوکل ایسوسی ایشن کے نظام کو بھی متعارف کروایا جائے۔لیکن یہ کام عجلت میں نہیں ہونا چاہیے۔

حکومت کی ذمے داری ہے کہ سب فریقین اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نظام کو حتمی شکل دے۔ صوبائی اسمبلیوں میں اس پر بحث کی جائے اور اس پر پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔نظام کو حتمی شکل دینے سے قبل اسے عوامی مباحث کے لیے پیش کیا جائے۔ اگرچہ مقامی نظام ایک صوبائی موضوع ہے،لیکن اس میں وفاق کا کردار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی صوبہ مقامی نظام، انتخابات اور اس کے بنیادی فرئم ورک سے انحراف کرے تو وفاق اس کو جوابدہ بناسکے۔کیونکہ ہمیں دنیا سے سبق سیکھنا چاہیے کہ حکمرانی کے بحران کا حل مضبوط، مربوط مقامی حکومتوںکا نظام ہے اور یہ ہی ہماری بنیادی ترجیح بھی ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔