مذہبی رواداری کی عظیم روایت  

زاہدہ حنا  اتوار 23 ستمبر 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

صبح سویرے ایک نوجوان کا فون آیا ۔ حیرت اس کے لہجے سے جھلک رہی تھی ۔’’آپ کے اخبار میں آج جو خبریں اور تصویریں چھپی ہیں،کیا وہ سچ ہیں ؟‘‘

’’اخباروں میں روزانہ بہت سی خبریں اور تصویریں شائع ہوتی ہیں ،آپ کن تصویروں کی بات کر رہے ہیں؟ ‘‘ میں نے سوال کیا ۔

’’آج آپ کے اخبار میں یہ خبر اور رنگین تصویریں چھپی ہیں کہ ہندو بھی تعزیے بناتے ہیں اور ان کے تعزیے مرکزی جلوس میں شامل ہوتے  ہیں ۔‘‘ نوجوان کے لہجے کی حیرت کم نہیں ہوئی تھی ۔

یہ سوال اس بات کا اشارہ تھا کہ ہمارے یہاں سے رواداری اور مذہبی تہواروں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی شراکت داری کا تصور کم ہوگیا ہے ۔ ’’ایکسپریس ‘‘ میں 100برس پرانے مندر میں بننے والے اس تعزیے کا ذکر ہے جو مائی جنت کا تعزیہ کہلاتا ہے ، وہ 1933ء سے ایک ہی خاندان بنا رہا ہے ۔ یہ سائیں دھن جی کا خاندان ہے جو بے اولاد تھے ۔ ان کے کسی دوست نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ تعزیہ بنانے اور اٹھانے کی منت مانگ لیں ۔ سائیں دھن جی نے ایسا ہی کیا ، ان کے یہاں اولاد ہوئی اور اس کے بعد سے آج تک ان کا خاندان مائی جنت کے نام سے یہ تعزیہ اٹھاتا ہے ۔ اسے بنانے میں سائیں دھن جی کے خاندان کی عورتیں ، لڑکیاں اور نوجوان شریک ہوتے ہیں جب کہ آس پاس کے سنی اور شیعہ گھرانے مندر آکر اس تعزیہ کی زیارت کرتے ہیں اور نذر نیاز دیتے ہیں ۔

وہ نوجوان حیران تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے ۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ مذہبی رواداری کی ہماری قدیم روایات ہیں جن سے بے شمار لوگ جڑے ہوئے ہیں ۔ان ہی لوگوں کے دم سے فرقہ وارانہ تناؤکے بدترین دنوں میں بھی آبادیاں محفوظ رہتی ہیں اور کٹھن وقت سہولت سے گزر جاتا ہے ۔

میں اسے بتاتی رہی کہ اب سے صرف 70برس پہلے غیر منقسم ہندوستان میں عزاداری کی وہ مستحکم روایت موجود تھی جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہی ہندو اور سکھ بھی شریک ہوتے تھے اور آج بھی اس روایت کی جھلکیاں ہمیں مل جاتی ہیں۔ ایسے میں مجھے نور احمد میرٹھی کی کتاب ’’بوستان عقیدت‘‘ یاد آئی جو 700صفحات پر محیط ہے اور جس میں صرف ہندو اکابرین کے مر ثیے اور سلام کا انتخاب دیا گیا ہے، بیسویں صدی کے ایک ہندو مرثیہ نگار نتھو نی لال وحشی نے لکھا ہے کہ امام ؑ نے میدان کربلا میں یہ کہا تھا کہ فوج اشقیا اگر ان کا راستہ نہ روکتی تو وہ ہندوستان چلے جاتے ۔ نتھونی لال وحشی نے لکھا ہے :

وحشی کی اب ہے عرض کہ یا شاہ کربلا

اے کاش ہم بھی آپ پہ ہوتے یونہی فدا

بھارت کے ہندوؤں پہ بڑا حق ہے آپ کا

دل ان کا بے قرار ہے سن کر یہ ماجرا

نرغہ کیا جو امت خانہ خراب نے

ہندوستاں کو یاد کیا تھا جناب نے

ہندوستان آپ کی غربت پہ ہے نثار

آنکھوں میں پھررہا ہے وہ صحرا وہ ریگ زار

کانوں میں گونجتی ہے دکھے دل کی یہ پکار

ہے کوئی اس گروپ میں بیکس کا غم گسار

ہے کوئی جو ہماری بلاؤں کو رد کرے

ہے کوئی جو حسینؓ کی آکر مدد کرے

اس تذکرے میں ڈیوڈ متھیوز بھی آتے ہیں جنہوں نے میرانیس کے مشہور مرثیے ’’جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے‘‘ کا منظوم انگریزی ترجمہ کیا اور ادب دوستوں سے علم پروروں سے داد پائی ۔

روپ کنور کماری نے متعدد مرثیے اور سلام کہے۔ کربلا کے میدان میں وقت عصر جب حسین ؑ ابن علی ؑ کا سر اتارنے کے لیے شمر نے اپنا گھٹنا امامِ اعلیٰ مقام کے سینے پر رکھا تو اس منظر کو روپ کنورکماری نے کس شدت اور رقت سے نظم کیا ہے :

ترے نبی کا نواسہ ہے ابن حیدر ہے

بتول بنت پیمبر اسی کی مادر ہے

بدنِ رسول خدا کا یہ جسم اطہر ہے

چڑھا ہے جس پہ تو یہ سینہ و پیمبر ہے

امام خلق شہنشاہ مشرقین ہے یہ

چڑھا جو دوش نبیؐ پر وہی حسینؓ ہے یہ

اسی طرح مہاراجا سرکشن پرشاد کے اشعار ہمیں اس انتخاب میں ملتے ہیں ۔ شاد اپنا تعارف یوں کراتے ہیں ’’میں تعصب اور نفرت کو بری نظر سے دیکھتا ہوں ۔ ہر مذہب اور قوم کی عزت کرتا ہوں ۔ انصاف ، دوستی اور عدل کو انسان کے بہترین جوہر سمجھتا ہوں کیوں کہ انصاف ہر متنفس اور حکومت کے لیے بہترین خصلت ہے ‘‘۔

میرٹھی صاحب نے مہاراجا کا مرثیہ نقل کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان کا فارسی کلام بھی جس میں شاد کہتے ہیں ۔

کافر تو مگو مرا کہ بہتان است ایں

وز دل بر ایں گماں مسلمان است ایں

من صوفی صافیم موحد اے شاد

عارف تو بگو مرا کہ عرفانست ایں

لبھورام جوش ملسیانی جناب عباس کی شہادت کو یوں  رقم کرتے ہیں :

لو آگئے عباسؓ دلاور لبِ دریا

لو تیغِ عدو رہ گئی کٹ کر لبِ دریا

کہتے تھے ہر اک موج کے تیور لبِ دریا

طوفان اٹھائیں نہ ستمگر لبِ دریا

پانی بھی کسی کو نہ دیا، اہلِ ستم نے

پیاسے تھے بہتّر کے بہتّر لبِ دریا

پروفیسر تلوک چند محروم ہمارے ایک جید شاعر تھے ۔ انھوں نے شہدائے کربلا کو ایک نئے رنگ سے یاد کیا ہے۔ دریائے فرات سے محروم کا مکالمہ خاصے کی چیز ہے :

بے گناہوں کے لہو کی یہ بھی اک تاثیر ہے

اس پہ حیرت کیا جو خاکِ کربلا اکسیر ہے

تین دن سے تشنہ لب ہیں کربلا کے بہیماں

ساحلِ دریا پہ قابض دشمنِ بے پیر ہے

چاند سے چہرے ہوئے اس دشت میں پیوندِ خاک

’’ذرّہ ذرّہ کربلا کا نور کی تصویر ہے‘‘

کالی داس گپتا رضا لکھتے ہیں :

کچھ جمع ستمگار ہیں دریا کے کنارے

کچھ حق کے نگہدار ہیں دریا کے کنارے

کچھ سر کے خریدار ہیں دریا کے کنارے

کچھ مرنے پہ تیار ہیں دریا کے کنارے

کس جنگ کے آثار ہیں دریا کے کنارے

جو ہم پہ ہوں تو باقی نہ رہے اٹھنے کی طاقت

ہے پاؤں تلے ریت سروں پر ہے تمازت

سوکھی ہے زباں سب کی یہ ہے پیاس کی شدت

پانی کے نہیں پاس پھٹکنے کی اجازت

ہر سمت سے دشوار ہیں دریا کے کنارے

نانک چندر سریواستوا عشرت نے دریائے فرات سے یوں مکالمہ کیا ہے :

خواب میں کل آئی تھی نہرِ فرات

چل پڑی کچھ کربلا کی اس سے بات

میں یہ بولا غیظ و استعجاب سے

اس سراپا اضطراب خواب سے

میں نے مانا سنگ دل تھے اشقیا

تیری غیرت سے مگر کیا ہوسکا

اشک ہے ، رقّت ہے ، آہِ سرد ہے

پیچ و تاب درد میں تو فرد ہے

کس طرح تو دیکھتی ہی رہ گئی؟

جو نہ سہہ پانا تھا کیونکر سہہ گئی

سروجنی نائیڈو کا شمار ایک اہم قوم پرست رہنما اور ایک جید شاعر کے طور پر ہوتا ہے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کی علمبردار تھیں اور مسلمان ان کی فراخ دلی اور وسعت القلبی کے بے پناہ معترف تھے۔ وہ انگریزی زبان کی شاعرہ تھیں۔ انھوں نے ’’شب عاشور‘‘ پر انگریزی میں ایک نظم کہی جس کا اردو ترجمہ مولانا صفی لکھنوی نے کیا:

برہنہ پا ، سیاہ پوش ، چشم سفید ، اشکبار تری

مصیبتوں پہ آہ ، روتی ہے خلق زارزار

رواداری اور مذہبی فراخ  دلی سے جڑی ہوئی یہی روایتیں ہیں جن سے حسینی برہمنوں کا سلسلہ قائم ہے۔ قرۃ العین حیدر اور انتظار صاحب نے ان حسینی برہمنوں کا جا بجا ذکر کیا ہے ۔ یہی وہ لوگ اور وہ اقدار ہیں جن میں آج بھی برصغیر کی ایک مشترک تہذیب سانس لیتی ہے ۔ وہ تہذیب جو انسان دوستی اور انصاف پروری میں یقین رکھتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔