دھند وادی میں اُمڈآئی تھی!

راؤ منظر حیات  پير 24 ستمبر 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

نتھیاگلی پہنچتے ہوئے شام ہوچکی تھی۔ لگ رہا تھا کہ سورج تھک ہارکراب جانے کی اجازت چاہ رہا ہے۔ گاڑی اسدچلارہاتھااورکم ازکم مجھ سے تو بہت بہترطریقے سے چلا رہاتھا۔ میں دوبرس بعداس جگہ آیا تھا۔

اہم چیزجودیکھنے میں آئی، وہ تھی درختوں کی قطاریں۔ کم ازکم دوسال پہلے سے زیادہ۔لگتا ہے کسی کوآخرکارقدرت کے عظیم تحفے یعنی درخت اُگانے اوران کی حفاظت کاخیال آہی گیا ہے۔ جہاں تک انسانی نظرجاسکتی ہے،ہرے بھرے درخت نظرآتے ہیں۔ چلتی ہوئی گاڑی سے ایسے نظر آرہا تھا کہ یہ ہمارے ساتھ ساتھ بھاگ رہے ہیں۔ نتھیاگلی آنے سے پہلے ایک اورنظارہ بھی عام ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ بے تحاشا بندرجنگل سے نکل کر آرام سے باہربیٹھ جاتے ہیں۔گاڑیوں والے رُکتے ہیں، بندروں کوکھانے کی کوئی چیز دیتے ہیں۔

بندر کسی تکلف کے بغیرسڑک کے کنارے پر کھاناشروع کردیتے ہیں۔یہی وہ موقعہ ہے جس وقت لوگ فون سے ان کی تصویریں لینی شروع کردیتے ہیں۔جب بندر سیرہوکرکھالیتاہے توواپس جنگل میں چلا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جانورتواپنی بھوک مٹاکرواپس چلے جاتے ہیں۔ مگر یہ انسانی بھوک ہے جوکبھی ختم ہی نہیں ہو پاتی۔ وسائل بڑھانے کی ایک ایسی خوفناک دوڑلگی ہوئی ہے جس سے معاشرے میں شدیدعدم توازن پیدا ہوچکا ہے۔ ہر آدمی امیر نہیں،بہت زیادہ امیر ہونا چاہتا ہے۔ یہ نہیں جانتاکہ دولت اپنے ساتھ مسائل کاایک انبارلاتی ہے۔ دولت مند باپ کی موت اکثراوقات ناخلف اولاد کے لیے بہترین خوشخبری ہوتی ہے۔کیونکہ اسے اپنے تمام ارمان بغیرمحنت کے آئی دولت سے پوری کرنے کاموقع ملتا ہے۔

نتھیاگلی میں ریسٹ ہاؤس کافی بہترتھا۔وہاں پرانا سرکاری اسٹاف موجودتھا۔ریسٹ ہاؤس دراصل چیف سیکریٹری کاپراناگھرتھا۔سابقہ حکومت نے نتھیاگلی کے تمام ریسٹ ہاؤس عام آدمیوں کے رہنے کے لیے کھول دیے ہیں۔ تقریباً تین چارسال سے کوئی بھی شخص یہاں ٹھہر سکتا ہے۔اسٹاف بے حدملنسار اور اچھا تھا۔ شوکت ویٹر تھا یا باورچی۔ بہرحال مستعدی سے مہمانوں کے کام کررہا تھا۔ باقی دوبندوں کا نام بھول چکاہوں۔ کمرے کافی بہترحالت میں تھے۔ مگر ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ان کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کی اَشد ضرورت ہے۔صوبائی حکومت کی توجہ شائدابھی اس طرف گئی نہیں ہے۔

حکومت کے ڈاک بنگلے اورریسٹ ہاؤسز کو بہترین حالت میں رکھناصرف اورصرف حکومت ہی کے فرائض میں شامل ہے۔ان مقامات کوپیسہ کمانے کی مشین بنانامناسب نہیں۔علم میں آیاکہ سیاحوں سے تمام پیسے آن لائن،کسی صوبائی محکمے کے اکاؤنٹ میں چلے جاتے ہیں مگر ریسٹ ہاؤسزکی حالت بہتربنانے کے لیے وسائل مہیا نہیں کیے جاتے۔میراخیال ہے کہ کے پی کی حکومت کو ان ڈاک بنگلوں سے آنے والے کرایوں کاکم ازکم پندرہ سے بیس فیصدانہی کی بہتری پرخرچ کرنا چاہیے۔کچھ کمروں کافر نیچرآخری دموں پرتھا۔کرسیاں خودبتارہی تھیں کہ اب اپنی عمر پوری کرچکی ہیں۔پچاس فیصدفرنیچربوسیدہ ہوچکاتھا۔اسے فوری طور پر تبدیل کر دیناچاہیے۔دربارہ عرض کرونگاکہ یہ ڈاک بنگلے ایک صدی سے بھی پرانے ہیں۔اگران کی مناسب دیکھ بھال نہ کی گئی تویہ ختم ہوجائیںگے۔

رات کوکھانے کے لیے باہرنکلے توہرطرف سرہی سر تھے۔ لگتاتھا پوراپاکستان اس جگہ آچکاہے۔ اس وجہ سے مقامی لوگ اپناکاروبارخوب چمکارہے تھے۔اوسط درجے کے ہوٹل اور بالکل واجبی سے ریسٹورنٹ لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔پہلے تودل چاہاکہ واپس ریسٹ ہاؤس چلا جاؤں۔مگر فیصلہ کیاکہ نہیں،ہم سارے یہیں پرکھانا کھائیںگے۔ایک ریسٹورنٹ میں گئے۔کھچاکھچ بھراہوا تھا۔ویسے جومعیار لاہورمیں کھانے پینے کی اچھی جگہوں نے قائم کیاہے،وہ صرف اسی شہرکاخاصا ہے۔کسی دوسرے شہریاقصبے میں ایسا بلندمعیارنہیں مل سکتا۔غلطی سے وہی معیار اس ریسٹورنٹ میں بھی تلاش کرتارہا۔ہوٹل کامالک ایک کاؤنٹرکے پیچھے بیٹھا،انتہائی بوریت سے گاہگوں کو دیکھ رہاتھا۔ایسے لگتا تھا کہ اسے اس جگہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسے زبردستی یہاں بٹھایاگیاہے۔

صفائی بس معمولی سی تھی۔ خیرکھانابہت اچھا تھا۔رات کے دس بج رہے تھے۔ ایک دم، مکمل طور پر بھرا ہوا ہال خالی ہونے لگا۔جیسے جیسے رات ہوتی ہے،نتھیاگلی میں چہل پہل کم ہوتی جاتی ہے۔حالانکہ دنیامیں تفریحی مقامات کااصل حسن، رات کوہی باہر آتا ہے۔ مغربی ملک کے کسی اچھے مقام پر چلے جائیے۔صاف ستھرے ہوٹلوں اورکیفوں کی قطاریں بنی ہوتی ہیں۔ اصل مزا تو باہر بیٹھنے کاہی ہوتا ہے۔نتھیاگلی توبے حدخوبصورت جگہ ہے۔ یہاں توانتہائی جدیدطرزکے ہوٹل،دکانیں اور کیفے ہونے چاہئیں۔ چوڑی سڑکوں کے کناروں پر جگمگاتی ہوئی چھتریاں ہونی چاہئیں۔ جہاں لوگ طویل عرصے کے لیے بیٹھ کر خوبصورت مناظر کو آنکھوں میں سموسکیں۔مگرمجھے وہاں کسی قسم کی کوئی ترتیب نظر نہیں آئی۔اچھے معیارکے ہوٹل بھی ناپید نظر آئے۔ ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں۔مگراس تفریحی مقام میںہرگزہرگزبین الاقوامی سطح کی سہولیات میسرنہیں ہیں۔یہ کون کریگا۔کم ازکم اسکاجواب مجھے نہیں مل سکا۔

واپسی پرریسٹ ہاؤس پہنچنے کے لیے کافی چڑھائی کا سامناتھا۔پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ایک جگہ دوتین منٹ کے لیے رُک کردوبارہ چلنا پڑا۔ یہ تھکن بے حدعمدہ تھی۔ اگلے دن صبح کے وقت، کمرے کے باہرکرسیاں لگوائیں۔ کافی دیروہاں بیٹھارہا۔یہ بہترین وقت تھا۔مکمل خاموشی۔ حدِنظر تک درخت ہی درخت تھے۔صبح کوٹریفک بھی نہیں تھی۔شوربھی نہیں تھا۔لوگ بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ خاموشی کوپہاڑی کوؤں کی آوازکرختگی سے توڑتی تھی۔ عجیب بات تھی کہ وہاں کوؤں کے علاوہ بہت کم پرندے دیکھنے کو ملے۔شائدجنگلوں میں مقیم ہوں۔دونوں ویٹرتھوڑی دیر کے لیے سامنے آکر خود ہی مجھ سے باتیں کرنے لگے۔معلوم ہواکہ کے پی کی سابقہ حکومت نے تعلیم،صحت اوربنیادی سہولیات کے معاملے میں کافی ترقی کی ہے۔ہاں کچھ ناقابل یقین باتیںان لوگوں نے بتائیں۔

کہنے لگے کہ مقامی سرکاری اسپتال میں پہلے کوئی ڈاکٹرنہیں ہوتا تھا۔ اب رات دوبجے بھی جائیں تو ڈاکٹر موجود ہوتا ہے۔ اسکولوں کی حالت بھی بہت بہترہوئی ہے۔ دوردراز، پہاڑوں کے درمیان اسکولوں میں بھی استادمقررہ وقت پرموجودہوتے ہیں۔سرکاری اسکول بے حد بہترہوئے ہیں۔بتایاکہ پٹواری اورپولیس والے دونوں فوری طورپرجائزکام کردیتے ہیں۔ کوئی رشوت یاپیسے مانگنے کی جرات نہیں کرتا۔ اگریہ بات سچ ہے توسابقہ صوبائی حکومت واقعی احسن کام کررہی تھی۔مو قعہ نہیں ملا۔ ورنہ اسکول اوراسپتال خود جاکر دیکھتا۔بہرحال سنی سنائی بات کررہاہوں۔ہاں پولیس کے متعلق ایک اوربات سننے کو ملی۔

نتھیاگلی سے منسلک ایک گاؤں میں گاڑی چوری ہوگئی۔ مالک مقامی تھانے میں گیا۔تھانیدارنے ایف آئی آردرج کرنے میں لیت ولعل کی۔ایف آئی آردرج نہ ہوپائی۔ گاڑی کے مالک نے پشاورمیں آئی جی کے دفترمیں شکایت والی ای میل کی۔چندگھنٹوں بعد،آئی جی کے حکم سے پرچہ بھی درج ہوااورتھانیدارکوکاہلی اورسستی کی بدولت معطل کر دیاگیا۔یہ تمام باتیں سن کرخوشی ہوئی کہ چلوایک صوبے نے توحکومتی جبرکوکم کرنے کی کوشش کی ہے۔درختوں کی بے حد حفاظت کی جارہی ہے۔کچھ لوگوں نے بتایاکہ اگرکوئی درخت کاٹنے کی کوشش کرے،توملزم کوفوری طور پر سزا ملتی ہے۔پچاس ہزارجرمانہ توکم سے کم ہے۔اس سختی کی بدولت آج نتھیاگلی میں درخت پھل پھول رہے ہیں۔

آبادی کے حساب سے ہمارے پاس تفریحی مقامات بہت کم ہیں۔سیاحت کی بین الاقوامی سطح کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابرہیں۔نتھیاگلی جیسی جگہ کوبہتراورجدیدبنانا مشکل کام ضرورہے مگراتنابھی مشکل نہیں۔صرف حکومتی عزم چاہیے۔جومیری دانست میں، موجود ضرور ہے۔ مگر ابھی بھی بہت زیادہ طاقتورنہیں ہے۔واپسی پروادی سے بادل باہرنکل کرسڑک تک پہنچ چکے تھے۔ہرطرف دھندہی دھند تھی۔ وادی اوردرخت بالکل غائب ہوچکے تھے۔ایک مقام پر تو دھنداتنی نیچے آگئی کہ گاڑی اس میں گم سی گئی۔ایسے لگتاتھاکہ ہم بادلوں کے بالکل درمیان میں ہیں۔ویسے سارے مناظر، موسم  اور کیفیات انسان کے اندرہوتی ہیں۔ پرمسئلہ یہ ہے کہ اندرکے بادل کبھی نظرنہیں آتے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔