نئی حکومت اور ہائر ایجوکیشن کا چیلنج

سلمان عابد  پير 24 ستمبر 2018
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں سیاسی اور فوجی حکومتوںکا بڑا مسئلہ اپنی سیاسی ترجیحات اور بنیادی نوعیت کے مسائل سے جڑی منصوبہ بندی کے فقدان سے ہے۔ اگرچہ سب ہی حکمران یہ دعوی کرتے ہیں کہ بنیادی تعلیم یا پرائمری یا ہائر ایجوکیشن ان کی ترجیحات کا بنیادی مسئلہ ہے۔لیکن اگر ان حکمران طبقات کی ترجیحات، منصوبہ بندی اور وسائل کی تقسیم سمیت عملدرآمد کے عملی نظام کا جائز لیں تو اس میں دعووں اور حقایق کے درمیان ایک بڑا اور واضح تضاد نمایاں نظر آتا ہے۔تحریک انصاف کی سیاسی حکومت نے بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح تعلیم کی ترقی کو بنیادی مسئلہ قرار دیا اوران کے بقول جب تک ریاست اور حکمران انسانی ترقی کو بنیاد بنا کر ترقی کا ماڈل پیش نہیں کریں گے، پائدار ترقی ممکن نہیں۔لیکن پاکستان تعلیم کے میدان میں اوربالخصوص ہائر ایجوکیشن جیسے حساس معاملات میں بہت پیچھے کھڑا ہے۔

مثال کے طور پر ٹائمز آف ایجوکیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی پانچ سو اعلی ہائر ایجوکیشن کی درس گاہوں یا جامعات میں ہماری کوئی جامعہ شامل نہیں۔ہماری جامعات میں اعلی تعلیم کے مسائل، تحقیق کا فقدان، تعلیمی ماحول، نصاب سے جڑے مسائل،اساتذہ کی تربیت، سیاسی مداخلت، صوبائی حکومتوں کی جانب سے انتظامی بنیادوں پر کیے جانے والے فیصلوں میں تاخیری حربے، وفاق اور صوبو ں کے درمیان جاری تنازعات، صوبوں اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کے درمیان جڑے مسائل نے ہماری جامعات کو اعلی تعلیمی میعار میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔کئی جامعات کو سیاسی بنیادوں پر بغیر وائس چانسلریا ایڈہاک پالیسی کے تحت چلایا جارہا ہے۔

18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ صوبوں میں صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تشکیل کو یقینی بنا کر صوبائی سطح پر اعلی تعلیم کے معاملات کی کڑی نگرانی اور معیارات کی ساکھ کو موثر اور شفاف بنائیں۔ لیکن صرف پنجاب اور سندھ میں یہ ہائر ایجوکیشن کمیشن بن سکے۔ جب کہ بلوچستان اسمبلی نے اپنے صوبہ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے لیے مشترکہ قرار دادمنظور کی، جب کہ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی صوبہ میں خود مختار اعلی تعلیم کے ادارے کا ایک مسودہ تیار کیا ہے، پہلے ہی ہماری اعلی عدالتوں نے بھی ان صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے قانونی کردار کو تسلیم کرچکی ہیں۔بنیادی طور پر ماضی کی حکومتوں میں دو سطح پر اہم سنجیدہ نوعیت کے مسائل دیکھنے کو ملے۔

اول وفاق اور صوبوں کے درمیان ہائر ایجوکشن کے درمیان جنگ نے بہت زیادہ مسائل اور بداعتمادی پیدا کی، کیونکہ وفاق مرکزیت کے اصول پر بضد رہا اور صوبائی کمیشن کو خود مختار اورمضبوط بنانے میں رکاوٹیں پیدا کرتا رہا۔ دوئم صوبائی حکومتوں اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تناظر میں بھی ہمیں سرد جنگ دیکھنے کو ملی۔ صوبہ کی سیاسی حکومت بھی اختیارات کو ہائر ایجوکشن کمیشن کو دینے اورجامعات کو مضبوط بنانے کے بجائے سیاسی بنیادوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتی تھی۔پچھلے دنوں ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ پنجاب حکومت نے صوبائی ہائر ایجوکشن کمیشن کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس پر بہت سے علمی اور فکری حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑی۔یہ تو اچھی بات ہوئی کہ صوبائی ہائر ایجوکشن کے صوبائی وزیر راجہ یاسر نے فوری طور پر اس خبر کی تردید کی اورکہا کہ ایسی کوئی تجویز حکومتی سطح پر زیر غور نہیں۔ اس کی ایک وجہ سیاسی سطح پر 18ویں ترمیم کے رہنے یا نہ رہنے کے تناظر میں کافی تضاد پایا جاتا ہے۔

جب کہ ہم اس بحث میں ایک بنیادی بات یہ بھول جاتے ہیں کہ آج دنیا میںجن ممالک نے تعلیم کے میدان میں ترقی اور اپنی اعلی ساکھ بنائی ہے اس کی ایک بڑی وجہ عدم مرکزیت پر مبنی نظام ہے۔بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہم نے عدم مرکزیت کا نظام 18ویں ترمیم کی مدد سے کر تو لیا ہے، لیکن ہمارا عمل ابھی بھی مرکزیت پر مبنی نظام کے ساتھ کھڑا ہے اورہم اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے بجائے خود کو طاقت کا مرکز بنا کر حکمرانی کے نظام کو چلانا چاہتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پنجاب کے تناظر میں صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے جڑے ماہرین، پبلک یونیورسٹیوں کی سطح پر قائم  مختلف وائس چانسلرز پر مبنی فورم کی کمیٹی جس کی سربراہی گورنمنٹ کالج اینڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر امیر حسین شاہ، آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایوسی ایشن )فپواسا(جس کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین اور سیکریٹری پروفیسر عارف خان،ہائر ایجوکیشن پر کام کرنے والے ہائر ایجوکیشن ورکنگ گروپ جس کی سربراہی مرتضی نور کررہے ہیں نے حکومت پر ایک بار پھر زور دیا ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ کا مرکز صوبائی سطح پر قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مضبوطی اور اس کو زیاد ہ سے زیادہ خود مختاری دینے اوران اداروں میں سیاسی مداخلت کے عمل کو روکیں۔

ان کے بقول آئین کی شق270کے تحت قائم کیے گئے دس رکنی کثیر الجماعتی عملدرآمد کمیشن کی سفارشات کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل نے 27اپریل 2011ء کو فیصلہ کیا کہ فیڈرل لجسلیٹو لسٹ کے حصہ دوئم کے اندراج نمبر10کی روشنی میں وفاقی سطح پر محدود اختیارات کا حامل ایک ادارہ بطور کمیشن برائے معیارات برائے اعلی تعلیم ادارہ جات کام کرے گا جس کا مقصد صرف اعلی تعلیمی و تحقیقی و سائنس و تکنیکی اداروں کے لیے معیارات کا تعین کرنا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وائس چانسلرز صوبائی سطح پر خود تسلیم کرتے ہیں کہ صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مدد سے وہ اعلی تعلیم کی جنگ لڑرہے ہیں اوران کے درمیان جامعات کی بہتری کے تناظر میں مربوط اہم اہنگی موجود ہے۔

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر نظام الدین کے بقو ل جامعات میں اعلی تعلیم اور تحقیق کا فروغ صوبوں اور وفاق کی مشترکہ ذمے داری ہے ۔تاہم 18 ویں ترمیم اوراس کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں میں تعلیم پر وفاق اور صوبوں کا کردار واضح ہے۔ان کے بقول 18ویں ترمیم کے تحت تعلیم اب صوبائی مسئلہ ہے اور اسی بنیاد پر 2014ء میں صوبائی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ڈاکٹر نظام کہتے ہیں کہ ہم نے اس عرصہ میں پرائیویٹ سیکٹر میں موجود جامعات کو قانونی دائرہ کار میں لانے، ریگولٹری معاملات کی شفافیت سمیت پنجاب کی جامعات میں وائس چانسلرز کی مدد سے تحقیق سمیت ایک ایسے تعلیمی ماحول کی طرف توجہ دی ہے،جو تعلیمی اداروں میں محض ڈگری نہ دے بلکہ قومی سطح کے معاملات میں ایک متبادل بیانیہ بھی پیش کرے،طلبہ و طالبات میں غیر نصابی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر ایک نئے تعلیمی کلچر کو مضبوط اور مربوط بنایا جا رہا ہے۔وزیر اعظم عمران خان خود اختیارت کی نچلی سطح پرمنتقلی کے حامی ہیںاور تعلیم ان کی ترجیحات کا حصہ ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ان کی حکومت تمام سیاسی جماعتوں اورپارلیمنٹ سے منظور شدہ 18ویں ترمیم جو 2010ء میں منظور ہوئی جس کے تحت وفاق نے صوبوں کو بااختیار بنانے اورصوبے مقامی اداروں کو خود مختار بنانے پر توجہ دیں گے تاکہ یہ تمام ادارے مقامی یا صوبائی سطح پر خود مختار ہو سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وزیر اعظم ان اداروں میں موجود سیاسی مداخلتوں کو ختم کرکے قانون اورمیرٹ کی حکمرانی پر توجہ دیں ۔کیونکہ سیاسی مداخلتوں کے باعث ہماری جامعات اپنے اعلی معیارات کو برقرار رکھنے کے بجائے نیچے کی طرف جارہی ہیں جو خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔