خدا کے لیے کچھ سوچو

مقتدا منصور  پير 24 ستمبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

8 محرم کی صبح حسب معمول بیدار ہوا۔ ضروریات سے فارغ ہوکر اسٹڈی میں کمپیوٹر کھول کر جیسے ہی انٹرنیٹ کھولا، تو معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ کی سروس بند ہے۔ Provider کا موبائل فون پر sms آیا ہوا تھا کہ انٹرنیٹ سروس تین روز تک صبح 7 بجے سے رات 12 بجے تک بند رہے گی۔ موبائل فون سروس بھی اسی طرح تین روز تک بند رہی۔ حالانکہ شہر کے بعض دوسرے علاقوں میں انٹر نیٹ سروس 8 محرم کو کام کررہی تھی۔ بقول حکام یہ اقدامات عزاداری کے تین دنوں کے دوران امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کیے گئے۔ گویا اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری برسوں میں قانون کے نفاذ کے لیے سولہویں صدی کے فرسودگی پر مبنی اقدامات کا سہارا لیا جارہا ہے۔

عقل وخرد سے عاری کوتاہ بین حکمران ایسے فیصلے کرکے بغلیں بجا رہے ہیں کہ انھوں نے کس طرح امن وامان قائم رکھا اور مذہبی رسومات کے انعقاد کو احسن طریقے سے ممکن بنادیا۔ ان عقل کے اندھوں کو شاید یہ علم نہیں کہ ملک کا آئین ہر شہری کو اس کے عقائد اور ثقافتی روایات کے مطابق زندگی گزارنے اور مذہبی وثقافتی روایات کی آزادانہ ادائیگی کی اجازت دیتا ہے۔ مگر یہ سب وہاں ہوتا ہے، جہاں آئین کو مقدس صحیفہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی ہر شق پر عملدرآمد ریاست کا ہر ادارہ اور ہر فرد اپنی اولین ذمے داری سمجھتا ہو۔ جس معاشرے میں مقدس کتب کو پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کے بجائے جزدان میں لپیٹ کر طاقوں میں سجا دینے کی روایت ہو، وہاں آئین کو اہمیت دیے جانے کی توقع عبث ہے۔

ہر مہذب ملک ومعاشرے میں حکمرانوں اور ریاستی اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ شہریوں کو کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا کیے بغیر قانون کا نفاذ کیا جائے۔ مگر یہ ان معاشروں میں ممکن ہوتا ہے، جہاں شہریوں کے حقوق کو سمجھنے اور انھیں عزت دینے کی روایت ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں مقتدر اشرافیہ عوام کی اکثریت کو ڈھور ڈنگر سمجھتی ہو اور خود کو نوآبادیاتی حکمران، وہاں عوام کے بنیادی حقوق غصب کرلینا معمول کی بات ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فیوڈل مائنڈسیٹ رکھنے والی حکمران اشرافیہ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جدید خطوط پر تنظیم نو کرنے سے گریز کرتے ہوئے، طرز کہن پر اصرار کرتی ہے۔ جس کی سب سے بدترین مثال صوبہ سندھ ہے، جہاں نئے پولیس آرڈر 2002ء کی جگہ 1861ء کا پولیس آرڈر اس لیے دوبارہ نافذ کیا گیا، تاکہ فیوڈل سیاستدانوں کی نظم حکمرانی پر بالادستی کو یقینی بنایا جاسکے۔ لہٰذا فرسودہ نوآبادیاتی تنظیمی ڈھانچے کے تحت ذہانت سے عاری خوشامدی نفسیات رکھنے والے افسران اور اہلکاروں پر مشتمل پولیس سے دانشمندانہ فیصلوں کی توقع کرنا دیوار سے سر مارنے کے مترادف ہے۔

ذہنی پسماندگی میں مبتلا نااہل حکمران اشرافیہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی سزا ہمیشہ عوام کو دیتے ہیں۔ انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے احمقانہ اقدامات کے نتیجے میں فون کی سہولت معطل ہونے کی وجہ سے نجانے کتنے مریض اﷲ کو پیارے ہوئے اور نجانے کتنے ایمبولینس کی عدم فراہمی کے باعث اسپتال نہ پہنچ سکے۔ فارسی کی کہاوت ہے کہ خود کردہ را علاج نیست۔ وہ شدت پسند عناصر جو آج پورے ملک کے لیے دردسر بنے ہوئے ہیں، خود ریاست کے اپنے پروردہ ہیں۔ جس امریکا کے اشارے پر ان کی پرورش کی تھی، اب وہی امریکا ان کے خاتمے کا مطالبہ کررہا ہے، تو ہچکچاہٹ کیسی۔

وزیرستان آپریشن اپنی جگہ درست اقدام، مگر اصل شدت پسند تو ملک بھر کی گلیوں اور محلوں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ جن کی سرگرمیوں سے انتظامیہ مسلسل صرفِ نظر کرتی چلی آرہی ہے، بلکہ بعض مواقع پر حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔ ایسی صورت میں شدت پسندی اور فرقہ واریت کے ختم ہونے کی توقع کرنے کے بجائے اس کے مزید بڑھنے کے خدشات سر پر منڈلاتے رہتے ہیں۔

دنیا کی معلوم تاریخ میں کئی ایسی اقوام ہمارے سامنے ہیں، جنھوں نے اپنی قومی آزادی کے لیے کہیں مذہب، کہیں ثقافت اور کہیں نسلی تفاخر کو بنیاد بنایا۔ لیکن آزادی مل جانے کے بعد اپنی پوری توجہ مملکت کو فلاحی جمہوری ریاست بنانے پر مرکوز کردی۔ ماضی قریب کی تاریخ میں جنوبی افریقہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو بدترین نسلی امتیازات کا شکار رہا۔ آزادی کے بعد نیلسن منڈیلا اگر اسی نسل پرستی کو اپنا محور بناتے، تو سوائے کشت وخون وہاں کچھ نہ ہوپاتا۔ مگر انھوں نے Truth & Reconcilliation Commission بناکر حقائق تک رسائی تو ضرور حاصل کی، لیکن عام معافی دے کر ملک کو خونریزی اور تباہی سے بچالیا۔

اس کے برعکس ہمارے سروں پر روز اول ہی سے ایک ایسی کوتاہ بین، منافق اور موقع پرست مقتدر اشرافیہ مسلط چلی آرہی ہے، جس نے اکہتر برسوں کے دوران عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنانے کے سوا کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کیا۔ اب سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے ملنے والی سہولیات پر قدغن لگا کر بغلیں بجارہی ہے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ خدا کی مملکت قرار دیے جانے والے ملک میں عوام اپنی عبادات بھی سنگینوں کے سائے میں ادا کرنے پر مجبور کردیے گئے ہیں، جب کہ وہ ملک جسے دارالحرب کہتے ہماری اشرافیہ کی زبانیں نہیں تھکتیں، وہاں کسی عبادت گاہ پر آج بھی کوئی پہرہ نہیں ہے۔ حکیم سعید مرحوم کی شہادت پر ان کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’میں دارالحرب میں زندہ ہوں، وہ دارالسلام میں مارا گیا‘‘۔

وطن عزیز میں غیر مسلم اور مسلمانوں کے مختلف فرقے اور مسالک کیوں غیر محفوظ ہیں؟ اس پہلو پر کبھی کسی نے سنجیدگی سے غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اشرافیہ میں نہ اتنی بصیرت ہے اور نہ اخلاقی جرأت کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرسکے۔ اس ملک کو 80 فیصد عام شہریوں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا، جو نقصان پہنچایا ہے اور مسلسل پہنچ رہا ہے، وہ 5 فیصد اشرافیہ اور اس کے 15 فیصد حواریوں کی وجہ سے ہے۔ یہ اشرافیہ جو اپنی موقع پرستی اور منافقانہ رویوں کے سبب خود ملک دشمنی کاباعث بنی ہوئی ہے، اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں پر ملک دشمنی کا الزام لگا کر اپنے ملک دشمن اقدامات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس حقیقت کو کیوں قبول نہیں کیا جاتا کہ یہ ملک کسی ایک فرقہ یا مسلک کے لیے نہیں قائم کیا گیا تھا، بلکہ مسلمانان ہند کے تمام فرقوں، فقہوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے علاوہ اس ملک میں بسنے والے تمام غیر مسلموں کے لیے بنایا گیا تھا۔ اگر مسلکی بنیادوں پر قطعہ ارض کی ضرورت ہوتی تو کئی پاکستان درکار ہوتے اور ان کی قیادت ماڈرن طرز حیات والے محمدعلی جناح کے بجائے ہر مسلک کے علما کررہے ہوتے۔ مگر اپنے ملک کے قیام کے منطقی جواز اور بدلتی دنیا کے حقائق کو سمجھنے کے بجائے حکمران اشرافیہ نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے روز اول سے تہذیبی نرگسیت پر مبنی ایسا بیانیہ اپنایا ہے، جس نے ملک کو ان اکہتر برسوں کے دوران سوائے تباہی کے کچھ نہیں دیا۔

یاد رکھئے! یہ ملک ہمارے بزرگوں نے مذہبی جنون پرستی اور متشدد فرقہ واریت کے فروغ کے لیے نہیں بلکہ ایک جدید فلاحی ریاست بنانے کے لیے قائم کیا تھا۔ اس لیے اس ملک میں ایسا کوئی بیانیہ نہیں چل سکتا، جو لوگوں کوعقیدے اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا باعث ہو۔ لہٰذا ملک کو امن و استحکام کا گہوارا بنانے کے لیے فرسودہ بیانیہ سے جان چھڑا کر ایک نئے ترقی دوست بیانیہ کو تشکیل دیے بغیر پرامن معاشرتی تشکیلات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔