7 ارب انسانوں کی نجات

ظہیر اختر بیدری  پير 24 ستمبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کرۂ ارض کائنات کا ایک ایٹم کے ذرے سے چھوٹا حصہ ہے، یہ چھوٹا سا ذرہ اتنا بڑا ہے کہ کھربوں میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور اس پر 7 ارب انسان بستے ہیں۔ کرۂ ارض یا دنیا پر گفتگو دو حوالوں سے ہوسکتی ہے، ایک حوالہ کرۂ ارض کی تاریخ کا، دوسرا حوالہ کرۂ ارض پر بسنے والے 7 ارب انسانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کا۔ جہاں تک کرۂ ارض کی یعنی ہماری دنیا کی تاریخ کا مسئلہ ہے، کرۂ ارض ہمارے نظام شمسی کا ایک حصہ ہے اور ایسے نظام شمسی کائنات میں کروڑوں کی تعداد میں بکھرے پڑے ہیں۔

ماہرین ارض کا خیال ہے کہ کرۂ ارض کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال ہو رہے ہیں اور اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہوا تو کرۂ ارض ابھی ساڑھے تین ارب سال باقی رہ سکتا ہے، کیونکہ ساڑھے تین ارب سال بعد سورج اپنی توانائی کھو دے گا، یوں سورج کی حرارت پر زندہ رہنے والے تمام سیارے ختم ہوجائیں گے، جن میں ہماری دنیا بھی شامل ہے۔ دنیا کی عمر اگر چار ارب سال ہے تو ان چار ارب سال کے دوران کرۂ ارض پر کیا ہوتا رہا اس حوالے سے ہمارے پاس کسی قسم کی کوئی معلومات نہیں ہے۔ کیونکہ کرۂ ارض پر انسانی تاریخ دس پندرہ ہزار سال پر مشتمل ہے لیکن اتنا ضرور اندازہ ہوسکتا ہے کہ 4 ارب سال کے دوران دنیا لاکھوں بار اجڑی اور آباد ہوئی، اس دوران دنیا میں کس قسم کے نظام آتے اور جاتے رہے، اس کا ہمیں کوئی علم اس لیے نہیں کہ اس طویل دور کی ہمارے پاس کوئی تاریخ ہے، نہ ہوسکتی ہے۔

کرۂ ارض سے زندگی کا خاتمہ کیسے ہوتا رہا، یہ ایک اہم سوال ہے لیکن چونکہ ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی مستند معلومات نہیں ہیں، لہٰذا ہم اس سوال کو درگزر کرتے ہوئے اصل سوال یعنی کرۂ ارض پر بسنے والے 7 ارب انسانوں کی زندگی اور ان کے مسائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔انسانی معاشرے ہمیشہ طبقات میں بٹے رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور یہ طبقاتی تقسیم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس کا مشاہدہ کریں تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اس ظالمانہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے اگر کسی نے کوئی کردار ادا کیا تو وہ قابل تحسین ہے۔

ہمارے اکابرین اس تقسیم کو ختم کرنے والوں کے نام سے الرجک ہیں۔ یہ الرجک لوگ عوام نہیں بلکہ وہ خواص ہیں جن کے مفادات اس تقسیم سے وابستہ ہیں۔ اور جن لوگوں کے مفادات اس تقسیم سے وابستہ ہیں وہ دو فیصد کی ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں، لیکن ان کا پلہ اس لیے بھاری ہے کہ وہ اس نظام (سرمایہ دارانہ) پر قابض ہیں جو انسانوں کو طبقات میں تقسیم کرتا ہے، اس طبقاتی نظام کے حامیوں نے اس طبقاتی نظام کی جگہ لینے والے نظام سوشلزم کے خلاف اس قدر شدید پروپیگنڈا کیا اور ایسے عملی اقدامات کیے کہ سوشلزم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر رہ گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے بڑی شدت سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ سوشلسٹ نظام ناکام ہوگیا۔ ہم اس موضوع پر بات کرکے اپنا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتے کہ سوشلزم صرف اپنی داخلی کمزوریوں کی وجہ ختم ہوا یا اسے سامراجی ملکوں نے گہری سازشوں کے ذریعے ختم کیا۔ آج تک یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے متعارف ہونے کے بعد کسی نے ایسا معاشی نظام پیش نہیں کیا جو طبقاتی استحصال کو ختم کرے۔

سوشلزم وہ واحد نظام ہے جو انسانوں کو طبقاتی استحصال سے بچاتا ہے، خواہ اس میں بھی کمزوریاں ہوں لیکن اس کی ایک خوبی ایسی ہے جو سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کا گلا کاٹ دیتی ہے اور وہ خوبی ہے نجی ملکیت کا خاتمہ۔ آپ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم نہ کیجیے، صرف اس سے لامحدود نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیجیے، اس کا استحصالی کردار خودبخود ختم ہوجائے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام صرف ارتکاز زر ہی نہیں کرتا بلکہ جنگوں سمیت ہر قسم کی برائیوں کا یہ جنم داتا ہے۔ آج دنیا بھر میں دولت کی بہیمانہ ریس دیکھی جا رہی ہے، ہر شخص جس طرح دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کا عطیہ ہے، ہتھیار خواہ وہ کسی قسم کے ہوں، کسی نوعیت کے، ان سے انسانوں کو مارنے ہی کا کام لیا جاتا ہے، جس کے لیے پچاس بہانے بنا لیے گئے ہیں، جن میں قومی مفادات کا تحفظ سب سے بڑا بہانہ ہے۔ ہتھیاروں کی انڈسٹری میں کھربوں ڈالر لگائے گئے ہیں اور اربوں ڈالر کا منافع حاصل کیا جا رہا ہے۔ جنگیں خواہ ملکوں کے درمیان لڑی جائیں اس کا ایندھن غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے فوجی ہی بنتے ہیں۔ شاہوں کے زمانے سے لے کر جدید ترقی یافتہ دور تک جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان کا ایندھن غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے فوجی ہی بنتے رہے، خواہ ان کا تعلق کسی ملک، کسی مذہب و ملت سے ہو۔

جنگوں، نفرتوں، تعصبات کو جنم دینے والے نظام کا نام سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو اس کے سرپرستوں نے دنیا کے لیے ناگزیر بناکر رکھ دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں طبقاتی استحصال جس طریقے سے کیا جاتا ہے وہ ناقابل تصور ہے، بھوک اور بیماری سے ہر سال لاکھوں انسان موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ سرمایہ داروں کی زیر سرپرستی تشکیل دی جانے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس لیے اندھی، بہری اور گونگی بنی بیٹھی ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ان کی بینائی، ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ ہزاروں لوگ بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں، کیا بھوک اور بیماری انسانی حقوق میں شامل نہیں؟

ہر روز کوڑے کے ڈھیروں سے ہزاروں بچے رزق تلاش کرتے ہیں، بھوک سے مجبور لاکھوں لڑکیاں اپنا جسم بیچ کر اپنا پیٹ بھرتی ہیں اور مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقہ ہر ملک کی 80 فیصد دولت پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ اور یہ دولت کرپشن کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور اسی دولت کے ذریعے یہ طبقہ اقتدار پر قبضہ کرتا ہے۔ قبضے کا ماڈرن طریقہ ہے جمہوریت۔ ذرا اپنے اردگرد ہی نظر ڈالیے، اربوں کی کرپشن کے آپ نظارے کرسکتے ہیں۔ یہ ایک غلیظ استحصالی نظام ہے، اسے صرف اور صرف نجی ملکیت پر پابندی لگا کر ہی روکا جاسکتا ہے اور نجی ملکیت پر پابندی سوشلسٹ معیشت کا پہلا اصول ہے۔ سامراجی ملک سوشلزم کے خلاف خواہ کتنا ہی پروپیگنڈا کریں سوشلزم دنیا کے 7 ارب انسانوں کے مسائل کا واحد حل ہے اور اسی نظام کے ذریعے طبقاتی استحصال کی برائی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔