خارجہ محاذ پر بھی چوکس ہونے کی ضرورت ہے

سید عون عباس  منگل 25 ستمبر 2018
پاکستان کےلیے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شناخت اور تشخص کو باوقار انداز میں بحال کرائے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان کےلیے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شناخت اور تشخص کو باوقار انداز میں بحال کرائے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

9/11 کے بعد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں جس طرح پاکستان شامل ہوا اور اس سے ہونے والا ہماری قوم کا نا قابل تلافی نقصان کسی صورت بھلایا نہیں جا سکتا۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکا میں بننے والی ہر پالیسی صرف اور صرف امریکی و اسرائیلی مفادات کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہے۔ امریکا کو اس سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے کہ دنیا میں کون کہاں مر رہا ہے، کون سا ملک کس پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، کس قابض فوج نے شہریوں کے حقوق کو سلب کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ اس طرح کوئی بھی مثال لے لیجیے، امریکا آپ کو، فقط انصاف اور اس کے تقاضوں کو پارہ پارہ کرتا ہوا ہی دکھائی دے گا۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو فلسطین، کشمیر، برما، یمن، شام اور دیگر ممالک میں ہونے والی خونریزی کیخلاف امریکا کچھ نہ کچھ عملی اقدام ضرور کرتا۔

اب ذرا ایک نگاہ ہم وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ بیان پر ڈالتے ہیں جس میں انھوں نے قوم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ’’اب پاکستان کسی اور کی جنگ میں نہیں پڑے گا، خارجہ پالیسی صرف ملک کی بہتری کےلیے ہو گی، میں (عمران خان) دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شرکت کیخلاف تھا، لیکن جس طرح سے پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کیں، دنیا میں کسی بھی فوج نے ایسی کامیابیاں حاصل نہیں کیں‘‘۔ اب یہاں ایک بہت اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال میں وہ دہشت گرد تنظیمیں جو عراق، شام اور افغانستان میں فعال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آرہیں، کیا ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ وہ باطل قوتیں جو اقوام عالم میں تباہی مچانے کے ساتھ دنیا بھر کے امن و سکون کو تباہ کرنا چاہتی ہیں، کیا ان کیخلاف ایکشن نہیں ہونا چاہئے؟ میرے نزدیک بالکل ہونا چاہیے۔ اور شاید اسی لیے 39 ملکی اسلامی اتحادی فوج بھی بنائی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد اسلامی ممالک پر دہشت گردی کے منڈلاتے سائے کو ختم کرنا تھا، تاہم افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔

حال ہی میں تہران میں سہ ملکی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایران، روس اور ترکی کے صدور شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش)، النصرہ فرنٹ اور دیگر انفرادی دہشت گردوں کے علاوہ داعش اور القاعدہ سے منسلک ذیلی گروپس اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروپس کے مکمل خاتمے تک اپنا تعاون جاری رکھنے اور پوری دنیا کو ان دہشت گردوں کے خاتمے کی یقین دہانی بھی کرا دی۔

خطے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو ترکی، روس اور ایران کی جانب سے اس عمل کو اس لیے بھی بہترین قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ دولت اسلامیہ (داعش) اور اس جیسی دیگر تنظیمیں کسی ایک ملک کےلیے نہیں، بلکہ پوری دنیا کےلیے خطرہ ہیں؛ اور ان کا خاتمہ ہی دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کا واحد حل ہے۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے بہت اچھی بات کی کہ اب پاکستان کسی دوسرے کی جنگ میں شریک نہیں ہوگا، لیکن انھیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ان عالمی دہشت گردوں، جنہیں داعش (خارجی) کہا جاتا ہے، سے کسی بھی صورت مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

اگر احادیث کی روشنی میں بھی دیکھا جائے تو ابن نجم، البحر الرائق سے حدیث روایت ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خارجیوں کی نشانی کچھ یوں بتائی ہے کہ ’’خوارج سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت اور (نام نہاد دینی) حمیت ہو، اور وہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ وہ کفر یا نافرمانی کے ایسے باطل طریق پر ہے جو ان کی خود ساختہ تاویل کی بنا پر حکومت کے ساتھ قتال کو واجب قرار دیتی ہے۔ وہ مسلمانوں کے قتل اور ان کے اموال کو لوٹنا جائز سمجھتے ہیں۔‘‘

خوارج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ حق کے ساتھ مذاکرات کو ناپسند کریں گے، کسی مخصوص علاقے کو گھیر کر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کےلیے مرکز بنا لیں گے۔ اگر قرآن مجید کی روشنی میں بھی دیکھا جائے تو سورۃ المائدہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں، یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یا قید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کےلیے دنیا میں رسوائی ہے، اور ان کےلیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔‘‘ المائدہ، 5 : 33۔

ہر لحاظ سے یہ واضح ہے کہ خوارج کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو سکتے، ان کا واحد حل انہیں واصل جہنم کرنا ہے۔ اب جبکہ 39 ممالک کی اسلامی اتحادی فوج اپنا وہ مثبت کردار ادا نہیں کر پارہی جو اسے ادا کرنا چاہئے تھا تو ایسے میں پاکستان کی سول و عسکری قیادت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ارض پاک اور اس کی سرحدوں کی بھر پور حفاظت کےلیے ایسی حکمتِ عملی ضرور ترتیب دیں جس کے طفیل ان دہشت گردوں کا ملک میں داخلہ ناممکن بنا دیاجائے۔ یہاں یہ بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ ان دہشت گردوں کا قتال نہ صرف پاکستان کی بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں نہ صرف امریکا اور اسرائیل کی پیداوار ہیں بلکہ یہ دونوں ممالک ان تنظیموں کی براہ راست مالی معاونت بھی کرتے رہے ہیں، عالم اسلام کے خلاف امریکا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ اور سازشی نظریے کے حوالے سے یہ بات پہلے ہی ریکارڈ پر آچکی ہے۔ ان حالات میں اب کسی قسم کے خواب و خیالات میں رہنے کے بجائے امت مسلمہ کو بیدار ہوجانا چاہئے؛ کیونکہ عالمی امن ہی ہم سب کے محفوظ اور بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔

وزیر اعظم عمران خان چونکہ تبدیلی کے مشن پر گامزن ہیں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئی جہت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عالمی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا موقف پہلے ہی بہت واضح ہے اور اس نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف طویل جنگ بھی کامیابی سے لڑی ہے۔ دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنے کےلیے پاکستانی قوم اور پاک فوج نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے اور دنیا پاکستان کی ان قربانیوں کی معترف بھی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان امریکی دباؤسے مکمل طور پر نکلنے کے ساتھ ساتھ خطے اور پھر دنیا میں اپنا منفرد مقام بنائے۔ اب پاکستان کےلیے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شناخت اور تشخص کو باوقار انداز میں بحال کرانے کیلیے اقوام عالم کے سامنے اپنا مطمع نظر نہ صرف واضح انداز میں پیش کرے، بلکہ اس کٹھن وقت میں امت مسلمہ کی قیادت کا فرض بھی انجام دے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

 

سید عون عباس

سید عون عباس

بلاگر نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ اس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل جا ری ہے۔ ریڈیو پاکستان، جامعہ کراچی کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہنے کے علاوہ مختلف اخبارات اور رسالوں میں تحقیقی علمی و ادبی تحریریں لکھتے ہیں۔ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے صحافی اور ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔