بھارت امن سے باغی ہوگیا

 منگل 25 ستمبر 2018
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کو دہشت گردی قرار دے کر نہتے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کو دہشت گردی قرار دے کر نہتے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا پر دو تصاویر زیر گردش ہیں۔ یہ دونوں تصویریں جہاں مہذب انسانوں کو مغموم کررہی ہیں وہیں بھارت کے خلاف غصے کو بڑھانے کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ پہلی تصویر ایک بیٹی کی ہے جو اپنے شہید باپ سے لپٹی ہوئی ہے اور چیخیں مار مار کہہ رہی ہے ’’یوں چھوڑ کے نہ جانا بابل!‘‘ دوسری تصویر میں بھارتی فوج کی درندگی نمایاں دکھائی دی، ناپاک وردی میں ملبوس سپاہیوں نے کشمیری نوجوان کی لاش رسیوں سے باندھ رکھی ہے اور اسے مردہ جانور کی طرح گھسیٹ رہے ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا، یہ دو چار برس کی بات نہیں، نصف صدی کا قصہ ہے۔

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے جب وکٹری اسپیچ کی تو خطے میں سب کو امن اور محبت کی تلقین کرتے ہوئے ہمسائے بھارت کے ساتھ بھی متنازعہ مسائل بات چیت سے حل کرنے کا عندیہ تھا۔ اسی تقریر کے تسلسل میں انہوں نے بھارت سے اپنے دوستوں کو تقریب حلف برداری میں بھی بلایا، صرف نوجوت سنگھ سدھو آئے اور آرمی چیف سے پیار کی جپھی بھی ڈالی۔ یوں لگا تھا کہ ہمارا ہمسایہ اس کا مثبت جواب دیتے ہوئے امن کیلئے آگے بڑھے گا لیکن الٹ جواب آیا۔ پاکستان جتنا بھی امن کا ہاتھ آگے بڑھاتا ہے، بھارت اسی رفتار سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر دیرینہ مسئلہ ہے اور اسی کی وجہ سے خطے کا امن بھی داؤ پر لگا ہے، پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو سرفہرست رکھا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر مذاکرات کا معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان نے دونوں بازو پھیلا کر اپنے ہمسائے کو امن سے رہنے کی دعوت دی ہے، ہمسایہ ایسا کم ظرف نکلا کہ بجائے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کے کشمیریوں پر ظلم و ستم میں اضافہ کردیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے خطے کے بہت سارے معاملات بھی خود بخود سدھر جائیں گے۔ خطے کا امن کشمیر کے امن سے وابستہ ہے، کیونکہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تین ایٹمی طاقتوں یعنی چین، پاکستان اور بھارت کیلئے اہم ہے۔ اسی عسکری و سیاسی اہمیت کے پیش نظر بھارت کشمیر پر سے قبضہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔ فرنگی جاتے جاتے ایسا مسئلہ چھوڑ گیا تھا جو کبھی بھی پاکستان اور بھارت کو چین سے نہیں رہنے دے گا۔ اس مسئلے کی وجہ سے ہی دونوں ممالک میں اسلحے کی دوڑ ہے۔

بھارت کیلئے ساٹھ کی دہائی سے پہلے کشمیر کبھی اٹوٹ انگ نہیں رہا بلکہ خود اس کو متنازعہ سمجھ کر عالمی فورم پر لے آیا اور اسی فورم کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو رائے شماری کا وعدہ کیا۔ جوں جوں کشمیریوں کی آزادی کا سفر طویل ہوتا گیا، بھارت بھی اپنے وعدے سے ایسا دور ہوا کہ کشمیر کو آہستہ آہستہ اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کردیا۔ کشمیر اس وقت پاکستان اور بھارت کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ دونوں اسے چھوڑنے پر تیار نہی۔ بھارت کہتا ہے کہ پہلے دہشت گردی اور دوسرے مسائل بارے بات کرو اس کے بعد کشمیرکا معاملہ دیکھا جائے گا۔ کشمیر کو وہ متنازعہ علاقہ تسلیم ہی نہیں کرتا، حالانکہ بھارتی حکومت 1948 میں خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھاکر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے بعد بھارتی اٹوٹ انگ کے دعوے کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

بھارت کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی کوششوں کو بھی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہاں برسرپیکار تنظمیں دہشت گرد ہیں۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ تنظیمیں دہشت گرد ہیں تو اس کی وجہ بھی تو خود بھارت ہی ہے جس کی ’’میں نہ مانوں‘‘ کی پالیسی نے کشمیری نوجوانوں کو اسلحہ اٹھانے پر مجبور کیا۔ کسی بھی جگہ امن نہ ہو تو تجارتی، ثقافتی اور دیگرتعلقات کی باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ کاش! یہ سب بھارت سمجھ سکتا۔

اگر پاکستان کی کشمیر اور خطے میں امن کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان نے ہر دور میں امن کیلئے پہل کی ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر فورم پر اٹھایا ہے، سارک سے لے کر اقوام متحدہ تک اس مسئلے کو لے کر گیا ہے۔ پاکستان کی اس حوالے سے پالیسی مستقل رہی ہے لیکن حل کرنے کے فارمولے تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں صدر مملکت ایوب خان نے اس مسئلے کو حل کروانے کیلئے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے بھی مدد مانگی۔ صدر ایوب کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں پیش پیش رہے۔ او آئی سی کا وجود عمل میں آیا تو اس کے اجلاس میں بھی قراداد لائی گئی۔ جنرل ضیاء الحق اور پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں بھی مسئلے کے حل کیلئے مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔ کارگل میں پاک بھارت جنگ اور نائن الیون کے واقعے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی لیکن کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی حمایت میں کوئی کمی نہ آئی۔

جولائی 2001 میں پاکستانی صدر پرویز مشرف نے بھارت کا دورہ کیا اور آگرہ میں اپنا چار نکاتی فارمولا پیش کیا۔ مشرف فارمولا میں کہا گیا کہ کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس پر مذاکرات کا آغاز کیا جائے، غیر عملی حل کو چھوڑ دیا جائے اور اصلی حل کی جانب بڑھا جائے۔ بھارت اس وقت بھی اعلامیہ پر دستخط کرنے سے مکر گیا۔ پھر 2006 میں جنرل پرویز مشرف نے ایک اور چار نکاتی حل پیش کیا جس میں کہا گیا کہ علاقے کو غیر فوجی علاقہ قرار دے کر مقامی حکومت بنائی جائے، کوئی نئی حد بندی نہ کی جائے، پاکستان اور بھارت کی باہمی انتظامیہ مقرر کی جائے۔ بھارت اس حل کی طر ف بھی نہ آیا۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اپنے تئیں مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ صدر زرداری نے اقوام متحدہ اور امریکی نمائندوں سے ملاقات میں بھی کشمیر کو خطے کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔

2013 میں نوازلیگ نے حکومت سنبھالی تو وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پہلا کام بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں جاکر امن کا پیغام دیا۔ میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اقوام عالم کی ناکامی قرار دیا۔ پاکستان کی بھارت سے تعلقات کے حوالے سے نیت صاف ہے لیکن بھارت پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے پھولوں کا جواب ہمیشہ نفرت اور توپوں کے گولوں سے دیتا آیا ہے۔

بھارت ہمیشہ پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے کوشاں رہا ہے۔ جہاں بھی اس کا بس چلا، اس نے پاک سرزمین کے خلاف زہر افشانی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ذہن نے ابھی تک پاکستان کا وجود تسلیم ہی نہیں کیا۔ پاکستان اور چین کے مابین جب سے معاشی اور اسٹریٹجک قربتیں بڑھی ہیں، اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کے زیر کنٹرول علاقے کو اپنا حصہ ظاہر کرکے سی پیک منصوبے کو شروع ہونے سے پہلے ہی رکوا دیا جائے۔ بھارت ’’چور مچائے شور‘‘ والی پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ اتنا شور مچایا جائے کہ بھارت کے زیر قبضہ علاقوں اور وہاں جاری آزادی کی تحریکوں کی طرف دنیا کا دھیان ہی نہ جانے پائے۔

بہتر ہوتا کہ بھارت امن اور مسئلہ کشمیر سے بغاوت کرنے بجائے محبت کے پیغام کے بدلے محبت کا جواب دیتا لیکن ان بنیوں کے ذہن پر امریکی پردے پڑ چکے ہیں، جنگ کا زعم ان کی عقل کو گل کرچکا ہے، امن سے بغاوت کرنے اور کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے سے یہ انگ بھارت کا تھوڑا ہی ہوجائے گا۔ جنگ جنگ کرنے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت کا انگ انگ ہی نہ ٹوٹ جائے، کالے کوے کو سفید کہنے سے سفید نہیں ہوجاتا!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔