ننھا عمر: احسن آباد کی چیونٹی!

سید محمد مدثر  بدھ 26 ستمبر 2018
باقاعدگی سے بل بھرنے والے صارفین، کے الیکٹرک کیلئے چیونٹیوں کی طرح ہیں جس کی تازہ مثال یہ ننھا عمر ہے جو کے الیکٹرک کی مجرمانہ غفلت کے باعث اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوچکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

باقاعدگی سے بل بھرنے والے صارفین، کے الیکٹرک کیلئے چیونٹیوں کی طرح ہیں جس کی تازہ مثال یہ ننھا عمر ہے جو کے الیکٹرک کی مجرمانہ غفلت کے باعث اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوچکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’کسی بجلی چور سے بات کریں تو آپ کو یوں لگے گا جیسے کراچی میں کے الیکٹرک سے ظالم کوئی شے نہیں۔ اور اگر کبھی کے الیکٹرک کے کسی ملازم یا ترجمان سے پوچھیں تو یوں معلوم ہوگا کہ کراچی میں ان سے مظلوم کوئی ادارہ ہے ہی نہیں۔

’’البتہ میرے خیال میں اصل مظلوم وہ لوگ ہیں جو باقاعدگی سے بل بھرتے ہیں۔ کے الیکٹرک انہیں اپنا اسٹار کسٹمر بھی مانتا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں اور لوگ بل نہیں دیتے یا بجلی چوری کرتے ہیں؛ جس کی سزا صرف اور صرف ان بل بھرنے والوں کو ملتی ہے۔

’’یہ مظلوم اپنے ساتھ نہ صرف دوسروں کی استعمال کردہ بجلی کا بل بھرتے ہیں بلکہ دن میں نو نو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بھی ان ہی کے حصے میں آتی ہے اور کبھی کوئی فالٹ ہوجائے تو لائن لاسز کے بہانے سے تین تین دن تک بجلی سے محروم بھی رہتے ہیں۔ اور اگر پی ایم ٹی اڑ جائے تو نہ ہی پوچھو بھئی!

’’اصل میں یہ وہ چیونٹیاں ہیں جو کے الیکٹرک اور بجلی چور نامی دو ہاتھیوں کی لڑائی میں کئی سال سے پستی چلی آرہی ہیں۔‘‘

انہوں نے بڑے ڈرامائی انداز میں اپنی بات مکمل کی۔ دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اپنی رائے مسلط کردی۔

میں نے بھی سر خم تسلیم کرتے ہوئے ایک فرمانبردار کی طرح ہاں میں گردن ہلادی۔ اس کی دو وجوہ تھیں: ایک تو جو صاحب یہ تمام باتیں کررہے تھے خاصے تجرکار اور باخبر آدمی تھے۔ اور دوسرا میں خود بھی کے الیکٹرک کے متاثرین میں شامل تھا۔ اسی لئے ان کی رائے سے فوری طور پر متفق ہوگیا۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔

’’احسن آباد کا عمر بھی ایسی ہی ایک چیونٹی تھا۔‘‘ (عمر وہی بچہ تھا جس کے دونوں ہاتھ کرنٹ لگنے سے ضائع ہوگئے تھے۔)

میں نے بے ساختہ سوال پوچھا، ’’وہ کیسے؟‘‘

’’وہ اس لئے کیوں کہ اس واقعے کے دو دن تک کے الیکٹرک نے اس علاقے کو ریموٹ ایریا اور وہاں رہنے والوں کو کمی کمین سمجھ کر، اس بچے کی فیملی سے معذرت تو دور رابطے تک کی زحمت نہیں کی تھی۔ لیکن پھر ’’سنسنی نہیں صرف خبر‘‘ کے سلوگن والے چینل نے ایسی سنسنی پھیلائی کہ کے الیکٹرک تو کیا ان کے ابو بھی ہل کر رہ گئے۔‘‘

’’کے الیکٹرک کے ابو کون؟‘‘ میں نے معصومانہ اور شاید بیواقوفانہ سوال پوچھ لیا۔

’’ارے حکومت بھئی!‘‘ انہوں نے جھڑکتے ہوئے جواب دیا اور بات جاری رکھی۔

’’اب اس کے بعد اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس جاکر کے الیکٹرک کے اعلیٰ افسران میں سے کسی کو پکڑتی جو حقیقتاً اس واقعے کے ذمہ دار تھے۔ لیکن چونکہ ان تمام افراد نے فوری طور پر قبل از گرفتاری ضمانتیں حاصل کرلیں اسی لئے پولیس نے بھی انہیں گرفتار کرنا تو دور، انہیں شامل تفتیش کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ بلکہ کے الیکٹرک کے ان غریب ملازمین کی پکڑ دھکڑ شروع کردی جن کا حقیقتاً اس واقعے سے شاید تعلق بھی نہیں تھا۔‘‘

انہوں نے ایک صاحب کا قصہ بھی سنایا جو مدراس چوک پر قائم احسن آباد کو کور کرنے والے آئی بی سی میں ملازم تھے۔ اور انہیں پولیس دفتر کے باہر سے ہی اٹھا کر لے گئی تھی۔

’’باسط صاحب (فرضی نام) اپنے ایک ساتھی کے ساتھ دفتر سے باہر نکل رہے تھے۔ اچانک پولیس آئی، ان سے شناخت پوچھی۔ ساتھ والے صاحب صورتحال بھانپ گئے۔ انہوں نے خود کو شکایت لے کر آنے والا عام شہری ظاہر کردیا۔ لیکن باسط صاحب بیچارے اتنے معصوم تھے۔ یہ کہہ کر جان چڑھانا چاہی کہ وہ گلستان جوہر کے آئی بی سی میں ہوتے ہیں۔ پولیس اہلکار نے جب پوچھا آئی بی سی کیا چیز ہے۔ انہوں نے بتایا کے الیکٹرک کا جوہر والا آفس۔ پھر کیا تھا پولیس والوں نے کہا کے الیکٹرک کا ملازم ہے اور اٹھاکر لے گئے۔ اسی طرح پورے 13 ملازمین کو اٹھایا گیا ہے۔‘‘

’’تیرہ؟ عدالت میں تو سات ملازم پیش کئے ہیں،‘‘ اس بار میں اپنے سوال میں پراعتماد تھا۔

’’ارے باقی کچھ لے دے کر چھوٹ گئے ہوں گے ناں،‘‘ انہوں نے پھر مجھے جھڑک دیا۔ وہ بس اپنی بات مکمل کرنا چاہ رہے تھے۔

’’اب یہ کیس عدالت میں ہے اور پولیس کے دونوں ہاتھ گھی اور سر کڑھائی میں ہے۔ اب تم پوچھو گے کہ وہ کیسے؟‘‘

اس بار میں خاموش رہا۔ کھسیانی سی کیفیت کے ساتھ صرف اتنا بولا، ’’جی۔‘‘

’’بھائی وہ ایسے کہ روزانہ کی بنیاد پر کے الیکٹرک سے فلاناں تھانے کو پیسے جارہے ہیں تاکہ ان کے ملازمین کو پولیس مارے پیٹے نہیں۔ پھر پولیس والے مبینہ طور پر گرفتار ملازمین کے گھر والوں سے بھی رقم بٹور رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سنا یہ بھی ہے کہ عدالتی عملے نے بھی کیس کی تاریخ دینے کےلیے اپنی ڈیمانڈز رکھ دی ہیں۔ ایک صاحب جو کسی انڈسٹریل ایریا میں مقیم ہیں، ان کے یہاں رات میں لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی جو اب سنا ہے نہیں ہورہی۔‘‘

انہوں نے ساری کہانی سنائی اور اچانک خاموش ہوگئے۔ افسردہ انداز میں کچھ دیر زمین کی جانب دیکھا۔ لمبی سانس لی اور بولے، ’’کتنے بے حس ہیں ہم! ایک سانحہ ہوگیا، بچے کے دونوں ہاتھ چلے گئے، اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ سب اس میں بھی اپنا فائدہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان لوگوں کےلیے عام آدمی کیڑے مکوڑے یا چیونٹیاں نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘

میرے پاس انہیں دینے کو کوئی جواب نہیں تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید محمد مدثر

سید محمد مدثر

بلاگر پچھلے 14سال سے صحافت میں ہیں اور ’’آج نیوز‘‘ سے منسلک ہیں۔ طویل عرصے سے مختلف ویب سائٹس پر بلاگز لکھتے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔