نواز شریف کا اچھا فیصلہ

نصرت جاوید  منگل 4 جون 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کراچی میں دو دن گزارنے کے بعد میں نے دریافت کیا کہ وہاں رہنے والے لوگوں کی اکثریت کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا لسانی گروہ سے ہے، نواز شریف صاحب کے بارے میں تقریباََ یکساں نوعیت کے چند تحفظات ہیں۔ میں انھیں بیان کرنے میں کچھ وقت لینا چاہتا ہوں۔ صدر زرداری سے اپنے صحافی دوستوں کے ہمراہ ایک تفصیلی انٹرویو کرتے ہوئے میں نے دل ہی دل میں ان کے آیندہ عزائم کے بارے میں کچھ اندازے بھی لگائے ہیں۔ انھیں بیان کرنے کا یہ مناسب موقع نہیں ہے۔

زیادہ بہتر ہے کہ کم از کم اس وقت تک انتظار کیا جائے، جب تک وزیر اعظم اپنے عہدے کا باقاعدہ حلف نہیں اُٹھالیتے۔ ایک خاص وجہ کی بناء پر میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہورہا ہوں کہ آصف علی زرداری صاحب اپنی پہلی سیاسی چال 14اگست 2013 کے بعد چلیں گے۔ یہ تاریخ میرے ذہن میں کیوں اٹک گئی ہے، اس کی وجہ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ فی الوقت اس ضمن میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے ذہن میں یہ تاریخ کسی ٹھوس منطقی وجہ سے نہیں آئی ہے۔ معاملہ کچھ علم الاعداد اور پیری فقیری سے متعلقہ ہے اور میں ان معاملات کے بارے میں کافی شکی مزاج واقع ہوا ہوں۔

ویسے بھی آج کا کالم نواز شریف کے نام جنہوں نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بن جانے کا راستہ بنایا۔ نواز شریف کی مسلم لیگ 2013 کے انتخابات کے بعد وہاں کی بڑی جماعتوں میں سے ایک بن کر سامنے آئی تھی۔ قاف لیگ والے اپنے مسلم لیگی بھائیوں کی مخلوط حکومت بنوانے اور اس میں شامل ہونے کو بڑے بے چین تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام والوں کا بھی یہی حال تھا۔

ان تمام امکانات سے ہٹ کر سب سے اہم بات یہ بھی تھی کہ ان کی جماعت کے صوبائی صدر سردار ثناء اللہ زہری نے انتخابی مہم کے دوران اپنے بھائی اور بیٹے کو دہشت گردی کی ایک واردات کی نذر کیا تھا۔ اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد صوبائی وزیر اعلیٰ بننا ایک حوالے سے ان کا حق تھا۔ نواز شریف صاحب نے مگر بڑے ہی ٹھنڈے دماغ سے آنے والے کل کا سوچا۔ انھوں نے یہ بات سمجھنے میں ہرگز دیر نہ لگائی کہ قاف اور جمعیت کی حمایت کے ساتھ ثناء اللہ زہری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے تو معاملات ویسے ہی رہیں گے جیسے نواب اسلم رئیسانی کے دور میں چلتے رہے۔

ڈاکٹر مالک جیسے متوسط طبقے کے غیر سردار مگر غریب بلوچوں کے حقیقی جذبات کو پوری طرح سمجھنے والے ایک مکمل سیاسی کارکن کو وزیر اعلیٰ بنواکر انھوں نے بلوچستانیوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ انھیں ماضی کو فراموش کرتے ہوئے پاکستان کی ریاست اور آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنا مستقبل سنوارنے کی ایک کوشش ضرور کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر مالک کی اس حوالے سے سب سے زیادہ موثرمدد محمود خان اچکزئی نے کی ہے۔ وہ پشتون قوم پرست ہیں اور میں یہ بات پوری ذمے داری سے کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان کے پشتون نوجوانوں میں ایک بالکل ہی مختلف نوعیت کا احساسِ محرومی پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔

اسے دور نہ کیا گیا تو یہ نوجوان بھی بندوق کی سیاست کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بلوچستان میں بسے پشتونوں اور بلوچوں کے درمیان ایک خوفناک خانہ جنگی کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ محمود خان نے ڈاکٹر مالک کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنے صوبے میں رہنے والے تمام لسانی گروہوں کو جمہوریت اور سیاسی عمل کے ذریعے باہمی اخوت اور احترام کے راستے پر چلانے کی ایک قابلِ تعریف کوشش کی ہے۔

اسلام آباد اور لاہور میں رہنے والے لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ انھیں لال ٹوپی والے مسخروں کے ذریعے ہم ٹیلی وژن والوں نے یہ سمجھایا ہے کہ بلوچستان کے اندر بس چند سردار ہیں جو اپنے قبائلی لشکروں کے ذریعے اسلام آباد کو بلیک میل کیا کرتے ہیں۔ رحمن ملک جیسے لوگوں نے ایسے مسخروں کو بار بار یہ کہانی دہراکر زیادہ معتبر کردیا جس کے مطابق بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ مگر افغانستان اور بھارت کے کچھ ایجنٹ بلوچ نوجوان کو’’خرید‘‘ کر تخریب کاری کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔

ہمارے شہروں میں بیٹھے لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ بلوچستان کے نام نہاد سرداروں کی اکثریت کو ریاستِ پاکستان نے اپنے وسائل کی مدد سے اب تک وہاں کے لوگوں پر مسلط کیے رکھا ہے۔ ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ بلوچ اکثریتی علاقوں میں سب سے زیادہ غصہ اور غم ساحل مکران کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ تربت ان علاقوں کا سیاسی قبلہ ہے اور یہاں سرداروں کا راج ہرگز نہیں ہے۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں پر مشتمل ہے جن کے نوجوانوں کو ملکی اور عالمی سیاست کا شعورہمارے انٹرنیٹ کے بنائے افلاطونوں سے کہیں زیادہ ہے۔

یہ نوجوان خود کو سرداروں کے بنائے بے دماغ روبوٹ نہیں سمجھتے۔ سب سے پہلے عزت چاہتے ہیں اور پھر بلوچستان کے بے پناہ وسائل کا بھرپور استعمال تاکہ ان کی زندگیوں میں بھی کچھ راحت آئے۔ ڈاکٹر مالک ایسے نوجوانوں کی ایک سب سے متحرک علامت ہے۔ اس کی مدد کی جائے تو وہ بہت جلد مکران کے ایک بہت بڑے مفکر اور دور اندیش سیاست دان غوث بخش بزنجو کی یاد تازہ کرسکتا ہے۔

خدانخواستہ اگر اس کی راہ میں اپنے تئیں اس ملک کی ’’نظریاتی سرحدوں‘‘کے محافظ بنے دانشوروں اور قومی سلامتی اداروں میں بیٹھے چند افراد نے اپنے جانے پہچانے’’سرداروں‘‘ کے ذریعے مشکلات کھڑی کیں تو بلوچستان اور پاکستان کے مقدرمیں سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ لکھا نظر نہیں آئے گا۔ اسلام آباد میں بیٹھے دائمی حکمرانوں کو اپنا دل بڑا کرنا ہوگا۔ 2013کے انتخابات کے دوران دھونس اور دھاندلی کے بے پناہ واقعات ہوئے ان کے باوجود ایک طویل عرصے کے بعد بلوچستان کی حقیقی قیادت صرف اور صرف جمہوری جدوجہد کے ذریعے اقتدار تک پہنچی ہے۔ خدارا اس قیادت پر اعتماد کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔