لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات

زبیر رحمٰن  منگل 4 جون 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

دنیا بھر کی قومی ریاستوں نے شہریوں اور کارکنوں کو انتخابات کے کھیل میں لگائے رکھا ہے۔ آج تک دنیا میں کہیں بھی انتخابات کے ذریعے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اگر ہوتا تو جنت ارضی آئس لینڈ دیوالیہ نہیں ہوتا اور سوئٹزر لینڈ کی 50 فیصد دولت کے مالک 1 فیصد لوگ اور 99 فیصد لوگ باقی 50 فیصد کے مالک نہ ہوتے۔

دنیا بھر کے تقریباً ہر ملک میں 2/3 جماعتیں انتخابات میں باری باری اقتدار میں آتی جاتی رہتی ہیں۔ یہی صورت حال پاکستان کی بھی ہے، یہاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہی باری باری اقتدار میں آتی رہیں۔ پنجاب اور سندھ میں وہی وزرائے اعلیٰ آ رہے ہیں جو پہلے تھے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں بدلتے رہتے ہیں مگر کام ایک ہی کرتے رہتے ہیں، وہ ہے سرمایہ داری کی خدمت۔ محنت کش، عام شہری اور کارکنان پیٹتے، لٹتے، مرتے اور رلتے رہتے ہیں۔ پارٹیاں آپس میں انتخابات سے قبل بہت زیادہ اور انتخابات کے بعد بہت کم ایک دوسرے کے خلاف بولتی رہتی ہیں۔ پھر پارٹیوں کے اندرونی اختلاف بھی بڑھتے ہیں اور انقلاب کے خطرات کو لاحق دیکھ کر صلح کر لیتے ہیں۔

ن لیگ نے 2 سال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافے کا وعدہ کیا تھا، بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، ڈرون حملے اور خودکش حملوں کا سدباب کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا ٹائم شیڈول نہیں دیا جا سکتا۔ ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے امریکا سے بات کریں گے (جب کہ پہلے کہتے تھے مار گرائیں گے) خودکش بمباری کو روکنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے۔ اقتدار میں آتے دیکھ کر سارے آزاد امیدوار اور چھوٹے گروپس مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ اقتدار کی لوٹ میں شریک ہو جائیں۔

ابھی بجٹ آنے سے قبل ہی منی بجٹ آنا شروع ہو چکا ہے۔ گندم، مکئی، سویا بین، مرغی، زنک، لیڈ اور سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ بجلی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے زیادہ ٹیرف ریٹ سے IPP کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ اسی کمپنی نے بنگلہ دیش اور ہندوستان میں کم ریٹ پر معاہدہ کرنے سے وہاں کم نرخوں پر بجلی دستیاب ہے۔ جب کہ کراچی میں کے ای ایس سی کے حکام نے جان بوجھ کر کے اپنے پاور پلانٹ بند کر رکھے ہیں تا کہ فرنس آئل بچا کر منافع کمایا جا سکے۔ شہر میں بجلی کی کھپت 2600 میگاواٹ ہے جب کہ پیداواری صلاحیت 2200 میگاواٹ ہے، اور 700 میگاواٹ واپڈا سے لے کر کام چلا رہی ہے۔

ادھر میڈیکل کالجوں کی فیس میں 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے اور اب سالانہ فیس 49 ہزار روپے ہو جائے گی۔ اندرون سندھ کے کئی اضلاع میں کئی ماہ سے پیرامیڈیکل اسٹاف کی تنخواہیں ادا نہ کرنے پر اسٹاف سراپا احتجاج ہے، کراچی کا ایک قدیم دہلی اسکول کو نجی ملکیت میں دینے کی سازش ہو رہی ہے۔ ابھی نئی حکومت بنی بھی نہیں طلبا پر مظالم ڈھائے جانے کی تیاری ہونے لگی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف سارا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، یہاں تک کہ کورنگی اور عزیز آباد کے مکین بھی بلبلا اٹھے اور وہ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ان سنگین سماجی، معاشی اور سیاسی صورت حال کی وجہ سے پارٹیوں کے اندر بھی کھلبلی اور اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی ہے۔

ایم کیو ایم کے بعض ذمے داروں کی جانب سے شکایتیں موصول ہونے کے بعد الطاف حسین نے کہا ہے کہ چندہ وصول کرنے، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے کے لیے قبضہ مافیا کے ساتھ شریک ہونے والوں کی تنظیم میں کوئی گنجائش نہیں۔

انھوں نے 36 رکنی رابطہ کمیٹی کو تحلیل کر کے 12 رکنی عبوری کمیٹی خود تشکیل دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایم کیو ایم میں بھتے کی وصولیابی، جبری چندہ خوری اور زمینوں پر قبضے کی کرپشن موجود تھی۔ اب جب الطاف حسین نے اپنے ہی کارکنوں کی شکایات پر اس کی صفائی کی ذمے داری لی ہے تو یہ ثابت ہو گیا کہ اس تنظیم میں بدترین کرپشن موجود تھی اور یہ اچانک صاف کرنے سے بھی صاف ستھری نہیں ہو گی بلکہ ایسا کرنے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔

سرمایہ دارانہ نظام میں یہ سب کچھ ہونا کوئی اچنبھا نہیں بلکہ یہ سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اے این پی کی رہنما بیگم نسیم ولی خان نے بیان دیا کہ اسفند یار ولی (ان کا سوتیلا بیٹا) کو سیاست کی الف ب نہیں آتی اور افراسیاب خٹک کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح پی پی پی پنجاب کے صدر منظور وٹو نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کم عمر لڑکے کو پارٹی کا چیئرمین بنانے سے ایسا ہی ہو گا، اس لیے میں استعفیٰ دیتا ہوں۔ یہ ساری سیاسی، معاشی اور سماجی انحطاط پذیری عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ بی بی سی کے سالانہ عالمی سروے کے مطابق اسرائیل، ایران اور پاکستان سب سے منفی اثر والے ممالک قرار پائے ہیں۔

چین اور بھارت کے متعلق مثبت عالمی رائے میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ امریکا کے بارے میں منفی رائے ہے اور سب سے زیادہ منفی رائے پاکستان میں ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر بارک اوباما نے پینٹاگون میں اپنے خطاب کے دوران ڈرون حملے جاری رکھنے کا اعادہ کیا جب کہ وہ بھول گئے کہ موزنبیق نے 500 سال لڑ کر سامراجیوں کو شکست دی اور ویتنام پر 23 سال بمباری کرنے کے باوجود امریکی سامراج کو شکست ہوئی۔

اوباما کے خطاب کے دوران جنگ مخالف تنظیم کی خاتون نے اوباما کی تقریر کے دوران تین بار مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ گوانتانامو بے کو بند کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ پاکستان میں ڈرون حملوں سے بے گناہ شہریوں کے مرنے پر ان کے لواحقین سے معذرت کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘ جس پر اس خاتون کو سیکیورٹی عملے نے ہال سے باہر نکال دیا۔ جب کہ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ’’امریکی ڈرون حملوں میں زیادہ تر بے گناہ پاکستانی مارے جاتے ہیں‘‘۔ اس سامراجی اور عالمی سرمایہ داری کی لوٹ مار کی وجہ سے آج اسٹاک مارکیٹ کی حالت بھی دگرگوں ہے۔

گزشتہ دنوں ایشیا کی بیشتر اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار رہیں۔ سڈنی 1.81 فیصد، سول کا انڈیکس 0.54 فیصد، شنگھائی کا کمپوزٹ انڈیکس 0.43 فیصد، ہانگ کانگ کا ہینگ منگ انڈیکس 1.56 فیصد ڈاؤن رہے، تاہم ٹوکیو اسٹاک مارکیٹ کا کانگی 225 انڈیکس ین کی قدر کے گرنے سے مارننگ ٹریڈ میں 0.23 فیصد اپ رہا۔ اس عالمی معاشی بدحالی میں جہاں اسپین، یونان، پرتگال، اٹلی اور فرانس دیوالیہ ہونے کی جانب گامزن ہیں، بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے، دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وہاں پاکستان اس عالمی سرمایہ داری کا ایک حقیر سا حصہ ہے۔

ابھی ہمیں آئی ایم ایف کے قرضے کی قسط ادا کرنی ہے، بجٹ میں پھر ایک بار دفاعی بجٹ کا اضافہ کرنا ہے اس سنگین صورت حال میں عوام کی فلاح کے لیے حکمران کچھ نہیں کر سکتے۔ بلکہ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کر سکتے ہیں۔ اس عوام دشمن بھنور سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ایک غیر طبقاتی معاشرے کے لیے ایسا انقلاب برپا کرنا ہو گا جو سرمایہ دارانہ ریاستی جبر کی جگہ امداد باہمی کا عوامی راج قائم کرے، اس کے علاوہ سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔
سینے میں یہ قوم کا خادم پتھر کا دل رکھتا ہے
مزدوروں کا حامی بھی ہے دس بارہ مل رکھتا ہے
(جالبؔ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔