روشنی کی ایک کرن

ظہیر اختر بیدری  منگل 25 ستمبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دانشورانہ حلقوں میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اچھی سے اچھی آمریت سے بری سے بری جمہوریت اچھی ہوتی ہے اور یہ فلسفہ پیش کرنے والے فخر سے اپنا سر اونچا کرتے ہیں ۔ اس مسئلے پر آگے گفتگوکرنے سے پہلے میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ایک باشعور انسان کی طرح میں بھی آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کو پسند کرتا ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں ترقی یافتہ ملکوں میں ایک معیاری جمہوریت روبہ عمل ہے، عوام کے منتخب نمایندے عوام کی خدمت کرنا اور عوامی مسائل حل کرنا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں اور ان ملکوں کے عوام بڑی حد تک اپنی جمہوریت سے مطمئن ہوتے ہیں۔ لہٰذا ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں جمہوریت مقبول ہوتی ہے، اصل مسئلہ  پسماندہ ملکوں کا ہے۔ پسماندہ ملکوں میں سر سے لے کر پیر تک کرپشن کی وجہ سے ہماری جمہوریت بھی کرپشن کے اڈے میں بدل گئی ہے ، آج پاکستان میں جمہوریت کے جو نظارے کیے جارہے ہیں کیا ان کا تعلق جمہوریت سے ہے؟ کیا اربوں کی لوٹ مارکا نام جمہوریت ہے؟

جمہوریت رائج کرنے والوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ آمریت میں انفرادی اور اجتماعی حق آزادی آزادیٔ فکر آزادیٔ اظہار کا احترام کیا جاتا ہے اور یہ آزادیاں صرف جمہوری معاشروں ہی میں ملتی ہیں ، اس لیے جمہوریت قابل احترام ہے بلاشبہ آزادی فکر اور آزادیٔ اظہار انسانی معاشروں کی اور مجموعی طور پر یہ دنیا کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے لیکن ہم آزادیٔ اظہار رائے کیوں چاہتے ہیں؟ آزادیٔ فکر واظہار کا مقصد ملک کے عوام کی اجتماعی کے لیے آواز اٹھانا اور منتخب حکومتوں کی غلط پالیسیوں، غلط کاموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا، اس حوالے سے اگر ہم پاکستانی جمہوریت کا جائزہ لیتے ہیں تو بات کرپشن سے شروع ہوکر کرپشن پر ختم ہوتی ہے۔

آج پاکستان میں جو کچھ ہورہاہے ،کیا ہم اسے جمہوریت کہہ سکتے ہیں؟ جمہوریت عوام کے نمایندوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کے منتخب نمایندوں کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی ساری صلاحیتیں عوام کے مسائل حل کرنے عوام کی خدمت میں صرف کریں، لیکن کیا ہماری جمہوریتوں میں عوام کے منتخب نمایندے یہ آئینی قانونی اور اخلاقی ذمے داریاں پوری کررہے ہیں؟

اس سوال کا کافی و شافی جواب یہ ہے کہ جو نمایندہ یا انتخاب لڑنے والا انتخابی مہم پر مثلاً 20 کروڑ روپے خرچ کرتا ہے، انتخابات جیتنے کے بعد اس کی پہلی ترجیح کیا ہوسکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں انتخاب لڑنا نہ تو آپ کا کام ہے نہ قوم کی خدمت ہے ، ہم نے وضاحت کردی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہرکام منافعے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم انتخابات جیت کر قانون ساز اداروں میں یا حکومتوں میں جانے والوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو آپ کو یہی نظر آئے گا کہ 20 کروڑ خرچ کرنے والا بیس گنا زیادہ حاصل کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے اور 50 کروڑ خرچ کرنے والا اربوں کے پھیر میں الجھا ہوا ہے۔

ہمارے عوام اور عوام کے مسائل کہاں ہیں؟ آج میڈیا میں دھوم مچی ہوئی ہے کہ 200 ارب ڈالر بیرونی ملکوں کی بینکوں میں پاکستانیوں کے جمع ہیں۔ دبئی اور مغربی ملکوں میں اربوں ڈالرکی جائیدادیں پاکستانیوں کی ہیں، اربوں ڈالرکی منی لانڈرنگ ہورہی ہے، ملک میں پانچ سال سے جمہوری نظام قائم رہا ،اس جمہوری نظام نے عوام کے کون سے مسائل حل کیے عوام کا معیار زندگی کتنا بلند ہوا ، زر مبادلہ میں کتنا اضافہ ہوا ،آج ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ سے زیادہ کا قرض دار ہے، کیا یہ سارے کام آمریت میں ہوئے ہیں۔

یہ سلسلہ نیا نہیں 71 سال پرانا ہے اور کمال دیکھیں ہماری اشرافیہ جو 71 سال سے سیاست اور اقتدار پر قابض ہے، اب اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جمہوریت کی لاش پر ولی عہدی نظام قائم کررہی ہے اور اسے مستحکم کررہی ہے۔ ہم نے کسی عاشق جمہوریت کو ولی عہدی نظام کے خلاف لکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ دنیا کی خاص طور پر ترقی یافتہ دنیا کی جمہوریتوں میں ولی عہدی نظام موجود نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے جمہوریت کا علم اور تجربہ مغل ایمپائر سے حاصل کیا ہے اور اب تک اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ کیا یہ سارے کام انڈر گراؤنڈ ہورہے ہیں،کیا میڈیا میں ان کارناموں کی پبلسٹی نہیں ہورہی ہے، جمہوریت کی اندھی حمایت کرنے والوں میں اتنا ظرف بھی نہیں کہ وہ ان کھلی جمہوریت دشمنی کی مذمت کریں؟

اب میرے ذاتی خیال میں ایک مڈل کلاس حکومت قائم ہوئی ہے، اس حکومت سے کسی بڑی تبدیلی کی امید اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ اشرافیہ نے اس ملک کو مسائل کے پہاڑوں کے نیچے پہنچادیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک مسائل کے انبار میں دبا ہوا ہے اور دبے ہوئے ملک کو باہر نکال کر شاہراہ ترقی پر لے جانا آسان کام  نہیں۔ بشرطیکہ یہ مڈل کلاس حکومت راستے سے نہ بھٹکے۔ ہمارے مڈل کلاس حکمرانوں نے وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤس، چیف منسٹر ہاؤس میں رہنے سے انکار کیا ہے، یہ اگرچہ ایک علامتی اقدام ہے لیکن اس سے انگریزوں کی یادگاروں سے چھٹکارا مل سکتا ہے اور یہ لمبی چوڑی اربوں کی بلڈنگوں میں اعلیٰ تعلیمی ادارے کھولنے کی تیاری ہورہی ہے، یہ ایک مثبت قدم ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔

نئی حکومت کی ذمے داری ہے کہ ملک کو اشرافیہ کی گرفت سے چھڑاکر عوامی حکومتوں کا راستہ ہموار کرے تاکہ اس ملک کے 21 کروڑ عوام جو نسلوں سے دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں اور ایک قابل رحم ایسی بد حالی کی زندگی گزار رہے ہیں، جس میں ہماری آبادی کا 50 فی صد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ اس لیے کہ 80 فی صد دولت دو فی صد اشرافیہ کے ہاتھوں میں جمع ہوگئی ہے۔ کیا نئی حکومت اس لیے ارتکاز زرکو ختم کرکے 21 کروڑ عوام کی خوشحالی کا راستہ کھولے گی؟ کیونکہ عوام اسے روشنی کی ایک کرن سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔