ٹی بی ایک چیلنج

شکیل فاروقی  منگل 25 ستمبر 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

تپ دق جسے عام طور پر ٹی بی کے نام سے پکارا جاتا ہے، ایک پرانا متعدی مرض ہے ۔ کسی زمانے میں یہ مرض لاعلاج ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگ مریض کی زندگی سے مایوس ہو جایا کرتے تھے، لیکن سائنس کی ترقی کی بدولت اب اس مرض کا سو فیصد شافی اورکامیاب علاج دریافت ہوچکا ہے۔ تاہم باقاعدہ علاج نہ کرانے کے نتیجے میں مریض کی ہلاکت کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ اس لیے اس مرض میں مبتلا مریض کو مرض کی تشخیص ہوتے ہی فوری طور پر باقاعدگی سے علاج شروع کردینا چاہیے۔

بھارت، چین، نائیجیریا اور جنوبی افریقہ کے بعد پاکستان پانچواں ملک ہے، جہاں اس مرض میں لوگوں کی خاص بڑی تعداد مبتلا پائی جاتی ہے، جس کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔ تاہم غریب غربا میں یہ مرض بکثرت لاحق پایا گیا ہے۔ پاکستان میں ہر سال پانچ لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن میں سے تقریباً ایک تہائی علاج سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ دنیا میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 1.5 ملین کے لگ بھگ ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ متعدی مرض آس پاس کے 10 افراد کو اڑ کر لگ سکتا ہے۔ اس لیے اس کے سدباب کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

عالمی سطح پرکوشش کی جا رہی ہے کہ 2030 تک اس مرض کا خاتمہ کردیا جائے ۔ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک اس معاملے میں پوری سنجیدگی اور خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انھیں اس بات کا پورا احساس ہے کہ دنیا اس سلسلے میں سستی، کوتاہی اور غفلت کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

چنانچہ یہ ممالک اس کام کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں اور بھرپور سیاسی اور مالی تعاون کے حصول کے لیے کمربستہ ہوکر کوشاں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر 26 ستمبر کو دنیا کے کم ازکم 42 ممالک کے سربراہ انسداد تپ دق کے موضوع پر ہونے والی دنیا کی اس پہلی سربراہی کانفرنس میں شرکت کریں گے جس نے 2030 تک تپ دق کو پوری دنیا سے ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ دنیا میں یہ پہلا موقع ہے جب اس خطرناک مرض کے خاتمے کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عالمی برادری کے نزدیک یہ مرض کس قدر اہم ، قابل تشویش اور قابل توجہ ہے۔

وطن عزیز میں جہاں لوگوں کی غالب اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور عوام کو دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے ٹی بی کا مرض عام ہے۔ دوسری جانب غریب کی جیب اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ وہ اس مرض کا طویل علاج کرا سکے۔ غربت نہ صرف ٹی بی کا ایک سبب ہے بلکہ بجائے خود ایک موذی مرض ہے۔ بقول غالب:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

عالمی ادارہ صحت کی اعانت یافتہ تنظیم ’’پاکستان چیسٹ سوسائٹی اینڈ اسٹاپ ٹی بی۔ پاکستان ‘‘ اور نیشنل ٹی بی پروگرام کے زیر اہتمام گزشتہ منگل کو کراچی پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس میں صدر پاکستان سے اپیل کی گئی کہ اگر وزیر اعظم پاکستان اپنی انتہائی مصروفیات کی وجہ سے ٹی بی کے موضوع پر 26 ستمبر کو منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرسکیں تو صدر مملکت اس میں پاکستان کی نمایندگی کریں ۔ تنظیم کی نمایندہ ڈاکٹر شاہینہ قیوم کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس میں پاکستان کی غیر حاضری ایک غلط پیغام ہوگی۔

’’اسٹاپ ٹی بی۔ پاکستان‘‘ نامی تنظیم کے نائب صدر ڈاکٹر شرف علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ایشوکو سرکاری اہل کاروں کے سامنے اٹھایا ہے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے تینوں اجلاس میں شرکت کریں گے جن کا آغاز 23 ستمبر سے ہوگا ، لیکن وہ 26 ستمبر کو ہونے والے ٹی بی اجلاس میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔

توقع ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی مذکورہ اجلاس میں پاکستان کی نمایندگی کریں گی۔ اجلاس کے اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کے صحت کے شعبے کے اہل کاروں اور سول سوسائٹی کے ممبران نے اعلامیے کی تیاری سے متعلق بحث و مباحثے میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا اور اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔

بیرونی امداد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شرف علی شاہ نے بتایا کہ ’’گلوبل فنڈ‘‘ نامی بین الاقوامی ادارہ پاکستان کو ٹی بی، ملیریا اور HIV کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ عطیات فراہم کرتا ہے۔ یہ ادارہ گزشتہ سات سالہ طویل عرصے سے انسداد ٹی بی کی مہم میں وطن عزیز کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ اس وقت یہ ادارہ ملک سے ٹی بی کے خاتمے کے لیے 95 فیصد فنڈز فراہم کر رہا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے صرف 5 فیصد امداد فراہم کی جا رہی ہے جوکہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

مرکز سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے بعد صحت کا شعبہ سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے جس کا حال یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں انسداد ٹی بی کے پروگرام کے لیے کوئی فنڈز بجٹ میں مختص نہیں ہیں۔ ایم ڈی آر ٹی بی کے کیسوں میں پاکستان پوری دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے اور وطن عزیز میں ہر سال MDR ٹی بی کے 15000 کیس رجسٹرڈ ہوتے ہیں ، جن میں سے صرف 20 فیصد کو علاج کی سہولت میسر آتی ہے۔ بعض مریض جن کے مرض کی تشخیص میں تاخیر ہوجاتی ہے ، اکتاہٹ کی وجہ سے اپنا علاج ادھورا ہی چھوڑ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ لاعلاج ہوجاتے ہیں۔

ٹی بی کا مرض دنیا کے سر پر بہت بڑا خطرہ بن کر منڈلا رہا ہے جس میں پاکستان بہت بڑا نشانہ ہے۔ اس خطرے کی گھنٹی کی آواز سے پوری دنیا گونج رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرض کے بارے میں پوری دنیا کو اس حد تک تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ اس کے انسداد کی تدابیر پر غوروخوض کرنے اور انھیں بلاتاخیر عملی جامہ پہنانے کے لیے اقوام متحدہ کی سطح پر 26 ستمبر کو ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز میں ٹی بی کا مرض جو شدت اختیار کر چکا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا مقابلہ جنگی بنیادوں پرکیا جائے۔ عوام کی جان کا تحفظ چونکہ حکومت کی اولین ذمے داری ہے اس لیے حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مزید کسی تاخیر کے بنا فوری پیش رفت کرے۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نہ صرف صحت کے شعبے کی زبوں حالی اور اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ وہ اس شعبے میں انقلابی اصلاحات کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس بات کا اظہار وہ پاکستانی عوام سے اپنے اولین خطاب میں بہت واضح انداز میں کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ نجی شعبے کا تعاون بھی حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ وطن عزیز میں ایسے صاحب دل اور مخیر لوگوں کی کمی نہیں جن کے دل خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہیں اور جنھیں دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کرکے اپنی عاقبت سنوارنے کی بھی فکر ہے۔

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔