حافظے کی کمزوری بڑھاپے کی علامت نہیں ہے، ماہرین طب

اسٹاف رپورٹر  منگل 25 ستمبر 2018
وٹامن بی 12 کی کمی، بلڈ پریشر ، شوگر، نیند کی کمی اورصحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی سے یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وٹامن بی 12 کی کمی، بلڈ پریشر ، شوگر، نیند کی کمی اورصحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی سے یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

 کراچی:  طبی ماہرین نے کہا ہے کہ حافظے کی کمزوری (الزائمر) کو بڑھاپے کی علامت سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے یہ ایک دماغی اور زندگی کو کم کرنے والا مرض ہے۔

طبی ماہرین نے عالمی یوم یاداشت(21 ستمبر) کی مناسبت سے پیر کو نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فاونڈیشن ) کے زیر اہتمام منعقدہ آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا، سیمینار کے مہمان خصوصی ڈنمارک کے سفیر رولف مائیکل پریرا ہولموبے اور کراچی میں فلپائن کے قونصل جنرل ڈاکٹر عمران محمد تھے،طبی ماہرین، ماہرین دماغ و عصاب و نفسیاتی امراض پروفیسر اقبال آفریدی، پروفیسر فرید اے منہاس،ڈاکٹر اعجاز احمد وہرہ، ڈاکٹر شاہین حسین، ڈاکٹر سہیل احمد اور ڈاکٹر عبدالمالک بھی موجود تھے۔

طبی ماہرین نے کہا کہ ملک میں حافظے کی کمزوری (الزائمر ) کو بڑھاپے کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک دماغی اور زندگی کو کم کرنے والا مرض ہے،محتاط اندازے کے مطابق ملک میں تقریبا 5 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اس بیماری سے لاعلم ہیں، اس کی ابتدائی علامات میں حافظہ کی کمزوری ، یادداشت کی کمی اور روز مرہ سرگرمیوں کا بھول جانا شامل ہے ، جب مرض بڑھتا ہے تو مریض کھانا کھانا، کپڑے پہننا اور گھرکے پتے سمیت اپنے بچوں اور قریبی عزیز و اقارب تک کوبھولنا شروع ہو جاتا ہے، اس کی کیفیت چھوٹے بچے جیسی ہو جاتی ہے ، جسے کسی بات کا علم نہیں ہوتا ہے، ایسی صورت میں مریضوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ڈیمینشیا کی تاحال کوئی وجہ معلوم نہیں کی جاسکی ہے لیکن عموماً 60 سال کی عمر کے بعد دماغ کے خلیےختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس سے دماغ کے وہ حصے متاثر ہوتے ہیں جن کا تعلق حافظے، سوجھ بوجھ اور شخصیت سازی سے ہوتا ہے تاہم نتیجے کے طور پر انسان حساب کتاب اور سوچ بچارتک نہیں کر سکتا اور چیزوں کو بھولنا شروع ہو جاتا ہے۔

ماہرین دماغ و ذہنی امراض نے کہا کہ وٹامن بی 12 کی کمی، بلڈ پریشر، شوگر ، نیند کی کمی اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے،پاکستان میں 60 سال سے زائد عمر کے 10 فیصد افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں،انھوں نے کہا کہ یہ بہت تیزی سے بڑھتی ہے اس لیے ابتدا میں ہی اس کی تشخیص بہت ضروری ہے اگرچہ اس بیماری کو ختم نہیں کیا جاسکتا تاہم بروقت تشخیص کے بعد اس کی پیچیدگیوں اور رفتار کو کم کیا جاسکتاہے۔

ماہرین نے بتایا کہ اس سلسلے میں عوام میں آگہی بھی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ، اگرگھر کے بزرگوں میں اس طرح کی علامتیں پائی جائیں تو اسے بڑھاپا سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ ڈاکٹر سے فوری طور پر رجوع کیا جائے، ملک میں اس کا علاج اور تمام دوائیں دستیاب ہیں۔

ماہرین نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو افرادزیادہ سوچ بچار، دماغ کے زیادہ استعمال اور ورزش سمیت صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کرتے ہیں انھیں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

اس موقع پر نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فاونڈیشن (نارف) کے جنرل سیکریٹری و اسسٹنٹ پروفیسر نیورولوجی ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ ’’نارف‘‘ گذشتہ ایک دہائی سے اعصابی و دماغی امراض کے حوالے سے آگہی ،علاج اور امراض کی روک تھام کے لیے کوششیں کررہا ہے،، سیمینار کے اختتام پر مہمانوں کو یادگاری شیلڈ بھی پیش کی گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔