اعلیٰ تعلیم کی لوٹ سیل

ہانیہ عارف  منگل 25 ستمبر 2018
تعلیمی نظام کو کرپشن سے بچانے کے لیے اصول وضوابط لاگو کیے جائیں۔ فوٹو: فائل

تعلیمی نظام کو کرپشن سے بچانے کے لیے اصول وضوابط لاگو کیے جائیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تاہم دوسری جانب تشویش کی بات یہ ہے کہ تحقیقی کام کے میدان میں صورتحال نہایت خراب ہے۔

ہمارے ملک میں تحقیق و تربیت کا معیار انحطاط کا شکار ہے۔ اس ابتر صورتحال کی وجوہ میں ایک تحقیقی کام کے نگران مقرر کیے جانے والے افراد کا کردار ہے جو نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ’پی ایچ ڈی‘ کی ڈگری کا حصول اتنا آسان ہے نہیں جتنا ہمارے ہاں بنا دیا گیا ہے۔ اس کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہے اور جان مارنی پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں طالب علم ہچکچائے بغیر ایک بڑی رقم دے کر ماہرین سے مقالہ تو لکھوا لیتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ ایسا کرنے سے ان کی ڈگریاں محض کاغذ کے ایک ٹکڑے سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھیں گی۔

دیکھا گیا ہے کہ ایسا کوئی نظام موجود ہی نہیں جو نگران اور طالب علم کے باہمی تعلق کی جانچ پڑتال کرسکے اور یہ دیکھے کہ آیا نگران صحیح رہنمائی کر بھی رہا ہے یا نہیں۔ اسی وجہ سے قابل اور ہونہار طالب علموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں تحقیقی مقالوں کی تکمیل کا کوئی مناسب ٹائم ٹیبل نافذ نہیں کیا گیا۔

اس لیے مقررہ وقت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انہی مسائل کے سبب پاکستان میں باقی ملکوں کی نسبت اس کے لیے دوگنا وقت صرف ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ٹائم ٹیبل کے مطابق چلنے کی روایات ہی موجود نہیں ۔ عموماً تحقیق کرنے والے اس وقت تک اپنا تحقیقی مقالہ پیش ہی نہیں کرتے جب تک کہ ممتحن(سپروائزر) اور نگران اس تحریری مواد سے مطمئن نہیں ہوجاتے۔ اگر طالب علم پہلے اپنا مقالہ جمع کروا دے تو پھر اسے انتظار کرنا پڑتا ہے جب تک کہ سپروائزر مکمل طور پر مطمئن نہ ہو جائے۔

بہرحال اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئج (NUML) کا ذکر ایک روشن مثال ہے کیونکہ یہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ قوانین اور قواعد پر عمل پیرا ہے۔ نمل یونیورسٹی کے معتبر ذرائع کے مطابق ادارے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء کے لیے مقرر کردہ معیار اور قواعد و ضوابط کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے۔

اس عمل میں پورے تعلیمی اور تحقیقاتی نظام کو مخصوص شکل میں لایا گیا ہے اور اس سے پی ایچ ڈی کے پروگراموں کی کامیابی اور تکمیل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اب ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ 8 سال کی حد مقرر کردی گئی ہے۔ اصولاً یہ قواعد ان طلبہ پر بھی لاگو ہونے چاہیے جو 10 سے 15 سال سے پی ایچ ڈی کی سیٹس پر ناکام ہورہے ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیوں میں اب بھی پی ایچ ڈی کی سیٹس محدود ہیں اس لیے ان امیدواروں کی جگہ نئے اور قابل طلبہ کو موقع دینا چاہیے۔

اس سے زیادہ تباہ کن بات اور کیا ہوگی کہ نجی یونیورسٹیوں میں ڈگری کورس کے حوالے سے چند اچھی یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر باقی تمام ڈگری فروخت کرنے کے سوا کچھ نہیں کررہیں۔

اس مسئلے پر ہزاروں مضامین اور کالم لکھے جاچکے لیکن اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں لوٹ سیل برابر جاری ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ یہ تعلیمی ادارے درحقیقت پیسہ بنانے کے اڈے بن چکے جو اندھا دھند داخلے دیتے ہیں۔ ایسے ادارے کسی کو داخلے سے انکار نہیں کرتے۔ ان کے ہاں نام نہاد انٹرویو کا ڈرامہ بھی رچایا جاتا ہے۔ مزید براں ڈگریاں جاری کرنے کی اہل زیادہ تر نجی یونیورسٹیاں ایم فل کے زبانی امتحان کے بعد تحریری مقالوں کے باہمی لین دین کے مکروہ دھندے میں بھی ملوث ہیں۔

ایسے پرائیویٹ اداروں میں کئی قسم کی وائٹ کالر کرپشن جاری ہے۔ زیادہ تر پرائیویٹ یونیورسٹیاں زبانی امتحان کے بعد ایک بڑی رقم کے عوض مقالوں کا عنوان تبدیل کرکے ایک دوسرے کو بیچ دیتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس جرم کی نہ تو کوئی سزا متعین ہے اور بااختیار لوگ اس فکری سرقہ بازی کے واقعات پر تادیبی کارروائی کرنے کے بجائے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق کے موضوعات کے چناؤ میں انتہائی سخت نظم و ضبط نافذ کیا جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ تحقیق کے عنوانات 80 فیصد سے زائد غیر معیاری ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور قسم پارٹ ٹائم ریسرچرز کی ہے، جو شام کی کلاسز میں داخل ہیں اور ریسرچ انجام دینے کی بجائے اس کا خود سے ہی بندوبست کرلیتے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ آسانی اور کم وقت میں کیسے ڈگری مل سکتی ہے۔ وہ ذاتی مہارت اور تعلقات سے اساتذہ کو دوست بنالیتے ہیں۔ اساتذہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ جب تک زیادہ سے زیادہ ریسرچ پیپر پبلش نہیں ہوں گے تب تک وہ خود بھی ترقی نہیں کرپائیں گے۔ جو لوگ اس کرپشن کے ذریعے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں وہی ایسے افسران کی جگہ تعینات کردیئے جاتے ہیں ۔ کرپشن کا سفر یوں ہی جاری رہتا ہے۔

موجودہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور قوانین و ضوابط بہتر بناتے ہوئے ان کے مکمل نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ ملک کے اندر تحقیقی ڈگریوں کے عطا کرنے کے معاملات کی کڑی نگرانی کے لیے ایک مضبوط اور بااختیار گورننگ باڈی کی ضرورت ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پی ایچ ڈی سکالرز کے درمیان براہ راست قریبی رابطہ لازم ہے۔

اس کے علاوہ ایک مشاورتی ادارہ تشکیل دیا جائے جس کا کام یہ ہو کہ سال میں کم از کم دو مرتبہ تحقیقی مقالوں کے نگرانوں اور تحقیق کرنے والے طالب علموں سے ملاقات کرے۔ ان کے کام کی پیش رفت کا جائزہ لے اور ان کے مسائل حل کرے۔ چونکہ اب آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے تو ہمیں انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطحوں کے ریسرچ پر مبنی منصوبوں کو متعارف کرانا چاہیے۔ہم راتوں رات پوری طرح سے اس نظام کو بدل تو نہیں سکتے لیکن انڈرگریجویٹ سطح پر تحقیق کے اصل اہداف متعارف کرانے سے اس کام کو شروع تو ہی کرسکتے ہیں۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو انتخاب کرنے کے لیے صرف ان مطبوعات کو قبول کرنے کی پالیسی پر عمل کرنا لازم ہے جو اعلیٰ اثرات کی حامل اشاعتوں میں شائع کیا گیا ہو۔ ملک کے اہم ترین محققین اور علما کو تحقیقی کام کے ساتھ منسلک رکھنے کی غرض سے یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ اپنی فیکلٹی کے ہر رکن کے لیے یہ بات لازم کردے کہ محقق ایک کلیدی ذمہ دارکے طور پر ہر سال ایک معیاری مقالہ تحریر کرے۔ گورنمنٹ سیکٹر کے کالجوں کے عملے پر بھی اس معیار کو لاگو کرنا ضروری ہے۔ وہ صرف اپنی ماسٹر ڈگری کی بنیاد پر ملازمت تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن بعد میں تحقیق اور تعلیمی صلاحیت کو مزید نکھارنے پر کوئی دھیان نہیں دیتے۔

ضروری ہے کہ کالج کے اساتذہ کے لیے لازم کردیا جائے کہ وہ وقت مقررہ کے اندر اپنے تعلیمی معیار کو مزید بہتر بنائیں جو ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو۔ دوسری صورت میں ان کی جگہ نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کو بھرتی کرلیا جائے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ ہر پانچ سال بعد کالج کے اساتذہ کے لیے ایک ٹیسٹ کا اہتمام کرے جو ان کی مہارت کا فیصلہ کرے اور اگر وہ ناکام رہیں تو ان کی جگہ نئے لوگوں کو موقع فراہم کیا جائے۔

آخری بات یہ کہ تحقیق کے طالب علموں کو بھی چاہیے کہ خود کو بااختیار بنائیں۔ زبان اور ریسرچ کی مہارت پر عبور حاصل کریں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایم فل اور پی ایچ ڈی ہولڈرز کو نوکریاں دے اور روزگار کے مواقع میں ان کو ترجیح دے۔ نیز بے روزگار پی ایچ ڈی ہولڈرز کے لیے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ ان کو ہرصورت ملازمت دی جانی چاہیے تاکہ ملک ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔

(اس تحریر کی تیاری میں حسن بن زبیر ،پی ایچ ڈی  کے مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔