انسانی خون پی کر جو فائدہ پہنچائے

سید عاصم محمود  منگل 25 ستمبر 2018
ایک حیرت انگیز کیڑے کی داستان ِعجب۔ فوٹو: فائل

ایک حیرت انگیز کیڑے کی داستان ِعجب۔ فوٹو: فائل

ایک زمانہ تھا کہ ہمارے گلی محلوں میں جونکیں لگوانے والے عام پھرا کرتے تھے۔ جسم کے کسی بھی حصّے سے فاسد خون یا پھوڑے پھنسیوں اور زخموں سے غلیظ مواد نکالنا ہوتا‘ تو جونکوں سے بھرپور استفادہ کیا جاتا۔

آج کل پاکستان میں جونک کا یہ مفید استعمال تقریباً ختم ہو چکا مگر بھارت کے کئی علاقوں میں اب بھی بغرض علاج جونک والوں کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں۔جونک (Leech)کیچوے کی قریبی رشتے دار ہے ۔کیچوے کی طرح جونک کا جسم بھی چھلوں یا حلقوں میں بٹا ہوتا ہے۔ جونک کی کئی اقسام ہیں ۔ جونکیں تازہ پانی‘ سمندر اور زمین پہ پائی جاتی ہیں۔ زیادہ تر کا جسم چپٹا ہوتا ہے اور وہ سیاہ‘ سبز یا گندمی رنگ کی ہوتی ہیں۔

جسم سے فاسد خون اور مواد نکالنے کے لیے استعمال ہونے والی ’طبی جونک‘ کا اصطلاحی نام ’’ہیروڈا میڈیسنلیس‘‘ (medicinalis Hiruda ) ہے۔ اس کے سہ طرفہ جبڑے میں چھوٹے چھوٹے بیسیوں تیز دانت ہوتے ہیں۔ وہ جلد میں انھیں گاڑ کر خون چوستی ہے۔

قدرت نے خون چوس جونکوں کے اگلے چھ حلقوںمیں چوسنے والے اعضا (Sucker)لگا رکھے ہیں۔ ان کی مدد سے وہ کسی جانور (یا انسان) سے چمٹ کر اس کاخون پیتی ہیں۔ وہ اس دوران لعاب چھوڑنے اور چوسنے کے عوامل سے مدد لیتی ہیں جو چھ حلقوں میں اعصاب کی حرکات سے جنم لیتے ہیں۔جونکوں کی بعض اقسام اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتی‘ غذا دیتی‘ ان کی حفاظت کرتی اور انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں۔

ممالیہ میں تو یہ مادرانہ رویہ عام ہے لیکن بے ریڑھ دار حیوانات خصوصاً جونک جیسے کیڑے میں ایسے رویّے کا پایا جانا غیرمعمولی بات ہے۔ بعض جونکیں صرف پانی ہی میں پلتی بڑھتی اور زندہ رہتی ہیں۔ اسی لیے گرم سمندروں کے علاوہ بحر منجمد شمالی اور انٹارکٹک میں بھی جونکیں پائی جاتی ہیں۔ یہ مچھلیوں سے چمٹ کر ان کا خون چوستی ہیں۔ دیگر تازہ پانی کی جھیلوں اور چشموں میں ملتی ہیں۔ کچھ مینڈک کی طرح خشکی اور تری‘ دونوں میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ بعض اقسام صرف خشکی پر پائی جاتی ہیں۔

زمین پر پائی جانے والی جونکیں صرف جاپان سے لے کر آسٹریلیا کے درمیان واقع بحرالکاہلی جزائر میں ملتی ہیں۔ استوائی جنگلات کی زمین پر ان کی بہتات ہے۔ یہ جھاڑیوں اور درختوں پر چڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اوپر چڑھ کر درختوں کی شاخوں سے لٹکنے لگتی ہیں اور نیچے سے جب کوئی جانور یا انسان گزرے‘ تو ان پر گر جاتی ہیں۔

جونکیں ایک انچ (2.54 سینٹی میٹر) سے لے کر پینتیس انچ (88.9 سینٹی میٹر) تک لمبی ہوتی ہیں۔ ان کی پانچ سے آٹھ تک آنکھیں سر کے پچھلے حصے پر واقع ہیں۔ منہ چوسنے والے عضو کی مانند ہوتا ہے۔ آبی کے مقابلے میں زمینی جونکیں زیادہ موذی (Pest) اور اپنے شکار سے اتنی شدت کے ساتھ چمٹتی ہیں کہ آسانی سے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ تاہم جونک جسم سے چمٹ جائے اور خون چوسے‘ تو شکار کو بالکل تکلیف نہیں ہوتی بلکہ اکثر پتا ہی نہیں چلتا کہ کوئی اس کا خون پی رہا ہے۔

پچھلے ایک ہزار سال سے انسان ’طبی جونک‘ کو مختلف امراض کے علاج میں استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ دراصل قدیم طبیب سمجھتے تھے کہ جسم میں خون گندہ ہونے سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس لیے کسی کو کوئی بیماری چمٹتی‘ تو عموماً وہ یہ نسخہ تجویز کرتے کہ جونکوں کے ذریعے جسم سے فاسد خون نکلوا دو۔ اب جونکوں کا استعمال صرف پھوڑے پھنسیوں یا کسی زخم سے فاسد مواد و خون نکالنے تک محدود ہے۔ یاد رہے کہ طبی جونک بنیادی طور پر یورپی اصل رکھتی ہے اور وہاں سے پوری دنیا میں پھیل گئی۔

یورپ اور ایشیا میں ایک زمانے میں جونکوں کا استعمال اتنا عام تھا کہ ڈاکٹر عوامی زبان میں جونک کہلاتے تھے۔ قدیم جرمن زبان میں لفظ ’لاہی‘ (Lahhi) (جس سے کہ جرمن میں جونک کا لفظ نکلا) کے معنی ہیں ’فزیشن‘۔ طبی جونک کے تین جبڑے آری جیسے ہوتے ہیں۔ ان پر نصب تقریباً ایک سو دانت ’میزبان‘ کے جسم میں سوراخ کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ کئی ممالک میں طبی جونک کو پالا جاتا ہے تاکہ اس سے علاج میں استفادہ کیا جا سکے۔

طبی جونک سمیت تمام خون چوس جونکوں کے تھوک میں شامل خاص قسم کے مرکبات چوسنے کا عمل آسان بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں موجود ’’بے حس کن مادہ ‘ (anaesthetic) شکار میں تمام احساسات ختم کر دیتا ہے۔

اسی باعث اسے احساس نہیں ہو پاتا کہ ایک جونک اس سے چمٹی ہوئی ہے۔ پھر ایک ’’باسط عروق مادہ ‘‘(Vasodilator) شکار میں خون کی نالیوں کو ڈھیلا کر کے پھیلا دیتا ہے۔یوں جونک کو نہ صرف خون چوسنے میں آسانی رہتی ہے بلکہ اسے خون بھی زیادہ ملتا ہے۔جونک کے تھوک میں ایک پیچیدہ پروٹین ’ہائروڈین‘ (Hirudin)بھی ملتا ہے۔ یہ معیاری قسم کا مانع ترویب ( coagulant anti)ہے یعنی خون روکنے والا پروٹین۔ اس کے باعث زخم میں خون کے تھکے (clots)نہیں بنتے جو جونک کے کاٹنے سے جنم لے سکتے ہیں ۔ تھکے بننے سے جونک صحیح طرح خون نہیں چوس سکتی۔

درج بالا خصوصیات دیگر طبی تکانیک کی مدد سے اختیار نہیں کی جا سکتیں‘ یہی وجہ ہے کہ جدید طب کی بے پناہ ترقی کے باوجود آج بھی کئی ممالک میں جسم سے فاسد خون اور مواد نکالنے کے لیے اسی کیڑے سے مدد لی جاتی ہے۔ چونکہ جونک میں ہائروڈین کی مقدار کم ہوتی ہے‘ اسی لیے عام طبی علاج میں اس کا استعمال ممکن نہیں۔

جونک جوں جوں خون پیتی جائے‘ اس کا بدن پھولتا جاتا ہے۔ جب وہ سیر ہو جائے‘ تو جلد سے علیحدہ ہو کر گر جاتی ہے۔ قدرت نے جونک میں پوٹا (crop) بھی رکھا ہے جس میں وہ چوسا ہوا خون محفوظ کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جونک اپنے جسم کی جسامت سے پانچ گنا زیادہ خون پوٹے میں ذخیرہ کر سکتی ہے۔پوٹے میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں جو محفوظ شدہ خون کو سڑنے نہیں دیتے‘ اسی لیے جونک اگر سیر ہو کر پی لے‘ تو چھ ماہ بعد اسے دوبارہ غذا کی حاجت محسوس ہوتی ہے۔جن علاقوں میں جونکوں کی بہتات ہے‘ وہاں ان کے کاٹنے سے بچنے کے لیے زیادہ اقدامات کرنا بیکار ہے۔ تاہم آباد لوگ خصوصی ’جونک موزے‘ (sockes leech)پہنتے ہیں تاکہ جونکوں سے محفوظ رہیں۔ اگر آپ کسی کھیت یا دیہی علاقے کی جھیل میں داخل ہوں‘ تو نکلنے سے پہلے اچھی طرح جائزہ لے لیں کہ کسی حصہ جسم پر جونک تو نہیں چمٹی ہوئی۔

اگر جونک کاٹ لے‘ تو اس حصہ بدن کو پہلے جراثیم کش دوا سے صاف کیجیے۔ جلد سے جونک ہٹانے کے لیے اس پر نمک چھڑک دیں‘کیچوے کی طرح نمک اسے بھی گھلا دیتا ہے۔ آگ سے بھی یہ دور بھاگتی ہے۔ پانی میں چوناملا کر ڈالنے سے بھی وہ پیچھا چھوڑ دیتی ہے۔ جونک کے ڈالے ہوئے زخم کو ناخنوں سے نہ کھرچیے ورنہ وہ بگڑ کر دوسرے امراض پیدا کرنے کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

جنوبی یورپ‘ شمالی افریقہ اور مشرق میں ایک ایسی جونک (لیمناتیس نیلوٹیکس) پائی جاتی ہے جو پانی کے راستے انسانی جسم میں داخل ہو سکتی ہے۔ اگر کسی تالاب میں یہ جونکیں موجود ہوں اور وہاں نہایا جائے‘ تب بھی یہ منہ کے راستے انسان کے بدن میں داخل ہو جاتی ہیں۔ یہ پھر منہ کی نالی کے راستے پھیپھڑوں تک جا پہنچتیں اور ان سے چمٹ کر خون پیتی ہیں۔ یوں انسان کو قیمتی خون سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔