کرپشن کا ناسور کرکٹ میں جڑیں گہری کرنے لگا

اسپورٹس ڈیسک  منگل 25 ستمبر 2018
نئی لیگزمیں کرپٹ عناصرکے اثرورسوخ سے کرکٹرزکوآگاہ کرنے کی ضرورت ہے،شہزاد نے مشکوک رابطے کی رپورٹ کر دی۔ فوٹو : فائل

نئی لیگزمیں کرپٹ عناصرکے اثرورسوخ سے کرکٹرزکوآگاہ کرنے کی ضرورت ہے،شہزاد نے مشکوک رابطے کی رپورٹ کر دی۔ فوٹو : فائل

 دبئی:  کرپشن کا ناسور کرکٹ میں جڑیں گہری کرنے لگا جب کہ فکسرز کی دیدہ دلیری حد سے زیادہ بڑھ گئی۔

آئی سی سی اور دیگر ممبران بورڈز کی بھرپور کوششوں کے باوجود فکسرز کی دیدہ  دلیری اس حد تک بڑھ چکی کہ وہ عام پلیئرز کو چھوڑ کر براہ راست کپتانوں کواپنے دام میں الجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ الیکس مارشل نے تصدیق کی کہ گذشتہ 12 ماہ کے دوران 5 انٹرنیشنل کپتانوں سے بکیز نے رابطہ کیا، ان میں سے 4 کا تعلق فل ممبرز ممالک سے ہے،پاکستان کے سرفراز احمد عوامی سطح پراپنے ساتھ ہونے والے رابطے کی تصدیق کرچکے ہیں۔

الیکس مارشل نے دبئی میں میڈیا ڈے کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر 12 ماہ کے دوران ہم نے 32 معاملات کی تحقیقات کیں۔ ان میں شامل 8 پلیئرز مشکوک قرارپائے، 5 کا تعلق انتظامیہ یا اسٹاف سے ہے، ان میں تین افراد پر چارج عائد کیے گئے۔ زیادہ تر تحقیقات کھیل کے اندر سے ہونے والی مخبری پر شروع کی گئیں جو مشکوک حرکات دیکھ کر رپورٹ کی جاتی ہے، کسی میں پلیئرز یا سابق کھلاڑی، اسٹاف یا مینجمنٹ کے بندے شامل ہوتے ہیں، 14 تحقیقات ایسے لوگوں کے خلاف ہیں جن کا تعلق کرکٹ فیملی سے نہیں ہے ان میں پانچ انٹرنیشنل کپتانوں سے ہونے والے روابط بھی شامل ہیں۔

مارشل نے کہاکہ کرپٹ لوگ کپتانوں کو پسندکرتے ہیں، ماضی کے مشہور کرپشن کیسز کی مثال ہمارے سامنے ہے چونکہ کپتان کا بولنگ، فیلڈنگ اور دوسرے شعبوں پر کنٹرول ہوتا ہے اس لیے بکیز ان کو اپنے دام میں الجھانا چاہتے ہیں، انھوں نے کہا کہ کرپٹ لوگوں نے اپنے ایونٹس منعقد کرنا شروع کریے، عجمان میں بھی ایسا ہی ٹورنامنٹ ہوا، ہم کرکٹ میں موجود لوگوں کو ایسے عناصر کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے کیلیے تعلیم دے رہے ہیں۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام بورڈز کو کرپشن کی روک تھام کیلیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے،مارشل نے نئی لیگز میں مشکوک افراد کے اثررسوخ اور دام میں الجھانے کے طریقہ کار سے متعلق کھلاڑیوں کو آگاہی دینے کی بھی ضرورت پر زور دیا۔

الیکس مارشل نے کہا کہ ہم کسی بھی لیگ کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیتے ہیں کہ آیا اس کو اینٹی کرپشن کور حاصل ہے، کیا منتظمین نے اس مقصد کیلیے ہماری خدمات حاصل کیں یا کسی اور کی، کہیں اس لیگ کے پیچھے موجود سرمایہ کار یا اس میں شامل لوگ مشکوک تو نہیں ہیں؟

انھوں نے کہاکہ ہم فیلڈ میں پیش آنے والے انوکھے واقعات یا کسی نامعلوم شخص کی رپورٹ پر تحقیقات شروع نہیں کرتے، ہمیں ایسی کئی انفرادی اور نامعلوم ذرائع سے رپورٹس ملتی رہتی ہیں، ہم پہلے سب کو یکجا کرتے اور جب قابل قبول وجوہات دکھائی دیں تو تحقیقات کا آغاز کرتے ہیں۔

ادھر شارجہ میں 5 سے 23 اکتوبر تک شیڈول افغان پریمیئر لیگ کے ابتدائی ایڈیشن کو ہی سٹے بازوں نے اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے، اس مقصد کیلیے افغان وکٹ کیپر بیٹسمین محمد شہزاد سے رابطہ بھی کیا گیا جنھوں نے متعلقہ حکام کو اس کی رپورٹ کردی۔

’’ایکسپریس‘‘ میں اس حوالے سے گزشتہ دنوں ہی رپورٹ شائع ہو چکی جس کی اب آئی سی سی نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ دریں اثنا ٹی 10 لیگ میں شمولیت کے حوالے سے پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی اور پلیئرز کی میٹنگ جلد متوقع ہے۔

آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو ڈیو رچرڈسن نے کہاکہ اگرچہ اس ایونٹ کو ہماری پشت پناہی حاصل ہے مگر ہم بدستور ہوشیار رہیں گے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کسی رکن ملک کو ایک لیگ تک محدود کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کرکٹ کا فائدہ کس میں ہے اس کے ساتھ ہمیں اس کے وقار کو بھی قائم رکھنا ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ احسان مانی نے اس ایونٹ کیلیے اپنے پلیئرز کو ریلیز کرنے کے حوالے سے تحفظات ظاہر کیے تھے۔ انھوں نے فرنچائز مالکان پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔ چیئرمین نے ابھی تک اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا جبکہ اس سلسلے میں ان کی پلیئرز کے ساتھ میٹنگ جلد متوقع ہے۔

احسان مانی کا کہنا تھا کہ میں اپنے پلیئرز کو ریلیز کرنے سے قبل خود مطمئن ہونا اور اس لیگ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں، ہمیں اس حوالے سے مطمئن ہونے کی ضرورت ہے کہ اس ایونٹ میں رقم کہاں سے آرہی ہے، اسپانسرزاورفرنچائز مالکان کون ہیں، پی سی بی کی موجودہ فائلز میں ایسی کوئی معلومات موجود نہیں ہیں، اگر آئی سی سی ہمیں یقین دہانی کرا دے تو پھر مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ٹی ٹین لیگ کے  پاکستانی پارٹنر سلمان اقبال گزشتہ دنوں عدم شفافیت کا الزام لگا کر ایونٹ سے الگ ہو گئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔