مذہب اور ثقافت

ساحر نیازی  بدھ 26 ستمبر 2018
جس طرح انسانی معاشرے میں مذہب کی اہمیت ہے اسی طرح ثقافت بھی وہاں رہنے والوں کے رویوں کی تشکیل کرتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جس طرح انسانی معاشرے میں مذہب کی اہمیت ہے اسی طرح ثقافت بھی وہاں رہنے والوں کے رویوں کی تشکیل کرتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انسانی تاریخ میں مذہب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آج کے انسان کو آثارِ قدیمہ پر تحقیق کے نتیجے میں جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق قدیم ترین انسانی تہذیب میں بھی مذہب کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا ہے۔ ہمارا مذہب اسلام آخری الہامی مذہب ہے جو حضور ﷺ کے توسط سے ہم تک پہنچا۔ اسلام جزیرہ نما عرب سے نکلا اور پوری دنیا میں پھیل گیا۔

جس طرح کسی بھی انسانی معاشرے میں مذہب کی اہمیت ہے اسی طرح کسی معاشرے کی ثقافت بھی اس میں رہنے والے انسانوں کے رویوں کی تشکیل کرتی ہے۔ مذہب اور ثقافت، دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اسلام، سرزمینِ عرب سے پوری دنیا میں پھیلا۔ وہاں کے لوگ اسلام کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عرب ثقافت بھی اپنے ساتھ میں لائے جو ایک فطری سی بات ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسلام آنے سے پہلے ہندو مت مختلف شکلوں میں رائج تھا اور اسی طرح اس علاقے کی اپنی ایک جداگانہ ثقافت بھی تھی۔ اسلام کے آنے اور مسلم فاتحین کی آمد سے یہاں کی مذہبی روایات پر تو اثر پڑا ہی، ساتھ ہی ساتھ ثقافتی طور پر بھی یہ خطہ تبدیلیوں سے گزرا۔ یہ ایک پیچیدہ عمرانی عمل تھا جس سے گزر کر ہم آج کے دور تک پہنچے ہیں۔

آج جب مغربی ثقافت عروج پر ہے اور اس کے اثرات ہمارے معاشرے تک پہنچ رہے ہیں تو ہمارے معاشرے میں ایک عجیب سی کشمکش شروع ہو گئی۔ ہمارے معاشرے میں ایک طبقے نے بغیر اس بات کو سمجھے کہ ثقافت کوئی منجمد شے نہیں، اور اس کی روایات کا تبدیل ہونا ایک فطری عمل ہے جسے روکنے کی کوشش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، مذہب کے نام پر مغربی ثقافتی اثرات کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔

جو بات وہ سمجھنے سے قاصر رہے وہ یہ تھی کہ مذہب کی تعلیمات ایک الگ شئے کا نام ہے اور عرب ثقافت ایک اور چیز ہے۔ مثلاً لباس کے متعلق جو عرب روایات اُس وقت تھیں، وہ آج کے دور ہی میں نہیں بلکہ اُس دور میں بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں رائج کرنا ممکن نہ ہوتا۔ سرد ممالک کے لوگ گرم خطے کے لوگوں والا لباس نہیں استعمال کرسکتے۔ ویسے بھی لباس کا تعلق ثقافت سے ہے اور اس میں موسم کے علاوہ بھی بہت سے عوامل کا کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح اور بھی چیزیں تھیں جو اپنی اصل میں ثقافت کا حصہ تھیں لیکن انہیں مذہب کی تعلیمات کا حصہ بنا کر ایک تصادم کا آغاز کردیا گیا۔

اس سارے قضیے میں ایک نقصان تو یہ ہوا کہ ہماری نئی نسل اور پرانی نسل میں فاصلہ پیدا ہو گیا اور مذہبی لوگ اپنے معاشرے میں ہی اجنبی بن کے رہ گئے۔ دوسرا اصل نقصان مذہب کا ہوا کہ اس کی اصل تعلیمات بھی ثقافتی یلغار کی زد میں آگئیں اور نوجوان نسل کے ذہن میں مذہب اور ثقافت ایک دوسرے کے مقابل بن گئے۔

اب اس تصادم میں کون فاتح بن کر ابھرا؟ اس کا حال آپ اپنے معاشرے میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔

آج ہمارے معاشرے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ذہنوں میں ثقافت اور اسلام کے تصورات کو واضح طور پر سمجھیں اور اپنی نئی نسل کو بھی اس بات کا شعور دیں کہ اسلام ایک جدت پسند نظامِ حیات ہے جو اپنی بنیادی تعلیمات پر کوئی اثر قبول کیے بغیر دنیا کی ہر ثقافت کے ساتھ چل سکتا ہے۔ صرف اسی طرح ہم اپنی نئی نسل کو اپنے مذہب پر عمل پیرا رہتے ہوئے، زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا سکھا سکتے ہیں ورنہ ہم اور ہماری نئی نسل زمانے کی رَو میں بہتے جائیں گے اور ہمارا مذہب، آنے والی نسلوں کےلیے اجنبی بنتا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ساحر نیازی

ساحر نیازی

بلاگر پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، لکھنے پڑھنے کو زندگی کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ لاہور میں رہتے ہیں لیکن آبائی تعلق میانوالی سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔