پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر کو مشترکہ منصوبوں کی سعودی پیشکش

احتشام مفتی  بدھ 5 جون 2013
بڑے اسٹور خریداری کیلیے نمائندے پاکستان بھیجیں گے، بلارکاوٹ بجلی گیس دی جائے تو سعودیہ کو 3 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ممکن ہے، ٹاولز مینوفیکچررز۔ فوٹو: فائل

بڑے اسٹور خریداری کیلیے نمائندے پاکستان بھیجیں گے، بلارکاوٹ بجلی گیس دی جائے تو سعودیہ کو 3 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ممکن ہے، ٹاولز مینوفیکچررز۔ فوٹو: فائل

کراچی: پاکستان کے نجی شعبے نے سعودی عرب کی سالانہ 4.5 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں 70 فیصد حصہ کے حصول کی غرض سے سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے جبکہ سعودی عرب کے چند سرفہرست اسٹورچینز نے پاکستان سے ٹاولز، احرام ودیگر ٹیکسٹائل مصنوعات درآمد کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری کے باخبرذرائع نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ فی الوقت سعودی مارکیٹ میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا حصہ صرف40 کروڑ ڈالر تک محدود ہے حالانکہ سال2002 تک سعودی مارکیٹ میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ 70 فیصد تھا جس میں 31 فیصد حصہ صرف پاکستانی ٹاولز اور احرام کا تھا، سعودی مارکیٹ میں پاکستانی احرام اور ٹاولز کی برآمدات کے حجم کو بڑھانے کی غرض سے ٹاولز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان کا ایک 12 رکنی وفد نے سعودی عرب کا تفصیلی دورہ کیا اور اس دورے میں پاکستان کو صرف ٹاولز اور احرام کے 10 لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کے برآمدی آرڈرز حاصل ہوئے ہیں۔

اس ضمن میں ٹاولز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مہتاب الدین چاؤلہ نے ’’ایکسپریس‘‘ کے استفسار پر بتایا کہ اگر ٹاولزکی برآمدی صنعتوں کوبجلی گیس کی بلارکاوٹ ترسیل کی جائے تو انتہائی مختصر سے دورانیے میں سعودی عرب کے لیے پاکستانی ٹاولز اور احرام کی برآمدات کو40 کروڑ سے بڑھا کر3 ارب ڈالر تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ٹاولز کی کھپت ہماری استعداد کار سے بہت زیادہ ہے اور یورپی یونین کے رکن ممالک میں بلحاظ معیار پاکستانی ٹاولز زیادہ پسند کیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹاولز کی یورپ میں برآمدات کا حجم سب سے زیادہ ہے، پاکستان سے ٹاولز کی ہونے والی برآمدات کا 80 فیصدامریکا کے لیے جبکہ باقی ماندہ20 فیصد برآمدات برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک کو ہورہی ہیں۔

مہتاب چاؤلہ نے بتایا کہ ٹی ایم اے کے وفد نے پاکستانی ٹاولز انڈسٹری کی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے سعودی مارکیٹ کے بڑے پلیئرز کے ساتھ ملاقاتیں کیں جن میں رولا کوگروپ، بن داؤد گروپ شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کے صرف بن داؤد گروپ کی ٹیکسٹائل مصنوعات کے 90 کنٹینرز کی ماہانہ کھپت ہے جسے وہ بھارت، ترکی اور چین سے درآمد کرکے پورا کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کے سرفہرست اسٹورچینز کے مالکان نے پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدکنندگان سے شکایت کی ہے کہ ان کی جانب سے طویل دورانیے تک سعودی درآمدکنندگان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا تاہم اب وہ اپنے نمائندے پاکستان بھیجیں گے جو پاکستان سے درآمدی سہولتوں اور ان کی ضروریات پورا ہونے کی صلاحیت ومعیار کا جائزہ لگانے کے بعد درآمدات کا فیصلہ کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ جدہ چیمبرآف کامرس کے اراکین بھی پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں شروع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ درآمدی معاہدوں کی مقررہ مدت میں تکمیل وترسیل اور معیار کی ضمانت چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مدینہ چیمبر آف کامرس کے عہدیداروں نے پاکستانی ٹاولز انڈسٹری کو سعودی انویسٹمنٹ پالیسی کے تحت مدینہ میں جوائنٹ وینچرکے تحت ٹاولز کی صنعتیں قائم کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی پالیسی کے تحت مدینہ میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانی کومجموعی سرمائے کا صرف 40 فیصد سرمایہ کاری کرنی ہوگی جبکہ باقی ماندہ60 فیصد بلاسود سرمایہ کاری سعودی حکومت کرے گی اور اس بلاسود سرمایہ کاری کی ادائیگیوں کی مدت10 سال ہوگی، مدینہ میں جوائنٹ وینچر کے تحت قائم ہونے صنعتوں پر صرف خام مال کی درآمدات پرڈیوٹی عائد ہے لیکن دیگر تمام ٹیکسوں کی چھوٹ حاصل ہے۔

مہتاب چاؤلہ نے بتایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی تجارت وسرمایہ کاری میں ریکارڈ نوعیت کا اضافہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی تاجروں و صنعت کاروں کے لیے تجارتی ویزوں کے حصول میں حائل رکاوٹیں ختم کردی جائیں اور ساتھ ہی سعودی مارکیٹ کے لیے کی جانے والی ٹیکسٹائل مصنوعات پر عائد 12 فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کردی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدکنندگان جب امریکا ویورپی ممالک کی کوالٹی کنٹرول کو پورا کرسکتے ہیں تو وہ اپنے بھائی اور دوست ممالک کی طلب معیار و ضروریات اور خواہشات کے مطابق بھی مصنوعات تیار کرکے فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مہتاب چاؤلہ نے بتایا کہ سعودی درآمدکنندگان انٹرنیٹ یا فون کے بجائے آمنے سامنے بزنس ڈیل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور پاکستانی برآمدکنندگان اس کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ باہمی تجارت کے حجم کو توسیع دینے کے لیے بھارت کی طرز پر پاکستانی برآمدکنندگان پر مشتمل وفود کو بھی ماہانہ بنیادوں پر سعودی عرب کے دورے پر روانہ کریں، ان پے درپے دوروں کے مطلوبہ نتائج جلد حاصل ہوسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔