قومی اسمبلی اجلاس میں بنگالی اور افغانیوں کو شہریت دینے کے اعلان پر ہنگامہ

ویب ڈیسک  منگل 25 ستمبر 2018

 اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس میں بنگالی اور افغانیوں کو شہریت دینے کے اعلان پر ہنگامہ ہوگیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بنگالیوں اور افغان باشندوں کو شہریت دینے کے اعلان پر قومی اسمبلی میں نئی بحث چھڑ گئی، معاملے پر پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ اور پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کے مابین شدید جھڑپ ہوگئی۔

پیپلزپارٹی اور بی این پی مینگل کے مشترکہ توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے نفیسہ شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نے کراچی کے عوام کے جذبات مجروح کرتے ہوئے ’بے حس‘ بیان دیا، وزیراعظم کا یہ بیان شہر قائد کی حساسیت کو جانے بغیر سامنے آیا ہے جہاں وسائل پر کئی بار خانہ جنگی دیکھی گئی ہے، عمران خان مدینہ جیسی فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں جب کہ انہیں شاید معلوم نہیں کہ کئی دہائیوں سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی مہاجرین آج تک شہریت حاصل نہیں کر سکے ہیں، حکومت ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ملک میں رہنے والے پناہ گزینوں اور مہاجرین کی معلومات اکٹھی کرے۔

نفیسہ شاہ نے مزید کہا کہ قوم کو بتایا جائے کہ سعودی عرب میں کون سے معاہدے ہوئے، چندے سے شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی تو بن سکتی ہے لیکن ڈیڑھ کھرب روپے کا ڈیم نہیں بن سکتا، وزیراعظم پرائم منسٹر ہاؤس کی تذلیل کر رہے ہیں، ایک صحافی کو اجازت دی اس نے واش روم میں بیٹھ کر سیلفی لی اور وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

حنا ربانی کھر نے بھی وزیراعظم کے بیان کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے، وہ وزیراعظم بننے کے بعد صرف اپنی جماعت کی نہیں بلکہ پورے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ ان حساس معاملات پر پارٹی سربراہ کے طور پر یوٹرن لے سکتے ہیں لیکن وزیراعظم کے طور پر نہیں۔

بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہم کسی یوٹرن کے جھنجٹ میں نہیں پڑتے لیکن جن کو ڈالر دے کر واپس بھیجا جاتا ہے وہ 500 روپے چیک پوسٹ والوں کو دے کر واپس آ جاتے ہیں، حکومت بنگالیوں اور افغانیوں کو انسانی حقوق کی بنیاد پر شہریت دینے پر غور کر رہی ہے جب کہ بلوچ عوام کو ان کے اپنے ہی ملک میں انسان تک نہیں سمجھا جاتا، اس معاملے پر ایوان میں بحث کرائی جائے۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہا کہ مہاجرین کے کوئی اعداد وشمار ہی نہیں، افغان کرکٹ ٹیم کا ایک کھلاڑی بھی پاکستانی شہری ہے، انسانی حقوق کیلیے اپنا تشخص قربان نہیں کر سکتے۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے مہاجرین کے بچوں کو شہریت دینے کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ آئین اور قانون کو مدنظر رکھ کر اور تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا، اس طرح بہاری پاکستانی شہری تھے یہ بنگالی نہیں تھے، اس مسئلے کو بھی دیکھنا ہوگا، حکومت اس معاملے پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے بحث کرنے پر تیار ہے۔

انکا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اختر مینگل سے ملاقات کرکے یقین دہانی کرائی تھی کہ فیصلہ کیے جانے سے قبل تمام جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی، حکومت نے اس حوالے سے معلومات اکٹھا کرنا شروع کردی ہیں جسے جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
شیریں مزاری نے کہا شکر ہے آج پیپلز پارٹی کو کراچی کا خیال آیا ہے، سندھ میں10 سال سے انہی کی حکومت ہے، اب اگر خیال آگیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے وزیراعلیٰ کو بتادیں کہ اب تک کچھ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے نفیسہ شاہ کو کہا کہ آپ تاریخ پڑھیں، وزیراعظم جس مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں اس کا مطلب سعودی عرب نہیں، شہریت ایکٹ 1951 پاکستان میں پیدا ہونے والے تمام افراد کو شہریت دینے کا کہتی ہے، آپ کو یہ بات پسند آئے یا نہیں لیکن قانون پاکستان میں پیدا ہونے والے افراد کو شہریت دینے کا کہتا ہے تاہم یہ ایوان اس قانون کو تبدیل کرسکتا ہے، عالمی کنونشن پر دستخط کے باعث افغان پناہ گزینوں کو جبری طور پر ملک بدر نہیں کیا جا سکتا، کراچی میں رہنے والے بنگالیوں کو بنگلا دیش میں بھی شہریت نہیں ملے گی کیوں کہ انہوں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔