سارے جہاں کا درد صحافی کے جگر میں ہے

صدام طفیل ہاشمی  بدھ 26 ستمبر 2018

حال ہی میں ایک دوست نے واٹس ایپ پر ایک میسج ارسال کیا، جسے پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی آیا ۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک لڑکی کسی صحافی کی ظاہری شان وشوکت اور اثر و رسوخ دیکھ کر اس کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ والدین شادی پر تیار نہ تھے پر عشق ایسی آگ ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے کے مصداق شادی خانہ آبادی انجام پا ہی گئی۔

محترمہ شادی کے تین ماہ بعد شرمندہ سی واپس میکے آ گئی ۔ ماں نے پوچھا تو آنسوئوں کی رم جھم کے ساتھ بتایا کہ اماں صحافی تو کنگلا نکلا ،گھر سرکاری محکمے کا ہے،گاڑی دفترکی ہے، بڑے ہوٹلوں پرکھانوں کی دعوتیں مفت میں ہوتی ہیں، موبائل کا بل پولیس والے ادا کردیتے ہیں اور تو اور زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں، نجانے سچ بولنے کی پاداش میں کب کون کہاں ٹپکا دے ، نہ آنے کا وقت مقرر نہ جانے کا پتہ ، نہ پیارکا ٹائم اور نہ اوور ٹائم ، صحافت کا وعدہ پیسہ کم، ٹینشن زیادہ ، لڑکی نے روتے پیٹتے دہائی دی ۔

ماں نے سینے سے لگایا ماتھا چوما اور فرمایا بیٹی بس گزارہ کرلو گھرکا راشن تیرے ابا ڈال دیں گے۔ میری بچی سمجھا کر سارے علاقے میں ٹور بنی ہوئی ہے کہ داماد صحافی ہے اس بھرم کو تو قائم رہنے دے ۔ لطیفہ پڑھنے میں عمدہ اور حقائق پر مبنی تھا۔ پڑھ کر اس دوست کو اسمائل بھی بھیج دیے۔

اب سوچنے لگاکہ اٹھارہ سال بیشتر جب صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو بہت سی خوش گمانیاں تھیں ۔ انٹرکا طالب علم تھا اور سمجھتا تھا کہ محنت میں عظمت ہے ۔ یہ سن رکھا تھا کہ ’’پڑھوگے لکھوگے تو بنو گے نواب‘‘ اس کے باوجود اچھا اسپورٹس مین تھا ۔ شامیں اسٹیل ٹائون آفیسرزکلب میں سوئمنگ کرتے یا پھر اسکواش و ٹینس کھیلتے گزرا کرتی تھیں۔ یار لوگ اسٹیل ٹائون آفیسرز ریزیڈنس کو منی اسلام آباد کے نام سے یاد رکھتے ہیں۔

کراچی ایسے شہر میں ذرا ہٹ کر سرسبز علاقے میں رہنا جہاں پانی، بجلی وگیس چوبیس گھنٹے میسر ہو اور نہ کسی ہڑتال کی اجازت، نہ ٹریفک جام کا خوف ۔اب سوچتا ہوں کہ یہ خوش قسمتی ہی تھی ۔اسٹیل ٹائون اس وقت شہر محبوباں سے خاصے فاصلے پر واقع تھا جہاں اسٹیل مل میں کام کرنے والے افسر و ورکرز رہائش پذیر تھے۔اس قصبے میں داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک ڈبل روڈ ہے۔

یہ سڑک بھی عجیب ہے جسے دیکھ کرکراچی شہرکے بارے میں کہی جانے والی اک کہاوت یاد آجاتی ہے، پل کے اس پار اور پل کے اس پار، سڑک کے دائیں جانب جونیئر افسران اور ورکرزکی رہائش گاہیں ہیں اور بائیں جانب سینئر افسران کی، والد صاحب کیونکہ یونائٹیڈ اسٹیٹس آف سوویت یونین یعنی روس سے فارغ التحصیل تھے تو ہم بائیں جانب رہائش پذیر تھے ۔ ہمارے بچپن میں اس جانب رشین خاندانوں کی تعداد خاصی تھی کیونکہ اسٹیل مل روس کی جانب سے قائم کی گئی تھی جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹوکا اہم کردار تھا ۔

یہ اور بات ہے کہ بعد میں اسٹیل مل کا بیڑا غرق بھی اسی لیے ہوا کہ صوبائی حکومت نے اپنے کارکنان کو نوازنے کے لیے غیر ضروری بھرتیاں بھی کیں لیکن ذرایع کے مطابق پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اسی مل کا اہم کردار ہے کیونکہ ایٹمی دھماکے کے لیے فولادی چادریں بھی یہیں تیار ہوئیں۔ یہ دنیا کی آئیڈیل اسٹیل مل ہے جس کا رشین بیچ کے نام سے اپنا ساحل سمندر و ذاتی ریلوے اسٹیشن بھی موجود ہے۔اسٹیل ٹائون آفیسرزکلب میں ہمارے ساتھیوں میں رشین، چینی وجاپانیوں کی بھی خاصی تعداد ہوتی تھی ۔

روسی تو اپنے خاندانوں کے ساتھ سالوں سے وہاں رہائش رکھتے تھے جب کہ چینی وجاپانی بعد میں وہاں وارد ہوئے کیونکہ روس کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بڑی تعداد میں روسی خاندانوں کو واپس بھیجا گیا۔روسیوں میں دہریے، مسیحی ، یہودی وغیرہ بھی تھے ۔ اسی طرح اسٹیل ٹائون میں ہر مذہب ، زبان و رنگ ونسل کے پاکستانی بستے تھے ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ روس سے تعلق رکھنے والے انکل یورا جانے سے پہلے ابو سے ملنے آئے تو بہت دکھی تھے۔ان کی سنہرے بالوں والی بیٹی میری ہمجولی جانے آج کہاں ہوگی ۔

انکل یورا سے اکثر رشین مارکیٹ میں ملاقات ہوا کرتی تھی۔ سڑک کے اس پار والی مرکزی مارکیٹ کا نام پاکستانی مارکیٹ اور اس جانب والی کا نام رشین مارکیٹ تھا ۔ اس دور میں اسٹیل مل میں حاصل سہولیات بیمثال تھیں اس لیے جو سیکھا اسی کو مد نظر رکھ کرکم عمری میں صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔گھر والے سمجھاتے رہے کہ تعلیم پر توجہ دو پر ہم کہاں ٹلنے والے تھے۔

یہ اور بات ہے کہ پھر صحافت کے ساتھ ساتھ گریجویشن اور پھر ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرزکرکے گھر والوں کا بھی بھرم رکھ ڈالا پر آج جب ارد گرد نگاہ ڈالتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔جس وقت کھیلنے کودنے کے دن تھے وہ صحافت کی نذرکر دیے۔ بچپن کے کچھ ساتھی آئی ایس ایس بی اورکچھ سی ایس ایس کرگئے اور اکثر بیرون ملک سدھارگئے اور خوش وخرم زندگی گزار رہے ہیں۔

اک ٹھہرے ہم جو اپنی دانست میں قوم میں سدھارکا بیڑا اٹھائے مہینے کے آخر میں جیب کھنگالنے پر مجبور ہیں ۔ نوجوانی کے قیمتی سال اس پیشے کو دینے کے بعد اب کسی اور شعبے میں جانے کی ہمت بھی نہیں ۔ایک ورکنگ یعنی عامل صحافی کو شدید محنت اور پسینہ خشک ہونے کے بعد جو تنخواہ ملتی ہے اسے دیکھ کر اس کی آنکھیں جھلملا اور روح تلملا جاتی ہے ۔ آنکھوں میں خوشی کے آنسوکہ تنخواہ آخر مل ہی گئی اور اجرت کی رقم دیکھ کر روح کا تلملانا تو حق بنتا ہے ۔

ہاں اس لطیفے کے مطابق ٹور تو ہوتی ہی ہے ۔ معاشرے کی ناہمواریوں کو سامنے لانا ، مظلوم کی آواز ایوانوں تک پہنچانا ، معاشرے میں سدھارکے لیے چیخنا اور چلانا اور جب کوئی کسی مصیبت میں پھنسے تو وقت کی قید کے بغیر انھیں انصاف دلانے پہنچ جانا ، پولیس کو قانون سکھانے کی کوشش کرنا ، حکومت و بیوروکریٹس کو ان کی ذمے داریوں کا احساس دلانا، غرض کہ ہمارے وطن میں صحافی ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ کی ذمے داریاں بھی نبھاتا ہے اور لوگ بھی اس غریب کو مسیحا سمجھتے ہیں ۔

وہ سمھجتے ہیں کہ سارے جہاں کا درد صحافی کے جگر میںٰ ہے، ان صحافیوں میں بھی اقسام ہیں کچھ وہ جوگھریلو مسائل سے تنگ آکر لین دین شروع کردیتے ہیں، دوسری قسم والے حرام سے گریزکرتے دلبرداشتہ ہوکر وطن چھوڑ جاتے ہیں جب کہ ایک قسم وہ ہے جو اچھے وقت کے انتظار میں یہاں رہ جاتے ہیں اورکسی دن فاقہ کشی کے باعث راہی ملک عدم ہوجاتے ہیں ۔ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا میں آنے کے بعد ایسے کئی واقعات کا میں چشم دیدگواہ ہوں جب ٹی وی چینل میں کام کرتے صحافی گرا اور دوسری دنیا کا مسافر بنا ۔

ظاہر ہے جو ہر وقت ٹینشن کی خبریں بنائے گا تو انسان ہونے کے باعث کیا خود دکھ کا شکار نہ ہوگا ؟اور پھر جب پڑھا لکھا اور عزت دار انسان معاشی پریشانیوں کا شکار ہوگا تو موت کوگلے نہ بھی لگائے موت اس کا راستہ ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ عجب سا لگتا ہے کہ دنیا بھر میں صحافیوں، قلمکاروں، استادوں ودانشوروں کو انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جانے کے ساتھ ان کی بزرگی اور تجربے کے مطابق اجرت بھی دی جاتی ہے۔

حکومتیں کچھ کرنے سے پہلے ان سے مشورہ کرتی ہیں ۔ افسوس صد افسوس کہ اب تو حکمراں یہ فرق کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ ایک صحافی اور اسکرین پر چمکتے ستارے یعنی محض اینکر میں فرق کیا ہے۔ بہت کم اینکر حضرات ایسے ہیں جو معتبر صحافی ہیں زیادہ تعداد غیر صحافی عناصرکی ہے جو جان پہچان، رشتے داری اور تعلق واسطے کی بنیاد پر پیرا شوٹ کے ذریعے نازل ہوئے اور آج عذاب بن کر اپنی نامعقولیت کی سزا قوم کو دے رہے ہیں۔

سنا ہے کہ نیا پاکستان بن گیا ہے ۔ امید ہے کہ نئے پاکستان میں صحافی، قلمکار، دانشور، لیکچرروپروفیسر حضرات کو ان کا جائز مقام دیا جائے گا ، جیسا ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے تو شاید ان کے زخموں کا مداوہ ہوسکے۔ یہ پڑھے لکھے اور معاشرے میں سدھارکے لیے اپنی زندگی دائو پر لگانے والے بیچارے، بزنس کمیونٹی کی طرح بڑی رقمیں تو عطیہ نہیں کرسکتے پر ان کے بہترین دماغوں، علم اور نیتوں کا استعمال کرکے ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔