موت کا کھیل جاری ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 26 ستمبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

اگر آپ مائٹر لنک کے ڈرامے Intruse کا مطالعہ کریں تو عجیب صورتحال سامنے آتی ہے کہ غیر اہم واقعات اور گفتار کے پس پردہ ڈرامہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے، جس میں ہر کردار موت کا وجود محسوس کر رہا ہے اور اس کا احساس ہونے کے باوجود خاموش ہے، اصل ڈرامہ دکھائی نہیں دیتا یہ صرف نظروں، خاموشی اور خوف میں نظر آتا ہے جس کا شکار ڈرامے کا ہر کردار ہو چکا ہے لیکن کوئی اس کا اظہار کرنے پر تیار نہیں۔

ڈرامے کا مرکزی کردار موت ہے جو براہ راست نظر نہیں آتی لیکن سارے ماحول پر اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ ہر کردار پر اس کا اثر نظر آتا ہے ۔ یہ تو بات ہوئی مائٹر لنک کے ڈرامے کی ۔ اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگیوں پر گہری نگاہ ڈالیں تو ہم میں سے ہر شخص اپنے ارد گرد موت کا وجود محسوس کر رہا ہے اور اس کا احساس ہونے کے باوجود خاموش ہے۔

ہمارے پینے کے پانی، کھانے پینے کی ہر چیز میں ماحول کی گندگی میں ، ٹرانسپورٹ کے دھوئیں میں فضا کی آلودگی میں، محلوں اور گلیوں میں ڈیرے جمائے گندگیوں میں کوڑوں کے ڈھیر میں، اسپتالوں ، اسکولوں، دفاتر میں زندگی بچانے والی ادویات میں، غرض ہر شے میں موت گھات لگائے بیٹھی ہے ہر سیکنڈ وہ اپنے نئے شکار کو کسی نہ کسی شکل میں دبوچ رہی ہے اور ہم بغیر مزاحمت بغیر شور شرابا کیے خاموشی سے اس کی آغوش میں خود بخود چلے جا رہے ہیں، اتنی خاموشی سے کہ کسی کو احساس تک نہیں ہو رہا ہے ۔

جس طرح بلی یا کتا کچرے کو نوچ نوچ کر کھاتا ہے، اسی طرح موت ہم سب کو نوچ نوچ کر کھا رہی ہے ۔ جب وہ پوری طرح نوچ لیتی ہے تو پھر ہمیں ایکسرے یا الٹرا سائونڈ کی وجہ سے علم ہوتا ہے کبھی گردوں کے فیل ہونے کی صورت میں کبھی جگر کے خاتمے کی وجہ سے کبھی دل اور پھیپھڑوں کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے ہمیں موت کے چھپے کارناموں کا پتہ چلتا ہے ۔

ہم سب کسی نہ کسی شکل میں دوسروں کے لیے موت بیچ رہے ہیں ، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہمارے گھر کے پیچھے سے ہماری موت کسی دوسری شکل میں داخل ہو رہی ہے ، ہم سب ایک دوسرے کی موت کے ذمے دار ہیں ۔ موت کا یہ سارا دھندا اور کاروبار صرف کاغذ کے نوٹوں کی وجہ سے کھیلا جا رہا ہے ، ہم نوٹوں کے ڈھیروں میں دھڑا دھڑ اضافہ کرنے میں مست ہیں اور دوسری طرف ہم جلدی جلدی اپنی موت خریدنے میں مصروف ہیں ۔

ہماری اوپر سے لے کر نیچے تک یہ حالت دیکھ کر ایک بہت پرانا مشرقی قصہ یاد آ جاتا ہے ۔ جس میں ایک مسافر پر کوئی خونخوار جنگلی جانور اچانک حملہ آور ہوا ، اس سے بچنے کے لیے مسافر ایک اندھے کنویں میں چھپ گیا لیکن اس کنویں کے اندر ایک درندہ پہلے سے موجود تھا، جو اپنے جبڑے کھولے اسے نگلنے کے لیے تیار کھڑا تھا بے چارہ مسافر نہ تو کنویں سے باہر نکل سکتا تھا اور نہ اس کی تہہ میں اترنے کے قابل تھا کیونکہ دونوں جگہوں پر اس کے خون کے پیاسے وحشی موجود تھے ۔

آخرکار وہ ایک ٹہنی کو پکڑ کر درمیان میں لٹک گیا جو کنویں کی دیوار کے ساتھ اگی ہوئی تھی لیکن جلد ہی اس کے بازو تھک گئے وہ جانتا تھا کہ آخرکار اسے خود کو موت کے حوالے کرنا ہی ہو گا جو دنوں سروں پر اس کی منتظر تھی ۔ لیکن وہ خاطر جمع کر کے لٹکا رہا، اسی اثنا میں اس نے دو چوہے دیکھے ایک سفید اور دوسرا کالا جو بڑی سرعت سے اس شاخ کو کاٹ رہے تھے جس سے وہ لٹکا ہوا تھا۔

مسافر کو یقین تھا کہ بہت جلد دونوں چوہے اس شاخ کو چبا ڈالیں گے اور وہ کنویں کی تہہ میں خونخوار درندے کے جبڑے میں جا گرے گا، بہر طور اس نے زیادہ سے زیادہ دیر تک لٹکنے رہنے کو ترجیح دی ، اسی دوران اس نے ٹہنی کے ایک پتے پر شہد کے کچھ قطرے دیکھے، اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور انھیں چاٹ لیا ۔ بالکل اسی طرح ہم بھی شجر حیات سے لٹکے ہوئے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ موت کا عفریت ہمیں اپنے تیزدانتوں سے چبانے کے لیے تیار کھڑا ہے ۔

یاد رکھیں نفع اور فائدے کا سفید چوہا اورکالا چوہا دن رات ہماری شاخ زندگی کوکاٹ رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی کہانی بھی نہیں بلکہ ہماری اصلیت ہے اور اصلیت بھی ایسی جسے کوئی جھٹلا سکتا ہے نہ سمجھا سکتا ہے ۔ ذہن میں رہے کل یا پرسوں یا چنددنوں میں بیماری اور موت ہمیں آن گھیرے گی اور پھر بد بو، سڑاند اورکیڑے مکوڑوں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔

حضرت سلیمان نے ہر شے کو فریب اور مایا قرار دیا تھا، اس نے کہا تھا میں نے عظیم الشان محلات تعمیرکیے میرے پاس لاتعداد خادم اورکنیزیں تھیں نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوا کرتے تھے، سونے اور چاندی کے انبار تھے، بنی آدم کو زندگی میں جو جو آسائشیں فراہم ہو سکتی ہیں یا جن کی وہ تمنا کر سکتاہے، میرے پاس موجود تھیں ، لیکن یقین کرو سب کچھ مایا ہے سب کچھ روح کا کرب اور دل کا بوجھ ہے ۔

ہم اپنی ذہن اور اخلاقی کمتری یا کند ذہنی کے باعث یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ زندگی میں ہمیں حاصل ہونے والی بیشتر نعمتیں حادثاتی ہیں اور یہ کہ حضرت سلیمان کی طرح ہر کسی کو ہزاروں محلات اور ہزاروں بیویاں میسر نہیں ہو سکتیں ۔ ہم یہ بھی شعور نہیں رکھتے کہ تقدیر کے جس اتفاق نے آج ہمیں سلیمان بنایا ہے اس کی ایک جنبش کل ہمیں اسی سلیمان کا ایک حقیر اور ادنی غلام بھی بنا سکتی ہے، لیکن ہم اپنی کمتر ذہنی حیثیت کی وجہ سے یہ سو چنا بھی ضروری خیال نہیں کرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔