کیا پنجاب کی وزارت اعلیٰ میں تبدیلی ممکن ہے؟

رضوان آصف  بدھ 26 ستمبر 2018
تحریک انصاف اپنے پہلے 100 دن کے منشور پر عملدرآمد کے حوالے سے کافی پیچھے دکھائی دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

تحریک انصاف اپنے پہلے 100 دن کے منشور پر عملدرآمد کے حوالے سے کافی پیچھے دکھائی دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: پاکستان کے وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اقتدار سنبھالنے کے بعد نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں لیکن ابھی انہیں غیر معمولی چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے۔

قومی خزانہ خالی ہے، دوست ممالک کی جانب سے بھی اظہار یکجہتی کے طور پر مالی تعاون میں مسائل آڑے آچکے ہیں، امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ حکومت کی تشکیل کو 40 دن ہونے کو ہیں اور ابھی تحریک انصاف اپنے پہلے 100 دن کے منشور پر عملدرآمد کے حوالے سے کافی پیچھے دکھائی دیتی ہے، شاید اس کی سب سے بڑی وجہ مالی مشکلات ہیں۔ تحریک انصاف جب اپوزیشن میں تھی تو ہر وقت مسلم لیگ(ن) حکومت کی بڑی کابینہ پر شدید تنقید کرتی تھی اور آج یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی و صوبائی کابینہ کا حجم ریکارڈ توڑنے کے قریب ہے۔ بادی النظر میں تحریک انصاف کی نئی حکومت کے بارے پہلا عوامی تاثر یہ ہے کہ ’’حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کیسے کرنا ہے‘‘۔

اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد کو عمران خان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ عمران خان نے مستقبل میں خطرناک آبی بحران کا ادراک کرتے ہوئے نئے آبی ذخائرکی تعمیر کے حوالے سے قومی مہم کا آغاز کیا ہے۔ قومی صفائی مہم شروع ہونے جا رہی ہے جو کہ صحت مند اور خوبصورت معاشرے کیلئے ناگزیر ہے۔کپتان کی ٹیم میں شامل وزراء پر بھی شدید تنقید ہو رہی ہے جو کہ بعض وزراء کے معاملے میں کافی حد تک درست بھی ہے کیونکہ بعض وزراء کے بارے میں یہ باتیں سنائی دے رہی ہیں کہ وہ نیا پاکستان بنانے سے زیادہ دلچسپی نیا بنک بیلنس بنانے میں لے رہے ہیں اور اپنے محکموں میں تقرر و تبادلوں کو نیلامی کی صورت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ مسائل غیر متوقع یا پہلی مرتبہ نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کی کابینہ میں ایسے وزراء کی تعداد نمایاں ہے جو پہلی بار رکن اسمبلی بنے اور ساتھ ہی وزارت کو بھی ’’پیارے‘‘ ہو گئے۔ ان وزراء کی کارکردگی اور احتساب پر خصوصی نگرانی رکھنا لازم ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کی اپنی نا اہلی کے خلاف دائر اپیل کی سماعت 27 ستمبر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ آئندہ الیکشن میں پنجاب جیتنے اور ن لیگ کو شکست دینے کیلئے تحریک انصاف کو پنجاب میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔

عمران خان کے ’’دریافت کردہ‘‘ عثمان بزدار ابھی تک خود کو ’’وزیر اعلی‘‘ ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ ان کے ٹھنڈے ٹھار مزاج کو دیکھتے ہوئے عام آدمی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے کارکنوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ عثمان بزدار کیلئے اپنی ’’رٹ‘‘ قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو خود کپتان ہیں ۔ جب عمران خان ہر ہفتے لاہور پہنچ کر پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کریں گے، بیوروکریٹس اور پولیس افسروں سے خطاب کریں گے، اہم تعیناتیوں کے فیصلے خود کریں گے تو پھر وزیر اعلی کی اتھارٹی کیسے قائم ہو سکتی ہے۔

دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ کہنے کو تو پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار ہیں لیکن ان کی کابینہ اور اسمبلی میں تحریک انصاف کے ایسے سینئر رہنماوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن کا تحریک انصاف سے طویل ساتھ ہے، قربانیاں ہیں اور حقیقی معنوں میں تنظیمی لحاظ سے ان کا سٹیٹس عثمان بزدار سے بلند ہے۔ سردار عثمان بزدار کو تحریک انصاف میں شامل ہوئے تین یا چار ماہ ہوئے ہیں اور بعض با خبر حلقوں کے مطابق سردار عثمان بزدار عمران خان کا’’انتخاب‘‘ نہیں بلکہ ’’کسی‘‘ اورکی ’’پسند‘‘ہیں جسے کپتان نے ’’قبول‘‘کیا ہے۔ تمام سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقے آج بھی حیران ہیں کہ پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے عمران خان نے سردار عثمان بزدار کا انتخاب کس بنیاد پر کیا ہے۔

پنجاب گزشتہ 35 برس سے مسلم لیگ(ن) کا سیاسی قلعہ رہا ہے جبکہ تمام تر اعتراضات، تنقید اور الزامات کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ میاں شہباز شریف نے پنجاب میں اپنی ایک خاص رٹ قائم کی تھی اور ایک سچا یا جھوٹا ایسا مضبوط تاثر قائم کیا تھا کہ ہر فرد آج بھی سمجھتا ہے کہ شہباز سپیڈ کا مقابلہ کرنا تحریک انصاف کیلئے ممکن نہیں معلوم ہوتا۔ ایسی صورتحال میں تو تحریک انصاف کو پنجاب میں ایک دبنگ اور متحرک فرد کو وزیر اعلی بنانا چاہئے تھا۔

الیکشن جیتنے کے بعد ابتدائی چند ایام میں عبدالعلیم خان پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے، عبدالعلیم خان کا سیاسی قد شہباز شریف سے کسی صورت کم نہیں لہذا یہ سمجھا گیا کہ اب پنجاب میں ن لیگ کو تحریک انصاف کے ایک مضبوط وزیر اعلی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پھر پارٹی کے اندر کی رسہ کشی، ٹکٹوں کی تقسیم اور کم تعداد میں نشستیں جیتنے کے تنازعات کے ساتھ ساتھ کچھ اپنوں پر لگائے گئے الزامات کا بوجھ بھی عبدالعلیم خان کے کندھوں پر ڈال گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک میڈیا گروپ کے مالک اور ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون کی مخالفت نے بھی علیم خان کی راہ میں روڑے اٹکا دیئے، بادی النظر میں ایک منظم حکمت عملی کے تحت الیکشن نتائج کے بعد عبدالعلیم خان کو نیب نوٹسز کی بوچھاڑ کا سامنا کرنے پر مجبور کیا گیا اور اسی دباو کی وجہ سے عمران خان کو وزارت اعلی کے معاملے پر عاطف خان کے بعد عبدالعلیم خان کے نام سے بھی دستبردار ہونا پڑا جو کہ عمران خان کیلئے کافی تکلیف دہ بھی تھا کیونکہ وہ عاطف خان اور عبدالعلیم خان کو اس منصب پر دیکھنا چاہتے تھے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف اپیل کی تاریخ مقرر ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ اگر عدالت جہانگیر ترین کی نااہلی ختم کردیتی ہے تو جہانگیر ترین ضمنی الیکشن جیت کر پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سامنے آسکتے ہیں اس حوالے سے بعض رہنما یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ چند روز قبل پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلی تبدیل نہیں ہوں گے۔ یہ جواز پیش کرنے والے شاید بھول جاتے ہیں کہ عمران خان آج تک اپنے بہت سے فیصلوں کو تبدیل کر چکے ہیں جبکہ پنجاب میں کامیاب حکومت کیلئے کپتان کے پاس جہانگیر ترین سے بڑا کھلاڑی دستیاب نہیں ہے۔

آئندہ چند روز میں نئے بلدیاتی نظام کا اعلان ہونے والا ہے۔ نئے نظام کی تیاری کے حوالے سے پنجاب کے سینئروزیر اور وزیر بلدیات عبدالعلیم خان نے بہت محنت کی ہے جس پر عمران خان نے ان کی تعریف بھی کی ہے،اگر نیا نظام نصف نتائج بھی فراہم کر گیا تو تحریک انصاف کو آئندہ الیکشن جیتنے سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے تحریک انصاف کیلئے ایک بڑا چیلنج بلدیاتی عہدوں کیلئے اپنی جماعت سے بہترین امیدوار سامنے لانا ہے۔

لاہور اس حوالے سے اہم ترین تصور کیا جا رہا ہے۔ جمشید اقبال چیمہ، اعجاز ڈیال، ملک اسد کھوکھر،خالد گجر، ظہیر عباس کھوکھر ،عبدالکریم کلواڑ، اعجاز چوہدری ، شبیر سیال، ڈاکٹر شاہد صدیق، یاسر گیلانی اور مہر واجد عظیم جیسے اہم ترین رہنماوں کو بلدیاتی عہدوں پر لانا تحریک انصاف کیلئے بہترین ہوگا ایسے ہی سیالکوٹ میں ڈار برادران، گھمن برادران اور چوہدری عنصر فاروق جیسے رہنماوں کو بلدیاتی نظام میں شامل کرنا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔