عالمی اثاثے ظاہر نہ کرنیوالی ملٹی نیشنل فرمز کیخلاف کارروائی کا فیصلہ

ارشاد انصاری  بدھ 26 ستمبر 2018
پاکستان میں قائم ملٹی نیشنل کمپنیوں اورانٹرپرائززنے کنٹری بائی کنٹری رپورٹس جمع کرانے کیلیے 30ستمبرتک مہلت مانگ لی۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں قائم ملٹی نیشنل کمپنیوں اورانٹرپرائززنے کنٹری بائی کنٹری رپورٹس جمع کرانے کیلیے 30ستمبرتک مہلت مانگ لی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ڈاکیومنٹیشن اینڈ کنٹری بائی کنٹری رپورٹنگ ریکوائرمنٹ کے تحت عالمی اثاثے ظاہر نہ کرنے والی پاکستان میں قائم  ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انٹرپرائزز گروپس  و ٹیکس دہندگان  کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے او ای سی ڈی کا ممبر بننے کے بعد 2017 سے پاکستانیوں کے بیرون ممالک کھربوں روپے کے کالے دھن و اثاثہ جات کا سراغ لگانے کیلیے دس کروڑ روپے سے زائد ٹرن اوور رکھنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انٹرپرائزز گروپس کیلیے ماسٹر فائل سمیت دیگر ریکارڈ کو لازمی قراردیا تھا اور  پاکستان میں قائم  ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انٹرپرائزز گروپس و ٹیکس دہندگان سے کہا گیا تھا کہ ٹیکس ایئر 2017 سے متعلق کنٹری بائی کنٹری رپورٹس  فروری 2018 تک جمع کرائی جائیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اکثریتی کمپنیوں کی جانب سے مقررہ مدت تک یہ رپورٹس جمع نہیں کرائی گئی ہیں جس پر ایف بی آر کی جانب سے کارروائی کیلیے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نوٹسز کے جواب میں ان کمپنیوں کی جانب سے  ایف بی آر کو لیٹر موصول ہوئے ہیں جس میں  یہ درخواست کی گئی ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں  اور انٹرپرائزز گروپس  و ٹیکس دہندگان کے بارے میں کنٹری بائی کنٹری رپورٹس  جمع کرانے کیلیے مقررہ تاریخ میں  30 ستمبر 2018 تک توسیع کی جائے۔

ایف بی آر نے مذکورہ رُولز کے عالمی اثاثے ظاہر نہ کرنے والی کمپنیوں و ٹیکس دہندگان  پردو ہزار روپے یومیہ کے حساب سے جرمانہ  عائد کیا جائے گا اور ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ اور دستاویزات نہ رکھنے والوں پر ایک فیصد جرمانہ عائد کیا جائے گا جبکہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 118کے تحت انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانا ہوں گے۔ ہر ٹیکس دہندگان کو پچاس لاکھ روپے اور اس سے زائد مالیت کی ٹرانزیکشنز سے متعلق تمام لوکل فائلیں اپنے پاس رکھنا ہوں گی اور کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب سے مانگنے پر انہیں فراہم کرنا ہوں گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔