کیا وفاق، سندھ حکومت کی توقعات پر پورا اتر سکے گا؟

جی ایم جمالی  بدھ 26 ستمبر 2018
صوبوں کے تحفظات دور کرنے کے معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کا رویہ مثبت ہے۔ فوٹو: پی آئی ڈی

صوبوں کے تحفظات دور کرنے کے معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کا رویہ مثبت ہے۔ فوٹو: پی آئی ڈی

کراچی: سندھ میں نئے آئی جی پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام کے بعد نئے چیف سیکرٹری سید ممتاز علی شاہ نے بھی اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔

یہ بات اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ بیورو کریسی کی تقرریوں کے معاملے پر وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین کوئی اختلافات نہیں ہیں اور مشاورت سے فیصلے ہو رہے ہیں لیکن وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) کے پہلے اجلاس میں سندھ کی توقعات کے مطابق فیصلے نہیں ہو سکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سندھ کی شکایات کو دور کر سکتے ہیں یا نہیں ۔

دوسری طرف سندھ حکومت نے رواں مالی سال 2018-19 ء کے باقی 9 ماہ ( یکم اکتوبر 2018 تا 30 جون 2019 کا بجٹ سندھ اسمبلی میں پیش کر دیا ہے، جس میں نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص 50 ارب روپے میں سے 24 ارب روپے کی کٹوتی کر دی گئی ہے اور اس کا سبب وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے یہ بتایا ہے کہ وفاقی حکومت سے این ایف سی ایوارڈ کے مطابق رقم نہیں مل رہی ہے ۔ سندھ میں ایک بار پھر کالا باغ ڈیم سیاسی ایشو بن گیا ہے اور پورا سندھ کالا باغ ڈیم کے خلاف یک آواز ہو گیا ہے۔

سندھ کے نئے چیف سیکرٹری سید ممتاز علی شاہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے ۔ قبل ازیں وہ وفاقی سیکرٹری مذہبی امور کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے ۔ وفاقی حکومت نے چیف سیکرٹری سندھ کے تین افسروں کے نام سندھ حکومت کو دیئے تھے ۔ ان میں سید ممتاز علی شاہ کا نام بھی شامل تھا ۔ سندھ حکومت نے انہیں چیف سیکرٹری مقرر کرنے کی سفارش کی تھی ۔ وفاقی حکومت نے اس سفارش کے مطابق عمل کیا ۔

سید ممتاز علی شاہ طویل عرصے تک سندھ میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔ ان کی آخری تقرری چیئرمین اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ کی حیثیت سے تھی ۔ انہوں نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو نئے خطوط پر استوار کیا اور سندھ میں بدعنوانی کے خلاف کارروائیوں کو تیز کیا ۔ ان کا شمار انتہائی باصلاحیت اور دیانت دار افسروں میں ہوتا ہے۔

وفاقی کیڈرز کے افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں سے متعلق وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین کوئی اختلافات سامنے نہیں آئے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کے گذشتہ دورہ کراچی میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے ملاقات کرکے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ بعض وفاقی افسروں کا صوبائی حکومت سے مشاورت کے بغیر سندھ سے تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلی سندھ کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ مشاورت سے ایسے تبادلے و تقرریاں ہوں گی۔ صوبوں کے تحفظات دور کرنے کے معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کا رویہ مثبت ہے۔

مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) کے اجلاس میں سندھ حکومت کی درخواست پر کراچی کو اضافی 650 ایم جی ڈی ( 1200 کیوسک ) پانی دینے کا معاملہ نیشنل واٹر کونسل کے سپرد کر دیا گیا ۔کونسل جلد اپنی سفارشات سی سی آئی کو پیش کرے گی ۔ ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر بورڈ کے امور صوبوں کو منتقل کرنے کے لیے ٹاسک فورس بھی تشکیل دی گئی ۔

وزیر اعظم نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ ایل این جی کی درآمد کے معاہدے سامنے لائے جائیں گے ۔ پٹرولیم پالیسی 2012 ء میں حکومت سندھ کی تجویز کردہ ترامیم کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا ۔ کمیٹی ترامیم کا جائزہ لے کر اپنی سفارش مرتب کرے گی ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور دیگر وفاقی اداروں میں صوبوں کی نمائندگی بڑھانے کے لئے سندھ کے مطالبے پر بھی مثبت ردعمل کا اظہار کیا گیا ۔ ان سب کے باوجود وزیر اعلی سندھ نے صوبہ سندھ کے ساتھ اب تک ہونے والی زیادتیوں کا اجلاس میں برملا اظہار کیا اور کہا کہ سندھ سب سے زیادہ ریونیو دینے والا صوبہ ہے لیکن سندھ میں کوئی موٹروے تعمیر نہیں کی گئی۔ ہر ملک میں بندرگاہ سے موٹرویز شروع ہوتی ہیں۔

وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) میں سندھ کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ سندھ کے ان تحفظات کو دور کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے الگ ملاقات کی اور انہیں اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے رقم بروقت یا کم ملنے کی وجہ سے سندھ نے نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے مختص 50 ارب روپے میں سے 24 ارب روپے کی کٹوتی کر دی ہے۔ اس بات کو پورے سندھ نے محسوس کیا ہے کہ وفاقی حکومت کی وجہ سے سندھ کا ترقیاتی پروگرام متاثر ہوا ہے۔

دوسری طرف کالا باغ ڈیم کے معاملے پر پورا سندھ ایک آواز ہو گیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے قرار دادیں جمع کرائیں ۔ جن میں کہا گیا ہے کہ تین صوبے کالا باغ ڈیم کو مسترد کر چکے ہیں ۔ یہ ڈیم کسی بھی صورت قبول نہیں ۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی کالا باغ ڈیم بنانے کی تجویز پر سراپا احتجاج ہیں ۔ سندھ میں کالا باغ ڈیم کے لیے فنڈز جمع کرنے کی مہم جاری ہے ۔ یہ فنڈ مہم کالا باغ ڈیم کے خلاف سیاسی مہم کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہے ۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔