سانحہ ماڈل ٹائون؛ آخری رائونڈ؟

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 28 ستمبر 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

مارا تو 14پاکستانیوں کو گیا ہے، دن دہاڑے گولیاں برسائی گئی ہیں،گولیاں بھی ’’جن یاغیبی مخلوق‘‘ نے نہیں اشرف المخلوقات نے چلائی ہیں، گلوبٹ ٹائپ پولیس نے چلائی ہیں، جمہوری ملک میں ریاست نے عوام پر گولیاں چلائی ہیں۔ چار سال بیت گئے،کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کیوں نہیں نکلا؟

اس سانحے میں عام پاکستانی مرے ہیں ’’بڑے بندے‘‘ مرتے تو اس کا نتیجہ شاید نکل آتا،کسی’’انسانی معاشرے‘‘ میںیہ کام ہوتا تونتیجہ نکلتا،پھر کیا یہ ’’حیوانی معاشرہ‘‘ہے جہاں جنگل کا قانون ہے،کوئی کسی کی چیر پھاڑ کردے اور پھر پوچھنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ میرے پاس اس پر کہنے کو کچھ نہیں، کہ جب ناقص تفتیش سے مجرم بچ نکلیں اور مظلوم دھائیاں دیتا رہ جائے تو واقعی اس پر کچھ کہنے کو نہیں بچتا۔

گزشتہ روز آنے والا معزز عدالت کا فیصلہ میرے سامنے پڑا ہے۔ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں 3 رکنی فل بنچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف، شہبازشریف ،خواجہ سعد رفیق،پرویز رشید،خواجہ آصف ، توقیر شاہ اوردیگرکو طلب کرنے کی عوامی تحریک کی درخواست خارج کردی ہے۔یہ عدالتی فیصلہ ہے، ظاہر ہے معزز ججز صاحبان نے شواہد کی بنیاد پر ہی فیصلہ دیا ہوگا،اس لیے اس پر کچھ نہیں کہوں گا۔

ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ قتل ہوئے ہیں۔ اب جن ملزمان پر الزامات ہیں، ان کا ٹرائیل ہوگا۔سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تفتیش اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ  ملزمان صاف بچ نکلتے ہیں ۔ بلا شبہ یہ ایک دل خراش واقعہ تھا۔ طاہر القادری صاحب یا مقتولین کے ورثا اس مطالبے میں حق بجانب ہیں کہ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئیں اوریہ جاننا چاہیے کہ یہ حادثہ کیوں ہوا؟

چار سال قبل  لاہور میں جو کچھ ہوا وہ ویسے تو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے مگر 17 جون 2014ء کو ایک معمولی نوعیت کا واقعہ کیسے خونی حادثے کی شکل اختیار کرگیا اس پر بہت سے سوال ایسے ہیں جن کے جوابات سامنے نہیں آئے۔ ادارہ منہاج القرآن اور اس کے سربراہ علامہ طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے سامنے بیرئرز ہٹانا اتنا بڑا واقعہ نہیں تھا کہ اس کی پادا ش میں درجن پھر لاشیں گرا دی جائیں۔ سب کچھ الیکٹرانک میڈیا کے کیمروں کے سامنے ہوا جسے گھروں میں بیٹھے کروڑوں افراد نے دیکھا۔100سے زیادہ ملکوں میں ہمارے چینلز کی نشریات دیکھی جاتی ہیں سبھی نہیں لائیو دیکھا ۔

مسئلہ یہ نہیں کہ اس سانحہ کے ابھی کتنے رائونڈز باقی ہیں اور آخری رائونڈ کب آئے گا؟ کب نہیں ؟ مسئلہ یہ ہے کہ قصوروار کب سامنے آئیں گے؟ چاہے طاہر القادری قصوروار ہی کیوں نہ ہوں، انصاف ہونا چاہیے۔ ایسا انصاف جس کی دنیا مثال دے۔

بہرکیف ابھی بھی کیس جاری ہے جو نہ جانے کہاں تک جائے۔ بہرحال شریف برادران خاصی حد تک دباؤ سے آزاد ہوچکے ہیں۔ان کے خلاف دیگرکیسز کے آہستہ آہستہ فیصلے آرہے ہیں، اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ ناقص تفتیش اور سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے کسی کا کچھ نہیں ہونے والا۔حقیقت میں سابق حکمران جماعت صرف قانون کی پکڑ میں نہیں ہے، قدرت کا بھی ان سارے معاملات میں بڑا ہاتھ ہے۔یہ مکافات عمل چل رہا ہے، اُن کے دن پھِر چکے ہیں۔ ایک لمبی داستان، جس کا آغاز تین دہائیاں قبل ہوا تھا ، دھیرے دھیرے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔

مجھے پاکستان عوامی تحریک سے کوئی غرض نہیں ، نہ میں اُس کا نمایندہ ہوں۔ مگر ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ وزیر اعظم عمران خان اُن 14پاکستانیوں کے بارے میں ضرور سوچیں کہ وہ بھی پاکستان ہی کے شہری تھے۔ وہ بھی اسی جھنڈے تلے ایک تھے۔جنھیں ریاستی مشینری نے کچل دیا لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ مجرم خواہ کوئی بھی ہو اسے عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، یہ امتحان سخت سے سخت تر ہوتا چلا جائے گا ۔بقول علامہ اقبالؒ

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی

یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اس دن جو کچھ ہوا ،کیسے 14 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور درجنوں گولیوں کا شکار ہو کر زخمی ہوئے، یہ سب اب ریکارڈ کا حصہ ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ، سانحہ ماڈل ٹائون کی تلخ یادیں ذہنوں سے محو ہوتی جا رہی ہیں مگر ان کے لیے جن کے جوان شہید ہوئے ان کے زخم بھرنے میں شاید کافی عرصہ درکار ہوگا۔ نوازشریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو صرف اس پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ عدالت عالیہ نے انھیں بے گناہ قرار دے دیا ہے۔ بلکہ انھیں کرپشن، جھوٹ، لالچ، قتل کی دھول کو صاف کرنے کے لیے آخری رائونڈ تک خود جانا ہوگا ۔ یہی وقت کی ضرورت بھی ہے اور انصاف کا تقاضا بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔