ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 28 ستمبر 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

چھیاسٹھ سالہ گری راج سنگھ بھارت میں مقتدر جماعت کے نمایاں سیاستدان اور نریندر مودی کے مرکزی وزیر ہیں۔ وہ اُن کٹر ہندو سیاستدانوں میں سے ہیں جنہوں نے مذہب کو سیڑھی بنایا اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے۔

گری راج سنگھ صاحب اُن متعصب بھارتی سیاستدانوں میں شامل ہیں جنہوں نے ہندو اکثریتی آبادی کو اقلیتی مسلمان آبادی کے خلاف بھڑکا کر اقتدار بھی حاصل کیا ہے، بے پناہ دولت بھی اور سماج میں اونچا مقام بھی۔ اندر سے مگر خوفزدہ بھی ہیں کہ کوئی دوسرا آگے بڑھ کر مذہب کی بنیاد پر اُن پر بازی نہ لے جائے؛ چنانچہ اپنے باطنی خوف پر قابو پانے کے لیے وہ ایسی باتیں کرنے لگے ہیں جو خود بھارتیوں کے لیے ڈراوے کا باعث بن رہی ہیں۔

اصل مقصد مگر گری راج سنگھ کا یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر آتش فشانی فضا پیدا کی جائے ، مگر ذرا مختلف اسلوب میں۔ اِس بار انھوں نے بھارتی مسلمانوں کو ذبح کرنے کے بجائے ایک نئی چال چلی ہے۔ بھارت میں عام انتخابات بھی تو آنے والے ہیں۔

گزشتہ روز نریندر مودی کابینہ کے اس ’’جہاندیدہ‘‘ وزیر نے ایک سیاسی جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے کہا : ’’ہندوستان کی ایک تقسیم 1947ء میں ہُوئی تھی اور مذہب کی بنیاد پر پاکستان بن گیا تھا۔ اب بھارت میں ایک کمیونٹی کی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مجھے خدشہ ہے کہ ایک بار پھر مذہب کے نعرے پر2047ء میں یہ ملک ایک نئی تقسیم سے گزرے گا۔‘‘

انھوں نے سامعین کو مخاطب کرتے ہُوئے مزید کہا: ’’سات دہائیاں قبل جب ہندوستان تقسیم ہُوا تھا، پاکستان میں20فیصد ہندو تھے اور بھارت میں مسلمان 7فیصد۔ آج پاکستان میں ہندو ایک فیصد ہیں اور بھارت میں مسلمان 20فیصد۔‘‘ وہ پھر دھاڑے:’’ بھارتی ہندوؤں کی آبادی روز بروز کم ہو رہی ہے لیکن یہاں کی ایک کمیونٹی کی حد سے بڑھتی آبادی ہمارے قومی وجود کے لیے بے پناہ خطرہ بن رہی ہے۔ اسے روکو۔ اسے ہر صورت روکنا ہو گا۔ نہ روکا گیا تو بھارت کی نئی تقسیم کی تیاری کرلیں۔‘‘

افسوس، از حد افسوس! گری راج سنگھ صاحب بھارت کی مرکزی وزارت پر براجمان ہیں مگر سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔ کاش وہ اپنے وزیر ہونے کی لاج ہی رکھ لیتے۔ بنیادی حقائق کی بے حرمتی نہ کرتے۔ بھارتی ہندوؤں کو بھارتی مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے انھیں کذب بیانی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔شرم مگر انھیں نہیں آئی۔ انھیں نہ معلوم کس تاریخ دان نے بتایا ہے کہ جب پاکستان معرضِ عمل میں آیا تھا، یہاں ہندوؤں کی آبادی 20 فیصد تھی؟یقینا آج سے زیادہ تھی لیکن بیس فیصد تو ہرگز نہیں تھی۔

بھارتی مرکزی وزیر نے ایک بھارتی ’’کمیونٹی‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے لیکن دانستہ نام نہیں لیا۔ سُننے والے مگر سب جانتے ہیں کہ اشارہ بھارتی مسلمانوںکی جانب ہے۔ مودی سرکار کے دوران بھارتی مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں،کیا اب بھی کوئی کسر رہ گئی ہے کہ گری راج سنگھ ’’صاحب‘‘ کو بین السطور بھارتی مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے لیے ملفوف دھمکی دینا پڑ گئی ہے؟ کیا بھارتی مسلمانوں کی جان و مال کے خلاف پھر کوئی نیا طوفان سر اُٹھانے والا ہے؟ ایسا ناممکن بھی نہیں۔

نریندر مودی نے گجرات کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران اپنی مسلمان آبادی کے خلاف جو خونی آندھی چلائی تھی، اُسے ہنوز دُنیا نے فراموش نہیں کیا ہے۔ مودی کے اُس ظلم پر نامور بھارتی لکھاری اور دانشور ، ارُن دھتی رائے،نے ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل اپنا آنکھوں دیکھا جو احوال قلمبند کیا تھا، اُس کے ایک ایک لفظ سے خون ٹپکتا تھا۔ اس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ مودی کی زیر سرپرستی اور نگرانی میں بھارتی مسلمانوں کا ایک اور Massacreجنم لے سکتا ہے۔

بھارتی مسلمانوں کے خلاف عمومی تباہی اور خون خرابے کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ گری راج سنگھ کے الفاظ کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مودی دوسری بار وزیر اعظم بننے کے لیے ایک نیا مقتل سجانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ ششدر انگیز بات ہے کہ بھارتی ہندو اکثریت میں اور مقتدر ہونے کے باوصف کمزور، پسے، دگرگوں حالات کا شکاربھارتی مسلمانوں سے ڈرے رہتے ہیں۔

کوئی ایسا باطنی خوف ضرور ہے جو انھیں ہر وقت خوف میں مبتلا کیے رکھتا ہے۔ یہ خوف انھیں ظلم پر مائل کرتا ہے۔ یہ باطنی ڈر ہے جس نے نریندر مودی کو اِس راہ پر بھی ڈال دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرکو تین سیاسی حصوں میں تقسیم کردیا جائے: جموں، کشمیراور لداخ۔ تاکہ یہ ٹنٹا ہی ختم ہو ۔ یہ خبر حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے ایک انگریزی اخبارEarly Times  نے بھارتی وزیر اعظم کے دفتر کے اندرونی ذرایع سے دی ہے۔ دُنیا میں متعارف کونسا ظلم ایسا ہے جو مودی اور اُن کی قابض فوجوں نے مقبوضہ کشمیر کے نہتے باسیوں پر آزما نہیں ڈالا؟

پھر بھی مودی کشمیری مسلمانوں سے ڈرا، سہما ہے۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ کسی اندرونی خوف میں مبتلا ہے۔ اس خوف نے اُسے مجبور کیا ہے کہ وہ بھارتی آئین کی شِق 35Aکا خاتمہ کر ڈالے تاکہ (مقبوضہ) کشمیر اور کشمیریوں کو حاصل خصوصی آئینی اسٹیٹس سے ہمیشہ کے لیے محروم کر کے اقوامِ متحدہ کی تاریخی قرار دادوں کو روند ڈالا جائے۔ یہ شِق مودی کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست ہے ۔ آنکھ میں کانٹا بن کر چبھ رہی ہے۔

بھارتی مقتدر ہندواِس رڑک سے نجات چاہتا ہے۔بھارت کا سینہ مگر کب ٹھنڈا ہوگا؟ کشمیریوں کی تنظیم اے پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ ہمارے دس ہزار نوجوان پکڑے گئے اور غائب کر دیے گئے۔ کشمیریوں کی ایک عالمی تنظیم International Peoples Tribunal on Kashmirکا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے55دیہاتوں میں2700ایسی قبریں ہیں جو بے نشان ہیں اور 151 قبریں ایسی پائی گئی ہیں جن میں ایک سے زیادہ لوگ دفن ہیں۔ قابض بھارتی فوجوں کی خونی پیاس پھر بھی نہیں بجھ رہی: ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟ اور گری راج سنگھ صاحب ہیں کہ انھیں بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی ’’بڑھتی آبادی‘‘ ڈرا رہی ہے۔

گری راج سنگھ کے الفاظ بے معنی نہیں ہیں۔ یہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف دراصل ایک وسیع منصوبہ بندی کی ایک ’’دانشورانہ‘‘ کڑی ہے۔ ابھی حال ہی میں نریندر مودی نے Citizenship Amendment Billکے نام سے جو نیا قانون بنانے کی کوشش کی ہے، یہ بھی اِسی زنجیر کی ایک مضبوط کڑی ہے۔ اس قانون کے تحت بھارت کی سات شمالی ریاستوں( آسام،منی پور، مگھیالہ،تری پورہ، میزورام،ناگا لینڈ، ارونچل پردیش) کے 80لاکھ مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے محروم کر دیا جائے گا۔

یہ ریاستیں پہلے ہی بھارت سے علیحدگی کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ یہاں بھارت کے خلاف کئی مسلح تحریکیں(از قسم ماؤسٹس، ناگاز، نکسالائیٹ) بروئے کار ہیں۔آئے روز بھارتی فوجی یہاں قتل کردیے جاتے ہیں۔ آسام کی صوبائی اسمبلی میں TDP پارٹی کے دو ارکان (کے ایس راؤ اور سویری سوما)کو اغوا کرکے قتل کیا جانا توتازہ واقعہ ہے۔ دونوں ارکانِ اسمبلی کو 23ستمبر 2018ء کی دوپہر علیحدگی پسند باغی، ماؤ نوازوں نے اغوا کیا اور اُن کے محافظوں کے سامنے قتل کر دیا۔ تازہ قانون ان ریاستوں کے باسیوںکو مشتعل کررہا ہے۔

یہاں کے مسلمان پہلے ہی سفاک غربت وعسرت کے مارے ہُوئے ہیں۔ اب مودی جی اُن سے اُن کی پہچان اور شہریت بھی چھین لینے کے درپے ہیں۔ بھارت کی ساتوں مذکورہ شمالی ریاستوںکے مسلمانوں پر مودی نے نیا ظلم ڈھا کرانھیں خود سے دُور نہیں کیابلکہ بھارت سے بھی مزید دُور کر دیا ہے۔ یہ دُوری بھارت سے کامل علیحدگی کے متراف ہے۔ مودی کے متعارف کردہ نئے قانون کے کارن اِن ریاستوں میں گھیراؤ جلاؤ، احتجاجات، بھوک ہڑتال، مودی کے پتلوں کو نذرِ آتش کیے جانے کے لاتعداد مناظر اُبھر رہے ہیں۔

فوج، پولیس اور عوام کے درمیان نئی خونی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ جنگ مودی کے خوف کوبڑھاوا دے رہی ہے۔مودی کے اس نئے قانون کے مطابق، آسام سے تعلق رکھنے والے چھ سابق مسلمان فوجیوں(سعداللہ اور اجمل حق وغیرہ) کو بھی شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔حالانکہ اِن فوجیوں نے کارگل کی جنگ میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف حصہ بھی لیا تھا۔ بھارتی قیادت کی یہی زیادتیاں ہیں جو بھارت کے اندر ’’ایک اور پاکستان‘‘ کی نقش گری کا باعث بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔