توقعات کا تصادم

انیس باقر  جمعـء 28 ستمبر 2018
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

مسلم لیگ ن حکومت چونکہ صدر ضیاالحق کی حکومت کا تسلسل تھی لہٰذا جو بھی ڈکٹیشن ہر دورے پر جو وہاں سے ملتا تھا،اس پر عملدرآمد من و عن کیا جاتا تھا۔ بعض ڈکٹیشن تو ایسے تھے کہ جنھوں نے پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیا جس میں سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر افغان انقلاب کی بیخ کنی میں مصروف رہنا، جسے کو خود ان کی حکومت نے بعد میں تسلیم کیا۔

عمران خان کی حکومت آنے سے قبل ان کے وزیر خارجہ نے کئی بار یہ تسلیم کیا کہ افغان جنگ میں سر فہرست آکر اور سوویت یونین کے خلاف امریکی پالیسی کا حصہ بن کر ہم نے بہت بڑی غلطی کی جب کہ افغانستان کی جنگ ہمارے ملک میں بھی آگئی اور ترقی کے ثمرات کے علاوہ ہماری ثقافت کا بھی ستیا ناس کردیا۔ ملک کا ہر محلہ اور شہر یہاں تک کہ کراچی شہر جو نہ صرف معتدل ہواؤں کا مسکن تھا بلکہ ایک دوسرے کے خون اور رنگ اور نسل یہاں تک کہ عقائد کی رواداری میں بھی توازن رکھتا تھا وہاں بھی ’’ضرب عضب‘‘ سے کام لینا پڑا۔

پاکستان کی اس فاش غلطی کے اختتام کے بعد جب امن نے اپنے پر پھیلائے اور سکون کا سایہ سروں پر سایہ فگن ہوا تو نئے انتخابات کی تاریخ طے ہوئی، ورنہ انتخابات کے امکانات معدوم تھے۔ تاریخی حقیقت تو بڑی دردناک ہے دہرانا بے سود، لہٰذا انتخابات ہوئے اور نتائج میں عمران خان نے باگ ڈور سنبھالی خصوصاً کراچی نے وہی فیصلہ دیا جو 2013ء میں دیا تھا مگر پولنگ بوتھ پر الطاف و نوازکا قبضہ تھا جس کا رونا آج رویا جا رہا ہے، مگر برعکس انداز میں۔ خیر یہ باب کھولنا بے وقت کی راگنی ہوگی۔

غرض پاکستان نے عام مواقعے کی طرح اس بار بھی سعودی عرب کا دورہ کیا اور اپنی معاشی کمرکو مضبوط کرنے کی غرض سے ۔ ادھر 24 ستمبر کو پاکستان کے وزیر پٹرولیم غلام سرور نے ایک نہایت خوش آیند بات کی جو عمران خان نے ایران گیس پائپ لائن کھولنے کا عندیہ دیا ہے۔ جو دس برس سے بلوچستان بارڈر پر ایران لایا مگر امریکی دباؤکے زیر اثر نہ کھل سکی، مگر آج عوامی امنگوں کے احساس نے عمران خان کو مجبور کیا کہ وہ گیس پائپ لائن کا ڈھکن کھول کر چاغی ضلع میں کارروائی کا آغاز کریں۔

انھوں نے بڑی جرأت کا فیصلہ کیا۔ بصورت دیگر صارفین پر گیس کا اتنا لوڈ پڑتا کہ جیسے وہ بجلی کے لوڈ سے ہراساں ہیں، خصوصاً تنخواہ دار طبقہ۔ ادھر اپنے بیان میں شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ بھی عیاں کردیا تھا کہ انتہائی گھڑی پر انھیں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا ، خیر یہ اشارہ یمن کیطرف ہوگا، پاکستان نے اپنی فوجیں اس جنگ میں نہیں جھونکیں  لہٰذا پاکستان مشرقی وسطیٰ کی جنگ میں پارٹنر کیسے بن سکتا تھا پھر یہ وہی پہلو ہوتا جیسا کہ نور محمد ترکئی کی حکومت گرانے میں امریکی اشارے کے راستے کی ابتدا ہوئی اور اس کے اثرات کیا ہوتے کہ ہم ویسے ہی بھارتی بارڈر سے تنگ ہیں اور اپنے دوسرے پڑوسی جو ماضی 1965ء کی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دے چکا تھا۔ یعنی ہمارے دو بارڈر تو غیر محفوظ ہیں اور ہم تیسرا بارڈر بھی غیر محفوظ کرلیں خرچہ کم کرو، امپورٹ کم کرو کا فیصلہ وقت کی آواز ہے۔

مانا کہ ان کی کابینہ کوئی مفکرین اور عالم فاضل لوگوں کا اجتماع نہیں مگر امید ہے کہ سچ اور مفید آواز جہاں سے آئے وہ ہماری اصولی تعلیم ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام کا خانہ دوم یعنی کعبہ ہے۔

خانہ کعبہ تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہاں کا حکمران خادم حرمین شریفین ہے۔ لیکن لوگوں کے دلوں میں ان خادموں کا اصولی احترام ہے، سو پاکستانی وفد نے روا رکھا مگر ان کی تابعداری کے کوئی معنی نہیں،ایسے موقعے پر اگر یہ نواز شریف کا وفد ہوتا تو من و عن ہاں لکھ کے آتا، ہوسکتا ہے ایسا نہ ہوتا۔  کیونکہ ماضی میں ہم ایسا ہی کرتے رہے۔ اس لیے یسعودی عرب کو یہی امید تھی مگر عمران خان نے تو گیس پائپ لائن کا ڈھکن اتارنے کا حکم دے دیا۔اس لیے آج یہ کہنا پڑتا ہے کہ سیاست میں ایسا بھی وقت آتا ہے۔ جب توقعات پوری نہیں ہوتیں اور امیدیں چکنا چور ہوجاتی ہیں تو پھر یہ مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ یہ توقعات کا تصادم تھا اورکچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔