’’ہاں تو میں عرض کر رہا تھا‘‘

عبدالقادر حسن  بدھ 5 جون 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک یورپی ملک کا ایک سیاسی کارکن بہت جوشیلا اور بے باک تھا اس کی تقریریں لوگ بہت پسند کرتے تھے اور اس کی تیزی و تندی پر حکومت کے خفیہ اداروں کی نظر تھی چنانچہ ایک بار تقریر کرتے ہوئے وہ آپے سے باہر ہو گیا تو وہاں موجود پولیس کے اہلکاروں نے اسے گرفتار کر لیا اور پرچہ کاٹ کر عدالت میں پیش کیا۔ عدالت بھی اس سے واقف تھی چنانچہ اس کارکن کو سزا ہو گئی اور وہ صبر شکر کر کے قید کاٹنے پر مصروف ہو گیا۔ قید ختم ہوئی اور وہ جیل سے باہر نکل کر سیدھا اس مقام تک پہنچا جہاں سے اسے گرفتار کیا گیا تھا اور اس وقت وہ جوتقریر  کر رہا تھا اس کے جملے دہراتے ہوئے اس نے کہا کہ خواتین و حضرات میں یہ عرض کر رہا تھا کہ … اس کا یہ فقرہ کہ میں ’یہ عرض کر رہا تھا‘ عالم سیاست کا ایک نصابی فقرہ بن گیا اور نئے سیاسی کارکنوں کو اس کی مثالیں دی جانے لگیں۔

آج جب پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ (ماضی میں خادم اعلیٰ اب آیندہ پتہ نہیں کیا) حلف اٹھانے کے بعد واپس اسی مقام پر آئے ہیں جہاں سے وہ صوبائی قیادت چھوڑ کر گئے تھے تو شاید وہ اپنی حکومت وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے وہ اسے چھوڑ کر گئے تھے اور دوسرے صوبوں کے لیے انتظامیہ کی ایک مثال قائم کر گئے تھے۔ میرے خیال میں پختونستان یعنی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے جب یہ کہا ہے کہ میاں شہباز کو اب ان کی پیروی کرنی چاہیے تو بہت خوب کہا ہے ہر صوبے کے وزیراعلیٰ کو یہی کہنا چاہیے اور ہر صوبے کے وزیراعلیٰ کو میاں شہباز شریف سے کہیں بہتر وزیراعلیٰ ثابت ہونا چاہیے لیکن اس وقت تک چونکہ ہمارے سامنے واحد مثال میاں صاحب کی ہے اس لیے ہم اسی کا ذکر کر دیتے ہیں۔

میاں صاحب کی حکومت کے دوران جب دوسرے صوبوں کا کوئی صاحب فکر  ملتا تھا تو وہ فرمائش کرتا تھا کہ ایک شہباز شریف ہمیں بھی دے دیں اس کا جواب ہنس کر میں یہی دیا کرتا کہ خدا کرے آپ کے ہاں بھی کوئی  شہباز پیدا ہو جائے جو ہمارا بوجھ ذرا کم کر دے لیکن ہم نے شہباز کو آسمان سے نہیں اتارا ایک کاروبار کرتے ہوئے شخص کو سیاست کا شوق چڑھا اور وہ اپنے بڑے بھائی کی انگلی پکڑ کر سیاست کے سفر پر چل کھڑا ہوا۔ حکومت اس نے بڑے بھائی سے کہیں بہتر کی لیکن بڑے اور چھوٹے  کا فرق ملحوظ خاطر رہا۔ آج جب میاں شہباز شریف ایک بار پھر اپنی راجدھانی کو لوٹ رہے ہیں طبل و علم کے ساتھ تو ہماری دعائیں ان کے ہمرکاب  ہیں اس امید کے ساتھ کہ اب وہ پہلے سے زیادہ بہتر حکومت کریں گے اور اپنے معاصرین  وزراء کے لیے ایک مزید مشکل مثال قائم کریں گے اور پختونستان کے خٹک صاحب کو مثالیں قائم کر کے شہباز کو چیلنج کرنا ہو گا۔

کسی اچھی حکومت کے لیے حکمرانوں میں رقابت جتنی بڑھے اور مقابلے کا شوق جتنا زیادہ پیدا ہو عام لوگوں کے لیے اتنی ہی زیادہ خوشخبری ہے۔ اگر ہمارے حکمران ہمارے لیے آپس میں لڑیں اور ہماری خدمت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر کریں تو ہمارے لیے اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ ہوا کہ ہم ان خود پسند اور مفاد پرست سیاستدان حکمرانوں کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہمارا کیا بنے گا اور غربت و افلاس کے کس اندھیرے غار میں ہمیں پھینکا جائے گا۔ اللہ نے فضل کیا اور ہمارے حکمران بوجہ عوام الناس آپس میں الجھ پڑے۔ بلوچستان میں انقلاب آیا اور وہاں ایک غیر سردار متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والا وزیراعلیٰ بن گیا جو سرکاری تام جھام سے بچ کر رہنا چاہتا ہے یعنی گارڈ آف آنر وغیرہ سے دور یہی حال خیبر پختون خوا  کے وزیراعلیٰ کا بھی ہے۔

آغاز تو دونوں صوبوں کا حوصلہ افزاء ہے۔ رہا سندھ تو وہ اونچے حکمرانوں کا صوبہ ہے وہ جانیں اور ان کے عوام جانیں ہم پردیسی عوام ان کے ایوان کے قریب نہیں پھٹک سکتے فی الحال ان کے لیے ایم کیو ایم کافی ہے۔ ہم نے سندھی بھائیوں کی ہمیشہ خدمت کی ہے بلکہ ان کے لیڈر کو لیڈر بنایا ہے۔ ورنہ بھٹو کو سندھ سے تو اکثریت نہیں ملی تھی پنجابی ووٹوں پر وہ  وزیراعظم بنے تھے۔ بہر حال اب یہ پرانی باتیں ہیں۔ ہم پنجابیوں نے بھٹو کو انٹی انڈیا ہونے کی وجہ سے ووٹ دیے تھے اب خود ہمارے پنجابی پرو انڈیا بنے ہوئے ہیں اور ان کی دریافت یہ ہے کہ ہندوئوں اور ہمارا کلچر ایک ہی ہے نہ جانے پھر پاکستان کا پنگا کیوں لیا تھا۔ بہر کیف پاک بھارت تو ایک قدیمی رشتہ یوں ہے کہ پاک مسلمانوں کی نمایندگی کرتا ہے جن کی ہزاروں برس حکومت سے اندرا نے انتقام لیا تھا سقوط ڈھاکا کی صورت میں لیکن یہ انتقام جاری ہے اور جب تک پاکستان موجود ہے یہ انتقام جاری رہے گا۔

یہ عرض کرنا ہماری مجال نہیں لیکن بڑے میاں صاحب اپنے گردوپیش میں صرف پاکستانی ذہن کے لوگ رکھیں جنھیں دانشور کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے متوقع وزراء صاحبان کے ذہن تو خالی خولی ہیں ان کی زبانیں صرف اقتدار کے ذائقے سے آشنا رہیں۔ ماشاء اللہ اب تو میاں صاحب کو کھلا اقتدار ملا ہے اور انھوں نے بلوچستان پر مخلصانہ توجہ دیکر قوم کو خوش کر دیا ہے۔

ذکر میاں شہباز شریف کا تھا لیکن بڑے میاں صاحب کا ذکر بھی کرنا پڑا اور یہ ایک اچھی بات ہے صاحبان اقتدار کو پریشان ہرگز نہیں کرنا چاہیے تاکہ وہ جہانبانی کا سلسلہ خوبی کے ساتھ جاری رکھیں جس میں فائدہ ہم عوام کا ہے۔ جو باتیں لمبی چوڑی تمہیدوں کے ساتھ عرض کرنی چاہئیں وہ میں جلدی جلدی عرض کر رہا ہوں اور مثلاً میں ذرا تفصیل کے ساتھ اپنی اس خوش فہمی کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اگر حکمرانوں کے سدھرنے سے حالات سدھر سکتے ہیں تو مجھے حالات میں بنائو اور تعمیر دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان کا صوبہ پختونخوا میں امتحان ہے اور توقع ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوں گے ورنہ پھر عمران خان کو کہاں تلاش کریں گے اس پر بات تو بہت کرنی ہے مگرخدا عمران کو صحت دے جلد از جلد کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔