عالمی کساد بازاری اور ڈرون حملے

ایم آئی خلیل  جمعرات 6 جون 2013

جن دنوں مختلف عالمی نشریاتی ادارے، مختلف جائزے اور رپورٹس اس بات کا برملا اظہار کر رہے تھے کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کساد بازاری کی لپیٹ میں چلے جا رہے ہیں اور اس عالمی کساد بازاری کا سبب یورپ اور امریکا کا مالیاتی نظام تھا جو سود کے باعث اور قرضوں کے بوجھ تلے سخت ترین دباؤ کا شکار تھا۔ لیکن ان دنوں پاکستان عالمی کساد بازاری کے مہیب اثرات سے بچا ہوا تھا۔ اگرچہ پاکستان کے پڑوس میں تیزی کا سلسلہ پھر شروع ہو چکا تھا۔ لیکن 2004ء سے ہی پاکستان کو اس جنگ میں لپیٹنے کی سازش تیار ہو چکی تھی۔

فاٹا کے ایک مخصوص علاقے میں ڈرون حملوں کے ذریعے نہتے معصوم شہروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں دھماکوں میں تیزی آنے لگی۔ 2008ء میں جیسے ہی عالمی کساد بازاری کے باعث یورپ اور امریکا کا مالیاتی نظام زمین بوس ہونے لگا، اس کے ساتھ ہی پاکستان پر ڈرون حملوں کی تعداد میں بڑی سرعت کے ساتھ اضافہ ہوا اور بالآخر ان حملوں نے پاکستان کو بھی کساد بازاری کی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان جو چند سال قبل تک معاشی ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا کہ اچانک 2008ء میں معاشی ترقی زبردست گراوٹ کا شکار ہو کر رہ گئی۔ ادھر ڈرون حملے بڑھتے رہے ادھر ڈالر کی قدر بڑھتی رہی۔

ملک بھر میں جگہ جگہ دھماکے ہونے لگے، ترقی یافتہ ملکوں نے بھی بار بار اپنے شہریوں کو آگاہ کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان کے سفر سے گریز کیا جائے۔ ادھر ملک میں توانائی کے بحران نے شدت پکڑ لی۔ ایک طرف کارخانے بند ہونے لگے اس کے ساتھ ہی سرمایہ کار اور صنعت کار بیرون ملک روانہ ہونے لگے۔ چند سال میں ملکی ترقی کی شرح 6 تا 8 فیصد سے گھٹ کر دو تا تین فیصد تک رہ گئی۔ عالمی کساد بازاری جس سے پاکستان بچا ہوا تھا 2009ء کے بعد سے پاکستان میں کساد بازاری بام عروج پر پہنچ چکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے غیر ملکی قرضہ 36 ارب ڈالر سے بڑھ کر 62 ارب ڈالرز سے زائد ہونے لگا۔ بیروزگاری کی شرح بڑھنے لگی ڈالر 100 روپے کا ہونے لگا۔ تجارتی خسارہ بڑھنے لگا، وغیرہ وغیرہ۔

دراصل یہ حملے پاکستان کی معیشت پر ڈرون حملے ثابت ہوئے اگرچہ پاکستان میں ان حملوں کی ابتداء 2004ء میں ہو گئی تھی لیکن 2008ء سے ان حملوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ حتیٰ کہ مختلف عالمی فورموں میں ان ڈرون حملوں کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمیشن نے جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 23 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے نام پر پاکستان پر ہونے والے ڈرون حملوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ایسے اقدامات سے دہشت گردی میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

نائن الیون کے بعد سے اب تک پاکستان کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ امریکا کی جنگ تھی جسے بتدریج ہماری جنگ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اب تک 50 ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ شرح ترقی میں کمی ہو رہی ہے۔ خسارہ تجارت بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ صنعتوں پر جمود طاری ہے۔ ٹیکسوں کی وصولیابی کم ہو پا رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری ختم ہوتی چلی جا رہی ہے، ملک میں سرد بازاری اور کساد بازاری بڑھتی چلتی جا رہی ہے۔ اس قسم کے جملے اب زبان زد عام ہوتے جا رہے ہیں۔

ان میں سے چند ایک کا شماریات کی روشنی میں جائزہ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ ان ڈرون حملوں اور ملک میں ہونے والے دھماکوں اور بدامنی کے باعث ملکی معیشت میں بھی گرم بازاری پیدا ہوئی ہے یا پھر سرد بازاری۔ پہلے ہم پاکستان کی GDP گروتھ ریٹ اور خطے کے اردگرد کے ممالک کی GDP کی شرح ترقی کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کی شرح ترقی جو کہ 6 تا 7 فیصد تک جا پہنچی تھی 2008ء میں گر کر 1.8 فیصد، 2009-10ء میں 3.1 فیصد، 2010-11ء میں 3 فیصد، 2011-12ء میں 3.6 ہو گئی۔ 2012ء میں ہی انڈیا کی شرح ترقی 6.5 فیصد بنگلہ دیش 6.1 فیصد، سری لنکا 6 فیصد، نیپال 4.6 فیصد، ازبکستان 8.2 فیصد، ترکمانستان8 فیصد رہی۔ پاکستان جو کہ اتحادی ملکوں کا حلیف ہے دیگر ترقی پذیر ایشیائی ملکوں سے اس کا موازنہ کرنے کی خاطر 2012ء کی ایک رپورٹ کا سہارا لیتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں GDP کی شرح ترقی 6.1 فیصد رہی جب کہ 2013ء میں 6.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ (واضح رہے کہ پاکستان کے بارے میں ساڑھے تین فیصد کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے) ان ملکوں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ پیداواری صلاحیتوں اور استعداد کار میں اضافے کے حوالے سے اقدامات کریں تا کہ ایشیائی ممالک کے عوام کو غربت سے نکالنے میں نمایاں مدد ملے۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ نائن الیون کے بعد کے سالوں میں ہی پاکستان میں غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ ملک کو بدامنی کی فضا سے نکال کر معاشی بحالی کی جانب گامزن کیا جائے۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ ختم ہونے پر ہی پاکستان غربت کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب 2000ء میں نئے ہزاریے کے آغاز میں اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ غربت کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور 2015ء تک اس کے اہداف حاصل کر لیے جائیں گے (جب کہ پاکستان میں 2015ء تک غربت مزید بڑھ جائے گی)۔

دوسری طرف ڈرون حملوں کے نتیجے میں ملک میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث نئے کارخانے نہیں لگ رہے اور پرانے بند ہو رہے ہیں۔ جس سے بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اگرچہ پاکستان میں یہ شرح 7 فیصد بتائی جاتی ہے لیکن آزاد ماہرین اسے 10 تا 12 فیصد بھی بتاتے ہیں۔ بہرحال ارد گرد کے دیگر ممالک سے پاکستان میں بیروزگاری کی شرح پھر بھی زیادہ ہے۔ مثلاً بھوٹان میں بیروزگاری کی شرح 4 فیصد، بنگلہ دیش میں 5 فیصد، بھارت 3.8 فیصد، سری لنکا 4.2 فیصد۔ ان ڈرون حملوں اور ملکی معیشت کی بدحالی کے باعث دیگر نقصان کے علاوہ ایک اور بہت بڑا نقصان برین ڈرین سے متعلق ہے کہ ہر تعلیم یافتہ شخص بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتا ہے۔

اس طرح ملک سے ڈاکٹرز، انجینئرز، اکاؤنٹینٹ، ماہرین تعلیم، ماہرین معاشیات اور دیگر ماہرین ہنرمند افراد کے چلے جانے سے حال اور مستقبل دونوں پر انتہائی شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان میں سے بہت سے لوگ مجبور ہو کر جانا چاہ رہے ہیں یا چلے گئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملک میں توانائی کا بحران ہے۔ ڈرون حملے ہو رہے ہیں، بم دھماکے ہو رہے ہیں، معاشی بدحالی ہے، سرد بازاری ہے، کساد بازاری ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بیرون ملک جا رہے ہیں اور یورپ اور امریکا میں جگہ پا رہے ہیں۔ اس طرح عالمی کساد بازاری سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن کر رہ گیا ہے۔ اب دنیا اس عالمی کساد بازاری کے اثرات سے نکل رہی ہے۔ لیکن ڈرون حملوں کے باعث پاکستان پر کساد بازاری کے منفی اثرات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔