انوکھی شادیاں

نسیم انجم  جمعرات 6 جون 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

شادی کا بندھن بے حد خوبصورت، پرکشش اور نازک ہوتا ہے، ہر شخص شادی کی تمنا رکھتا ہے سوائے چند کے جو شادی کو اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔ ورنہ تو پوری دنیا اور ہر قوم و مذہب کے لوگ شادی کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہ لڈو ہیں جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور نہ کھائے تو اسے بھی پچھتانا پڑتا ہے۔

شادی ایک مقدس فریضہ ہے جس کی ادائیگی ہر شخص کو بھلی لگتی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں اور ان کے آنگن میں کھلنے والے پھول پورے گھر میں خوشیاں اور خوشبو بکھیر دیتے ہیں، ننھے بچوں کی ہر ادا پیاری لگتی ہے اور زندگی کا سفر ہزاروں مسائل ہونے کے باوجود بے حد آسانی سے گزر جاتا ہے۔ ہر قوم و مذہب میں شادی کرنے کے مختلف طریقے ہیں، ہندوئوں میں ہونیوالے شوہر اور بیوی آگ کے گرد سات چکر لگاتے ہیں جنھیں ’’پھیرے‘‘ کہا جاتا ہے۔ عیسائیوں میں انگوٹھی پہنائی جاتی ہے، زبانی و کاغذی کارروائی بھی ہوتی ہے، مسلمانوں میں گواہوں کے درمیان ایجاب و قبول اور تلاوت قرآنی کے ساتھ دعائیں کی جاتی ہیں، کہیں میاں بیوی ایک دوسرے کے گلوں میں ہار ڈال کر اس بندھن میں بند جاتے ہیں اور پھر ایک نئی زندگی کا آغاز نئی امیدوں اور نئی امنگ کے ساتھ ہوتا ہے۔

چند روز قبل ایک خبر پڑھی تھی کہ فرانس میں بھی انوکھی شادی کی اجازت دے دی گئی اور اس سے قبل بھی کئی ملکوں میں اس قسم کے قوانین کا نفاذ کر دیا گیا ہے کہ جہاں ہم جنس آپس میں شادی کر سکیں۔ حال ہی میں پاکستانی لڑکیوں کی بد نصیبی اور گمراہی کی خبر پڑھ کر پاکستانیوں کا دل خون کے آنسو رویا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی 34 سالہ ریحانہ کوثر نے29 سالہ ثوبیہ قمر سے لیڈز رجسٹری آفس میں رواں ماہ کے آغاز یہ انوکھی شادی کر ڈالی اس گھنائونے اور ناپسندیدہ عمل کے بعد اب انھیں سیاسی پناہ کی ضرورت ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان کی پیشانی پر کالک ملنے کے لیے انھوں نے ایسا کیوں کیا…؟ پستی میں گرنے کا شوق کیونکر چرایا۔ اس واقعے سے قبل بھی تقریباً کئی سال گزر گئے جب پنجاب سے اس ہی قسم کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا۔

کسی بھی شخص کی جہالت کے اندھیروں میں قدم رکھنے کی وجہ گھر کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے۔ اساتذہ اور اہل محلہ کا کردار ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً گمراہ نسل کو راہ راست پر لانے کے لیے کسی نہ کسی طریقے سے عمل کے دیے روشن کرتے ہیں۔

فرمان الٰہی ہے کہ ’’اور تم میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہونا چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کاموں کا حکم دے اور برائی سے باز رکھے اور وہ ہی مراد پانے والے ہیں۔‘‘

قرآن کریم میں ’’قوم لوط‘‘ اور ان پر آنے والے عذاب کا ذکر واضح الفاظ میں موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں آگہی، اچھے برے کی تمیز اور نفع و نقصان کے عمل کو اجاگر کیا جائے، بے شمار لوگ ہیں جو سستی شہرت پانے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کرتے کہ ہو جائے عقل دنگ، چند سال سے ایک اداکارہ نے بھی دھوم بچائی ہوئی ہے، ان کی فلمیں فلاپ ہو رہی ہیں، انھیں ہر شخص تعجب سے دیکھ رہا ہے کہ وہ ہندوستان کیا کرنے گئی ہیں…؟ انھوں نے آزاد خیالی کے حوالے سے ہندوستان اور امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا اور اپنے جسم پر ٹیٹو بھی بنوا لیا۔ اور puminat کے پجاریوں میں شامل ہو گئیں، مسلمان ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ تو ہندوستان کے ہیرو شاہ رخ خان کو بھی ہے اور وہ ہیں بھی مسلمان ہی، لیکن یہ بات بڑی عجیب ہے کہ انھوں نے شادی ایک ہندو لڑکی سے کی اور بہت مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا مسلمان کے لیے یہ شادی جائز ہے…؟ اہل کتاب سے تو شادی ہو سکتی ہے، بشرطیکہ وہ بھی انجیل کی تعلیم پر عمل پیرا ہو تو ایک مسلمان مرد اہل کتاب سے شادی کر سکتا ہے اور اگر مسلمان کر لے تو بات یقیناً قابل قبول ہو جائے گی۔

آخر موصوف کو اپنی بیوی کو مسلمان کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا وہ ایک مقدس رشتے میں جب بندھنے جا رہے تھے تو انھیں آمادہ کرنا چاہیے تھا، کیا وہ مذہب اسلام کی حقانیت سے واقف نہیں ہیں، دین اسلام تمام مذاہب سے اچھا اور ہر شخص کو عزت و وقار، انصاف دینے کا درس دیتا ہے۔

انھوں نے مزید فراخ دلی کا مظاہرہ یہ بھی کیا کہ اپنے ہی گھر میں مندر بھی اپنی بیگم کے لیے بنوا دیا اپنی عبادت گاہ کا بھی انتظام کیا۔ انھیں کسی قسم کا اعتراض ہی نہیں ہے کہ بیوی ان کی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور بچے نہ جانے ماں کے مذہب پر ہیں یا والد کے ۔ وہ سزا و جزا کے بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے اور قرآن پاک کی حقانیت سے بھی واقف ہوں گے، انھیں یہ بات ضرور بحیثیت مسلمان معلوم ہونی چاہیے کہ قرآن کا ہر لفظ سچا ہے اور روز محشر کی سزائوں کے بارے میں بھی جانتے ہوں گے، ان حالات میں خدا کی تعلیم کی روشنی میں اپنے خاندان کو آگ سے بچانے کا اہتمام کرنا ان کی اصلی اور سچی محبت کی دلیل ہو گی۔ میرا کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ تمام مسلمان جنت میں جائیں گے… یہ تو اپنے اعمال پر منحصر ہے۔

جس کا جیسا عمل ہو گا اسے ویسی ہی سزا و جزا نصیب ہو گی۔ جن لوگوں کی بخشش کا ذکر قرآن میں نہیں ہے تو وہ نہیں بخشے جائیں لیکن اپنی سزا کو بھگتنے کے بعد، رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کا ہر شخص منتظر ہو گا۔

شاہ رخ نے اپنے وطن ہندوستان سے محبت کا حق وطن کی بیٹی گوری سے شادی کر کے ادا کیا جب کہ موصوف کا آبائی گھر ہندوستان میں نہیں ہے۔ لیکن مذہبی منافرت سے نہیں بچ سکے۔ ہر موقعے پر انھیں مسلمان ہونے کے ناتے دھر لیا جاتا ہے۔ پوچھ گچھ کی جاتی ہے، جب کہ اس نے مائی نیم از خان (My Name is Khan) بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور اسلام ایک امن پسند مذہب ہے وہ قتل و غارت کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ذات و نسل کی بھی اہمیت اﷲ کے نزدیک نہیں ہے۔ اﷲ کے نزدیک سب سے اچھا وہ ہے جو متقی ہے۔ اﷲ کے حضور سب برابر ہیں۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

تو اسلام یہ ہے۔ حال ہی میں کرینہ کپور اور سیف علی خان کی شادی ہوئی ہے۔ بڑا شور تھا کہ کرینہ کپور مسلمان ہو جائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سیف علی خان کی مرضی ہے کہ وہ مسلمان کریں یا نہ کریں۔ ہندوستان میں اس قسم کی شادیاں عام ہو چکی ہیں کہ مسلم لڑکیاں یا لڑکے ہندو خاندان میں آسانی سے شادی کر لیتے ہیں۔ اگر اعتراض ہوتا ہے تو لڑکے لڑکی کے والدین کو، مگر کیا کہا جائے۔ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟ والا معاملہ درپیش ہے۔

آج کے حالات پوری دنیا میں ہر لحاظ سے بیحد خراب ہو چکے ہیں اولاد نافرمان اور بے ادب ہے۔ یورپ میں رہنے والے پاکستانی مسلمان مغرب کی آزادی سے بے حد نالاں ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو گناہوں کی آگ سے بچانا چاہتے ہیں لیکن ماحول انھیں لے ڈوبتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پیسے کے حصول اور دولت کی ہوس کی بجائے قناعت کو اپنا لیا جائے اور اپنی اولاد کو تعلیم و تربیت کے حسین زیورات سے آراستہ کیا جائے… کہ اس میں ہی بہتری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔