سارک وزرائے خارجہ اجلاس، سشما سوراج کی بدمزاجی

ایڈیٹوریل  ہفتہ 29 ستمبر 2018
بھارت سفارتی آداب، بین الاقوامیت خیرسگالی اور سارک تنظیم کے بنیادی چارٹر سے لاتعلق اور دست کش ہو گیا ہے۔ فوٹو: فائل

بھارت سفارتی آداب، بین الاقوامیت خیرسگالی اور سارک تنظیم کے بنیادی چارٹر سے لاتعلق اور دست کش ہو گیا ہے۔ فوٹو: فائل

سارک تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے سائیڈ لائن پر نیویارک میں نیپال کی صدارت میں ہوا ضرور، تاہم بھارت کی سارک تنظیم کو کمزور، غیر فعال اور بے نتیجہ بنانے کی مذموم سازش کے تانے بانے ختم نہیں ہوئے۔

گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی رعونت اور پاکستان سے مخاصمت کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنی حکومت کا موقف بیان کر کے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے کترا کر چلی گئیں، برہمی یا خفت اس قدر تھی کہ انھوں نے بھارتی میڈیا سے بھی بات نہیں کی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت سفارتی آداب، بین الاقوامیت خیرسگالی اور سارک تنظیم کے بنیادی چارٹر سے لاتعلق اور دست کش ہو گیا ہے، جو اس امر کا مظہر ہے کہ سشما صاحبہ پاک دشمنی میں اس روش پر گامزن ہیں جو بھارتی جنگجویانہ پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔

شاید بھارت اس حقیقت کو فراموش کرچکا ہے کہ سارک تنظیم خطے میں قربت و تعاون، معاشی ترقی، جدید تکنیکی سہولتوں کے باہمی استفادہ اور کروڑوں غریب عوام کی خوشحالی کے مقاصد سے بھی اس کی دلچسپی نہیں رہی، جب کہ سارک کا قیام 1985ء میں اسی مقصد کے پیش نظر لایا گیا تھا کہ یہ علاقائی ترقی و استحکام کے مشترکہ خوابوں کی تعبیر کا ذریعہ بنے گی، اور کثیر جہتی معاونت سے جنوبی ایشائی ممالک کو غربت و افلاس سے نجات دلا کر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل کیا جائے گا۔

بہرحال سشما سوراج نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ سارک کے عالمی فورم کے مناسب نہیں تھا۔ تعجب کی بات ہے کہ سشما سوراج نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے منطق پیش کی کہ سارک رکن ممالک میں امن وترقی کے لیے سازگار ماحول ضروری ہے، مگر دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، یہ الزام بھی انھوں نے پاکستان پر لگادیا۔

واضح رہے وزیراعظم عمران خان کے مودی کے نام حالیہ خط کا جواب اگرچہ مذاکرات پر بھارتی آمادگی کا ملا، مگر خط کا مضمون بھانپنے کا مرحلہ آیا تو بھارتی وزارت خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور ہلاکتوں کی خودساختہ کہانی کو بہانہ بناکر پاک بھارت مذاکرات کی فوری منسوخی کا اعلان کردیا۔ سشما سوراج نے الزام لگایا کہ پاکستان اس عمل میں مشکلات پیدا کررہا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ نے بادی النظر میں بھاشن دیا کہ سارک ممالک مل کر دہشتگردی کی ہر شکل کا خاتمہ کریں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ماحول کی سازگاری کا پیمانہ کیا یہی ہے جس کی مثال انھوں نے نیویارک میں پیش کی کہ اجلاس میں زور خطابت دکھا کر چل دیں، نہ دعا نہ سلام۔ سارے قابل و معزز مہمان ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ سشما کا کہنا تھا کہ وہ جھگڑنا نہیں چاہتی تھیں، کیا سارک لڑائی جھگڑے کا فورم تھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ رعونت آمیز بھارتی مائنڈ سیٹ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا، بھارت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ امریکا چین تجارتی جنگ سے بھارت کی تجارتی اور مینوفیکچرنگ بنیاد مزید مضبوط ہوگی، یعنی جنگجویانہ ماحول کو بھارت اپنی اقتصادی اور تجارتی ترقی کا ایک سنہری موقع ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران ان کی بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات نہیں ہوئی، وہ بیچ اجلاس میں ہی اٹھ کر چلی گئیں، ہوسکتا ہے ان کی طبیعت ناساز ہو۔

ادھر ایک ٹی وی چینل کے مطابق وزیر خارجہ نے کہا کہ انھوں نے سشما سوراج کی بات غور سے سنی، انھوں نے علاقائی تعاون کی بات کی، مگر ’’میرا سوال یہ ہے کہ علاقائی تعاون ممکن کیسے ہوگا؟ جب خطے کے ممالک مل بیٹھنے کو تیار نہیں اور آپ اس بیٹھک میں رکاوٹ ہیں۔ اس طرح علاقائی تعاون میں پیشرفت کیسے ممکن ہے۔ پاکستان سارک فورم کو نتیجہ خیز دیکھنا چاہتا ہے‘‘۔

ایک اور انٹرویو میں شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ امریکا بھارت اسٹرٹیجک الائنس ہمارے کہنے سے تبدیل نہیں ہوسکتا تاہم ہمیں اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور امریکا کو یہ باورکرانا ہے کہ وہ جب بھی پاکستان سے مل کر آگے بڑھا اسے فائدہ ہوا، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ فیڈریکا موگرینی اور عمان کے وزیرخارجہ سے بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملاقاتیں کیں، او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس کے دوران مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھارت کچھ نہیں چھپا رہا تو انکوائری کمیشن بنانے کے لیے حمایت کرے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کشمیر پر پاکستان کے سوالات کی ہی توثیق کر رہی ہے، اجلاس کے شرکاء نے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو یادداشت نامہ بھی پیش کیا۔ شاہ محمود قریشی سے برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے چیئرمین ڈیوڈ ملی بینڈ نے بھی ملاقات کی۔

بلاشبہ استدلال و حقائق پسندی کے تناظر میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا انداز فکر صائب مانا جائے گا کہ پاکستان سارک تنظیم کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے، وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ سارک کی ترقی میں خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں رکاوٹ صرف ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ اور یہ کڑوا سچ ہے۔ اسی رویے کی دیوار قربتوں کو فاصلوں میں بدلنے میں حائل ہے۔ ظاہر ہے پاکستانی پیغام فصیح و بلیغ تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔