ٹیکس خوری

عبدالقادر حسن  ہفتہ 29 ستمبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک مدت کے بعد سیاستدانوں نے خوب رونق لگائی ہے اور یہ رونق سیاست کے دم قدم سے ہی جاری رہتی ہے اگر سیاستدان کوئی غلطی کر گزریں تو پھر سیاست کی یہ رونقیں معدوم ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ  پہلے سے تیار فوج آ جاتی ہے جس کا عوام سے تعلق بہت کمزور ہوتا ہے کیونکہ فوج کی ایک الگ دنیا ہے جس میں سویلین کا عمل دخل بہت کم ہوتا ہے ۔ بہرحال سیاست کی وجہ سے اخبار نویسوں کا دال دلیہ بھی چلتا رہتا ہے۔ آج کل تو موضوعات کی اتنی بھر مار ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس موضوع پر لکھیں اور کس کو چھوڑ دیں ۔

جناب شہباز شریف پنجاب میں جھنڈے گاڑنے کے بعد اب قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر جا پہنچے ہیں ان کا واسطہ پہلی دفعہ کسی حکومت سے پڑا ہے اس سے پہلے تو وہ اقتدار میں وزیر اعلیٰ کی کرسی پر ہی براجمان رہے۔

پہلی دفعہ وفاقی حکومت میں اپوزیشن لیڈر کی اہم ذمے داری ان پر اس وقت آن پڑی ہے جب ان کے برادر بزرگ  نواز شریف نااہل ہو کر سیاست سے باہر ہو چکے ہیں اور پارٹی کی ذمے داری شہباز شریف کے توانا کندھوں پر آپڑی ہے۔ انھوں نے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ حالیہ ضمنی بجٹ کے بارے میں تفصیلی تقریر کی، ان کی یہ تقریر میں نے حرف بحرف ٹی وی پر دیکھی اور سنی ۔ ان کے بطور اپوزیشن لیڈر کا کردار تو رفتہ رفتہ سامنے آئے گا فی الوقت انھوں نے حکومت کی جانب سے لگائے گئے اضافی ٹیکسوں پر حکومت کی گوشمالی کی ہے۔

ان کی تقریر سے مجھے اپنے وقت کے دو عالموں کی یاد آگئی ۔ تیرھویں صدی عیسوی میں ہسپانیہ اور شمالی افریقہ کی مسلمان سلطنت دو بھائیوں کی علمی فضیلت کے سامنے سرنگوں تھی ۔ ایک عالم خالد کے بیٹے تھے جو نہ جانے کیوں خلدون کے نام سے معروف تھا۔ ایک بیٹا عبدالرحمٰن جو ابن خلدون کے نام سے زندہ جاوید ہوا انسانی تاریخ کا عالم ہی نہیں فلاسفر بھی تھا ۔اس نے اپنی تاریخی تصنیف کا دیباچہ کتابی صورت میں علیحدہ لکھا جو ’’مقدمہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور جسے تاریخ کے تجزیہ کے فن کی پہلی کتاب تسلیم کیا گیا۔ بعد میں آنے والے مورخوں اور تاریخ کے تجزیہ نگاروں نے اسی کتاب پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھی۔ تاریخ دانوں کے علاوہ کارل مارکس بھی اسی مقدمہ کا خوشہ چین تھا۔ قدرت کی فیاضی نے ابن خلدون کو جہانبانی کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا تھا۔

اس ضمن میں علمی تحقیق کہیں سے کہیں جا پہنچی مگر اس کی بنیاد ابن خلدون کو ہی حرف اول تسلیم کیا گیا۔ حکومتوں کے بارے میں ابن خلدون نے بہت کچھ لکھا اور تاریخ کا تجزیہ اور تفسیر کر کے بتایا کہ سلطنتیں اور حکومتیں کس طرح عروج و زوال کے مرحلے طے کرتی ہیں ۔ کون سی باتیں حکمرانوں کو عروج عطا کرتی ہیں اور کون سی انھیں زوال پذیر کر دیتی ہیں ۔ ابن خلدون نے ٹیکسوں کے نظام پر بھی بحث کی ہے ۔ابن خلدون کا ٹیکسوں کے بارے میں فلسفہ اور تجزیہ یہ ہے کہ جب کوئی ملک یا حکومت عروج سے ہمکنار ہوتی ہے تو اس کا خزانہ لبالب بھرا ہوتا ہے ۔

ٹیکس کی شرح کم ہوتی ہے اور خوشحال لوگ شوق کے ساتھ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور پوری قوم اس خوشحالی میں حصہ دار ہوتی ہے لیکن جب حکمران نااہل ہونے لگتے ہیں اور ان کے فضول اخراجات بڑھنے شروع ہوتے ہیں تو خزانے پر بوجھ پڑنا شروع ہوتا ہے اور وہ خالی ہونے لگتا ہے ۔ اس صورتحال سے پریشان ہو کر حکمران مشورے کرتے ہیں کہ خزانے کو کس طرح آباد کیا جائے اس کا جواب بالعموم یہ ملتا ہے کہ ٹیکس بڑھا دیے جائیں چنانچہ حکومتیں رفتہ رفتہ ٹیکس بڑھانے لگتی ہیں۔ ٹیکسوں میں اس اضافے سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں ان کے لیے بڑھے ٹیکسوں کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے چنانچہ ٹیکسوں کی چوری شروع ہو جاتی ہے۔

لوگ اپنی آمدنی چھپاتے ہیں اور ایسے حیلے بہانے اختیار کرتے ہیں کہ ٹیکس ادا نہ کرنے پڑیں کیونکہ یہ ٹیکس ان کی سکت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جب خزانہ پھر بھی خالی رہتا ہے تو حکمران ٹیکسوں میں اور زیادہ اضافہ کر دیتے ہیں اس طرح ٹیکسوں کی چوری اور محصول وصول کرنے والوں میں رشوت بڑھنی شروع ہو جاتی ہے اور یوں ایک خوشحال سلطنت غریب اور دیوالیہ ہو جاتی ہے اور حکمران کمزور ہو کر حکومت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔

ابن خلدون مثالیں دے کر دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتا ہے کہ ٹیکس جتنے کم، حقیقت پسندانہ اور عوام کی آمدنی کے مطابق ہوں گے اتنے ہی زیادہ وصول بھی ہوں گے اور خزانہ کبھی خالی نہیں رہے گا لیکن ٹیکس جس قدر غیر حقیقت پسندانہ اور لوگوں کی آمدنی اور استطاعت سے بڑھ جائیں گے ان کی وصولی اتنی ہی کم ہو جائے گی اور ٹیکس چوری ایسی خرابیاں پیدا کر دے گی کہ قوم کرپٹ ہو جائے گی، لوگ رشوت دیں گے اور حکام وصول کریں گے لیکن اس میں سے ملک کے خزانے میں کچھ نہیں آئے گا۔

ابن خلدون کا ٹیکس کا یہ فلسفہ اس قدر بنیادی انسانی مزاج اور طبیعتوں کے مطابق ہے کہ اس پر وقت کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ۔ ہر زمانے میں انسانی مزاج اور فطرت یہی رہتی ہے اس لیے تو حضورﷺ نے بار بار ہدایت فرمائی کہ انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔

پاکستان کے حکمرانوں کا فلسفہ اس کے برعکس رہا انھوں نے نہ تو ابن خلدون کی پیروی کی اور نہ ہی اپنے نبیﷺ کے حکم کے مطابق عوام کے لیے آسانیاں پیدا کیں ۔ یہ کند ذہن لوگ ہیں اور لکیر کے فقیر ہیں اس لیے ان سے کسی بڑی اور نئی بات کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے نئے وزیر خزانہ جن کی قابلیت کا بہت شہرہ ہے مجھے یقین ہے کہ وہ ابن خلدون کے ا س فلسفے کے بارے میں علم نہیں رکھتے ہوں گے اس لیے تو وہ صدیوں پہلے بنائی گئی رائے کے برخلاف منی بجٹ میں ٹیکسوں کی بھر مار کر گئے۔

اصل بات یہ ہے کہ انسان کے بنیادی مسائل اور مزاج میں کبھی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے علاج اور حل میں ترقی ہوتی رہتی ہے لیکن انسانی فطرت جوں کی توں رہتی ہے ۔ اسی ٹیکسوں کے مسئلے کو لے لیجیے ان میں آسانی پیدا کرکے ان کی وصولی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور یہ بات صدیوں پہلے بھی اتنی ہی سچی تھی جتنی آج ہے اور جتنی کل ہو گی۔ آج پاکستان میں ٹیکس بڑھتے جارہے ہیں اتنی ہی چوری بھی بڑھتی جارہی ہے اور ٹیکس چھپانے کے لیے کرپشن بھی ہر سطح پر بڑھتی جا رہی ہے۔ عام حالات میں آسان شرح کے ساتھ جتنے ٹیکس وصول ہو سکتے ہیں بے حد بڑھی ہوئی شرح کے باوجود اتنے بھی وصول نہیں ہو رہے اور ٹیکس چوری نے قوم کی اخلاقی حالت میں جو بربادی پیدا کر دی ہے اس کی تو کوئی حد نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔