بڑے شہروں میں پانی کا بحران بدترین شکل اختیارکرنے لگا

سید عاصم محمود  اتوار 30 ستمبر 2018
پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد بڑھانے کے ساتھ توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد بڑھانے کے ساتھ توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

یہ 1975ء کی بات ہے جب میں نے شعور سنبھالا۔ تب ہم محلہ سنت نگر،لاہور میں ابا جی (دادا جان) کے ساتھ رہتے تھے۔ انہی دنوں سنت نگر میں ایک ٹیوب ویل لگا جو زمین سے پانی نکالتا۔

یہ پانی محلے کے سبھی گھروں کو فراہم ہوتا۔ یہ پانی اتنا ٹھنڈا اور میٹھا تھا کہ میں آج بھی اس کا شیریں ذائقہ نہیں بُھلا پایا۔ اب مگر کایا پلٹ چکی۔ سنت نگر میں مٹی ملا پانی آتا ہے۔ وجہ یہ کہ زیر زمین موجود پانی کی سطح اتنی نیچے ہوچکی کہ اب ریت و مٹی اس میں شامل ہونے لگی ہے۔ پھر محلے میں پانی بھی پہلے کی طرح وافر دستیاب نہیں، اس کا بہاؤ خاصا کم ہوچکا اور اس کی ’’لوڈ شیڈنگ‘‘ بھی ہوتی ہے۔

لاہور کے اکثر علاقوں کا یہی حال ہے کہ پانی کی کوالٹی معیاری نہیں رہی اور مقدار بھی کم ہوچکی۔لاہور میں پانی کی نایابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں زیر زمین محفوظ پانی ختم ہورہا ہے۔ پچیس سال پہلے چالیس پچاس فٹ گہرائی میں کھدائی کرنے سے پانی مل جاتا تھا۔ آج 800 فٹ کھدائی کرنا پڑے، تو پینے کا صاف پانی دستیاب ہوتا ہے۔ ماہرین آب کا کہنا ہے کہ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح ہر سال ڈھائی تا تین فٹ گر رہی ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔شہرلاہور دریائے راوی کے کنارے بسایا گیا۔ماضی میں راوی میں خوب پانی ہوتا تھا۔

لہٰذا اس دریا کا پانی لاہور کے نیچے واقع آبی ذخائر بھرتا رہتا جنھیں اصطلاح میں ’’آب اندوخت‘‘ (Aquifer)کہتے ہیں۔ اب سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے اس دریا میں خال خال پانی آتا ہے چناں چہ لاہور کی زمین کے نیچے واقع پانی کے آبی ذخائر بھر نہیں پاتے۔ دوسری اہم وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت داتا کی نگری میں تقریباً سات لاکھ لوگ آباد تھے۔ آج اس شہر کی آبادی سوا کروڑ تک پہنچ چکی۔ اتنے زیادہ انسانوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔ اگر لاہور میں وقتاً فوقتاً بارشیں نہ ہوں، تو زیر زمین پانی کی سطح مزید نیچے چلی جائے۔ بارشوں کا پانی گرتی سطح دوبارہ کچھ اوپر لے آتا ہے۔

لاہور وطن عزیز کے ان تین بڑے شہروں میں شامل ہے جہاں ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین پانی نکال کر شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ بقیہ دو شہر گوجرانوالہ اور ملتان ہیں۔ جبکہ دیگر بڑے شہروں،کراچی، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، حیدر آباد، پشاور اور کوئٹہ کو ڈیموں، جھیلوں، دریاؤں اور نہروں کا پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزار کر ملتا ہے۔

جب بارشیں نہ ہونے سے ڈیموں اور جھیلوں میں پانی نہ رہے، تو یہ شہر بھی پانی کی کمیابی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اس سال بارشیں کم ہونے سے راولپنڈی و اسلام آباد کو روزانہ 80 لاکھ گیلن پانی فراہم کرنے والا خان پور ڈیم تقریباً سوکھ گیا۔ اس قدرتی آفت نے دونوں شہروں میں پانی کی قلت پیدا کردی۔ تبھی سپریم کورٹ اور حکومت، دونوں کو احساس ہوا کہ نئے ڈیم تعمیر کرنا ناگزیر امر بن چکا ۔ چناں چہ انہوں نے نئے ڈیم تعمیر کرنے کی مہم کا آغاز کردیا۔

اسی طرح کراچی کا مسئلہ دیکھئے جہاں تقریباً ڈیرھ کروڑ انسان بستے ہیں۔اس نگر کو روزانہ ایک ارب بیس کروڑ گیلن پانی درکار ہے۔اسے کینجھر جھیل سے چالیس کروڑ پچاس لاکھ گیلن پانی ملتا ہے جبکہ حب ڈیم سے صرف دو کروڑ گیلن مل رہا ہے۔

بارشیں نہ ہونے سے یہ ڈیم تقریباً خالی ہو چکا ،اسی لیے کراچی میں پانی کی قلت ہو گئی۔ڈیم بھرا ہو تو یہ روزانہ دس کروڑ گیلن فراہم کرتا ہے۔بیالیس کروڑ پچاس لاکھ گیلن میں سے بیس کروڑ گیلن پانی شہر قائد کے صنعتی ادارے اور کھیت استعمال کرتے ہیں۔بقیہ بیس کروڑ پچاس لاکھ گیلن میں سے آدھا ٹینکر مافیا اڑا لیتی ہے کہ کراچی میں پانی قیمتی جنس بن چکا ہے۔گویا شہریوں کو سرکاری طور پر روزانہ صرف دس کروڑ پچاس لاکھ گیلن پانی ملتا ہے۔یہ صورت حال نہایت گھمبیر اور خطرناک ہے۔

کراچی کے غریب باشندے ظاہر ہے،مہنگا پانی نہیں خرید سکتے۔اسی لیے بہت سے لوگوں نے مضافاتی ٕعلاقوں میں کنوئیں کھود کر پانی بیچنے کا نیا دھندا شروع کر دیا۔مگر ان کنوؤں سے بدبودار پانی برآمد ہوتا ہے۔تاہم غریب مجبوراً اسے استعمال کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ سرکاری پانی کی نسبت بہت سستا ہے۔لیکن یہ غیرمعیاری پانی کراچی کے خصوصاً غریب بچوں اور عورتوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔مذید براں کنوئیں کھودنے کی وجہ سے کراچی میں بھی زیرزمین واقع آبی ذخائر تیزی سے خالی ہو رہے ہیں۔

پانی کی کمی نہیں!

حیرت انگیز بات یہ کہ اعدادو شمار کی رو سے پاکستان قلتِ آب کا شکار نہیں۔ وطن عزیز میں ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش اور دیگر پہاڑی سلسلوں کے برفانی تودوں سے نکلنے والا پانی نالوں اور دریاؤں کی صورت ہر سال ہماری زمینوں کو چودہ کروڑ پچاس لاکھ ایکڑ فٹ سیال دولت فراہم کرتا ہے ۔ ہمارے بڑے دریاؤں میں پانی کا سالانہ بہاؤ کچھ یوں ہے: دریائے سندھ (بشمول دریائے کابل): آٹھ کروڑ نوے لاکھ ایکڑ فٹ۔ دریائے جہلم: دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ فٹ۔ دریائے چناب: دو کروڑ پچیس لاکھ ایکڑ فٹ اور مشرقی دریا (ستلج، راوی اور بیاس): نوے لاکھ ایکڑ فٹ۔ دریاؤں کے پانی میں سے دس کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے جبکہ ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ فٹ ہر سال ہمارے گھروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

یاد رہے، بین الاقوامی اصول کی رو سے ہر انسان کو روزانہ اپنی مختلف ضروریات پوری کرنے کی خاطر 35 گیلن پانی درکار ہوتا ہے۔ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ ستر لاکھ ہے۔ اس آبادی کو 35 گیلن پانی روزانہ کے حساب سے ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ درکار ہے ۔جبکہ ایک کروڑ اسی لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہمارے کارخانوں اور دیگر صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔

درج بالا اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ پاکستان میں تو زائد پانی موجود ہے کہ اسے ہر سال دریاؤں سے جو پانی ملتا ہے، اس میں سے ایک کروڑ دس لاکھ ایکڑ فٹ پانی بچ جاتا ہے۔(یہ پانی چوری ہوتا یا پھر بہہ کر سمندر میں جاتا ہے) پھر یہ کیوں کہا جانے لگا کہ پاکستان میں پانی کی کمی واقع ہوچکی؟ یہ دعویٰ سامنے آنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی کم ہوچکا۔جب پاکستان معرض وجود میں آیا، تو یہاں ٹیوب ویلوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ آج پورے پاکستان میں لاکھوں ٹیوب ویل کام کررہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں کنوئیں کھودے جاتے ہیں۔ ان ٹیوب ویلوں، کنوؤں اور ہینڈ پمپوں سے نکلا پانی ہمارے کھیتوں ،گھروں اورکارخانوں میں استعمال ہوتا ہے۔

وطن عزیز کے خصوصاً شہری علاقوں میں واقع زیر زمین موجود آبی ذخائر کو مگر بارشوں کے ذریعے اتنا پانی نہیں مل رہا کہ وہ دوبارہ بھر جائیں۔ اسی لیے ان میں پانی کی سطح مسلسل کم ہورہی ہے۔ مثلاً خیال ہے کہ لاہور کے زیر زمین آبی ذخائر سے موجودہ رفتار سے پانی نکالا جاتا رہا تو 2025ء تک وہ خالی ہوجائیں گے۔ گویا ہمارے دریاؤں میں تو پانی موجود ہے مگر پاکستان کی زیر زمین جہگوں میں یہ سیال مادہ نایاب ہوتا جارہا ہے۔

ڈیم بننے چاہیں یا نہیں؟

اس نئی صورتحال میں یقینی ہے کہ دریاؤں کے پانی کا استعمال بڑھ جائے گا۔ اب لاہور، گوجرانوالہ، ملتان وغیرہ کو بھی دریاؤں کا پانی پاک صاف بناکر فراہم کرنا ہوگا تبھی ان شہروں میں قلت آب دور ہوگی۔ ان بدلتے حالات میں یہ خیال صائب لگتا ہے کہ دریاؤں پر نئے ڈیم بننے چاہیں تاکہ ان کے ذریعے کثیر پانی محفوظ کیا جاسکے اور وہ بعدازاں زرعی صنعتی اور گھریلو ضرورت پوری کرنے میں کام آئے۔

دنیا بھر میں لیکن ماہرین آب ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ خصوصاً بڑے ڈیم ہرگز تعمیر نہیں ہونے چاہیں۔ یہ ڈیم وسیع علاقے کا قدرتی ماحول تباہ کرتے ہیں۔ وہاں صدیوں سے آباد لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ پھر ان پر لاگت بھی اصل تخمینے سے بہت زیادہ آتی ہے۔اس ضمن میں بڑے ڈیموں کے مخالف پاکستانی ماہرین آب نیلم جہلم بجلی گھر کی مثال پیش کرتے ہیں۔ 1989ء میں جب آبی بجلی بنانے والے اس ڈیم کا منصوبہ بنا، تو منصوبے پر لاگت کا تخمینہ سولہ کروڑ ستر لاکھ ڈالر تھا۔ یہ تخمینہ پھر بڑھتا رہا اور بجلی گھر آخر کار پانچ ارب پندرہ کروڑ ڈالر کے کثیر سرمائے سے تعمیر ہوا۔اس کے معنی ہیں، دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم پر لاگت کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے، اس میں خاصا اضافہ ہو سکتا ہے۔

بڑے ڈیموں کے مخالف ماہرین آب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ڈیم سے سستی بجلی پیدا ہونے کا اعلان بھی دیومالا ہے۔بڑے ڈیموں کے مخالف آبی ماہرین کی تجویز ہے کہ اب متبادل ذرائع توانائی مثلاً شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے بجلی بنائی جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اب شمسی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک واٹ بجلی پیدا کرنے پر پچاس روپے خرچ ہوتے ہیں۔ گویا شمسی ٹیکنالوجی بجلی پیدا کرنے کے معاملے میں آبی قوت سے بھی زیادہ سستا ذریعہ بن چکی۔غیر جانب دار ماہرین کو چاہیے کہ وہ اس دعوے کو بھی جانچ پرکھ سے گذاریں ۔

سوال یہ ہے کہ اگر بڑے ڈیم نہیں بننے چاہیں، تو پھر پانی کیسے محفوظ کیا جائے؟ اس سلسلے میں آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دریاؤں کے ساتھ ساتھ موزوں مقامات پر ’’ذخائر آب‘‘ بنائے جائیں۔ یہ طریق کار تکنیکی اصطلاح میں ’’رائپرین زون مینجمنٹ‘‘ (riparian zone management) کہلاتا ہے۔ یہ ذخائر آب بنانے میں ڈیموں کی نسبت کم رقم خرچ ہوتی ہے جبکہ ان میں زیادہ پانی سما جائے گا۔ ماہرین آب کا کہنا ہے کہ اگر مجوزہ نئے ڈیم بن بھی جائیں تو پاکستان کے سبھی ڈیموں میں مجموعی طور پہ پانچ کروڑ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوگا۔ لیکن ’’رائپرین زون مینجمنٹ‘‘ اپنانے کی صورت میں دریاؤں کے ساتھ بنے ذخائر آب میں ’’تین ارب ایکڑ فٹ پانی‘‘ جمع کرنا ممکن ہے۔ یہ پانی کی بہت بڑی مقدار ہے۔ تاہم ان بیشتر ذخائر آب کے ذریعے بجلی نہیں بن سکے گی۔ یہ بجلی پھر تیل و گیس سے چلنے والے بجلی گھروں یا متبادل ذرائع توانائی سے بنانی پڑے گی۔ یہ ذخائر صرف پانی محفوظ کریں گے تاکہ وہ زرعی، گھریلو اور صنعتی مقاصد میں کام آسکے۔

شہروں میں ماہرین آب ایک اورجدید تکنیک ’’واٹر سینسٹیو اربن ڈیزائن‘‘ (Water sensitive urban design) اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعے بارشوں کا پانی زیر زمین موجود آب اندختوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ لاہور کے نیچے آب اندختوں کا جال بچھا ہے۔ ان میں درج بالا جدید ترین تکنیک کی مدد سے تربیلا ڈیم جتنا پانی (تقریباً ساٹھ لاکھ ایکڑ فٹ) محفوظ کرنا ممکن ہے۔ گویا پاکستانی شہروں میں ’’واٹر سینسٹیو اربن ڈیزائن‘‘ تکنیک اپنالی جائے، تو زیر زمین آبی ذخائر وہاں پینے کے صاف پانی کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔

بڑھتی آبادی کے باعث اب پورے ملک میں پانی کی ضرورت بڑھ رہی ہے اور وہ اپنی اہمیت کے پیش نظر سونا بن چکا۔اب لازماً ہمیں پانی کے ذخائر درکار ہیں جو اس قدرتی سیال کی بڑی مقدار ذخیرہ کرسکیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام ماہرین سے مشورہ کرکے نئے ڈیم اور آبی ذخائر بنائے تاکہ ایسی تعمیرات بن سکیں جو ماحول کو کم از کم نقصان پہنچائیں جبکہ پانی کی بڑھتی طلب بھی پورا کردیں۔

اگر حکومت نے ذخائر آب تعمیر نہ کیے، تو اگلے چند برس میں خصوصاً پاکستانی شہروں میں پانی کی شدید کمی جنم لے سکتی ہے۔تب شہروں میں پانی کی خاطر دنگے فساد ہو سکتے ہیں۔اب تو یہ نظریہ عام ہو چکا کہ مستقبل میں دنیا بھر میں بڑی جنگیں پانی پر ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔