میں رب کا نہیں اپنی ذات کا پجاری بن گیا

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 30 ستمبر 2018
محبت بھری آنکھ کو محبوب چہرے کا ملنا فطری ہے۔ فوٹو: فائل

محبت بھری آنکھ کو محبوب چہرے کا ملنا فطری ہے۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 14

مجھے بتایا گیا ہے اور میں نے خود بھی بہ غور مشاہدہ کیا ہے کہ جس میں ایثار، مروت، رواداری، تحمل، برداشت، ہم دردی، خودداری اور انسانیت سے پیار نہ ہو وہ کبھی اسرارِ کائنات کو جان ہی نہیں سکتا، سیدھے لفظوں میں کہیں تو وہ کبھی بابا ہوتا ہی نہیں ہے۔ بابا لوگ تو ان خوبیوں کا مرکب اور خزانہ ہوتے ہیں۔ ایسا خزانہ جو انہیں ودیعت کیا جاتا ہے اور وہ اسے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور اُسے وہ جتنا تقسیم کرتے رہتے ہیں وہ اتنا ہی بڑھتا رہتا ہے۔ بابا لوگ انتہائی سخت کوش ہونے کے ساتھ اپنے ہاتھ کی کمائی پر گزر بسر کرتے ہیں۔

وہ جفاکش اور شب بیدار ہوتے ہیں۔ ان کی لغت میں اجنبی نامی کوئی لفظ نہیں ہوتا، سارے انسان بغیر کسی تفریق جنس ان کے اپنے ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب و مسلک، رنگ و نسل اور قبیلے کے بھی ہوں، بل کہ اس سے بھی آگے بڑھ کر، وہ تو اُن لوگوں کے ساتھ بھی انتہائی اچھا برتاؤ کرتے ہیں جو کسی بھی مذہب اور خدا کو نہیں مانتے اور لامذہب ہوتے ہیں۔

وہ رب کی ہر مخلوق بغیر کسی مذہب و ملت کے خدمت گزار ہوتے ہیں، وہ مخدوم نہیں خادم ہوتے ہیں۔ تو طے ہوا کہ وہ خادم انسانیت ہوتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں کہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے تو بس وہ سب کے سجن بیلی ہوتے ہیں۔ ہاں ان میں سے کچھ جلالی مشہور ہوتے ہیں، لیکن ان تمام خوبیوں سے وہ بھی آراستہ ہوتے ہیں، لیکن وہ کسی کو بھی اپنے پاس بھٹکنے نہیں دیتے۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، کیا ایسا کرنا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے؟ ہم کبھی اس پر تفصیلی بات کریں گے۔ جو مجھے بتایا گیا ہے، میں وہ آپ کو ضرور بتاؤں گا۔

میں نے بلیّوں والے بابا جی کو سب سے، چاہے چھوٹا ہو یا بَڑا، مرد ہو یا عورت، انتہائی عاجزی سے بات کرتے دیکھا، انکساری ان میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہم دردی، خلوص اور ایثار ان کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ وہ سب کے لیے دُعاگو تھے، اللہ جی کی مخلوق کے لیے ہر وقت چشم بہ راہ، اُن کے مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت کوشاں اور بغیر کسی صلے، ستائش اور تمنّا کے، کہ وہ بے نیاز کے بے نیاز بندۂ خصوصی تھے، کسی سے کچھ طلب نہیں کرنے والے اور پھر اللہ جی تو ان کی سنتا ہی تھا۔ میں نے راتوں کو خالقِ حقیقی کی بے بس مخلوق کے لیے اُن کی آہ و زاری سنی تھی۔ وہ اپنے لیے کچھ طلب ہی نہیں کرتے تھے۔ بابا جی نظریں ہمیشہ نیچی رکھتے تھے، ایسا لگتا تھا جیسے وہ زمین سے مخاطب ہوں۔

پھر مجھے بتایا گیا کہ جو مخلوق کے لیے سراپا دعا بن جائے وہ صاحبِِ دعا بن جاتا ہے۔ اقبال نے جنہیں میں بابا اقبال کہتا ہوں کہ وہ تھے ہی بابا، کہا ہے: ’’ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ‘‘ بالکل صد فی صد سچ ہے یہ۔ وہ واقعی اللہ جی کا ہاتھ تھے۔ بابا جی مومن تھے، بندۂ رب تھے اور ہم بندۂ نفس ہیں، بندۂ ہوس ہیں، بندۂ زر ہیں، بندۂ بے کار و بے مصرف ہیں۔ ہم اللہ جی کا ہاتھ نہیں ہیں۔ یہ سعادت عظمیٰ اُسے ملتی ہے جس کا ہاتھ کُھلا ہوا، دل کُشادہ اور جس کی آنکھ اللہ جی کی مخلوق کے لیے خزانۂ اشک ہو۔ اور اللہ جی کی مخلوق صرف انسان نہیں ہیں چرند، پرند، درند، شجر، حجر سب کچھ اللہ جی کی مخلوق ہے۔

انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ اللہ جی کا چہیتا ہے۔ میں نے بابا جی کو کبھی غصے میں نہیں دیکھا، ہمیشہ مسکراتے، ہاں ایک مرتبہ ضرور انہیں تکلیف کی شدت سے جلال میں دیکھا۔ ہوا یُوں کہ ایک مرتبہ ایک صاحب سفید کڑکڑاتے ہوئے کپڑوں میں ملبوس اپنے مصاحبین کے ساتھ جن میں کچھ لوگ اسلحہ بردار بھی تھے، بابا جی کے حضور آئے۔ عجیب سی رعونت اس کے چہرے پر ملی ہوئی تھی، آتے ہی اس نے بہ آواز بلند کہا: ’’ہاں جی بزرگو سلام علیکم! بابا جی نے کوئی جواب نہیں دیا، ایسا لگتا تھا جیسے انہوں نے اسے نظر انداز کردیا ہو۔

اس نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور بولا: بزرگو ایک نظر ادھر بھی ڈالیں، اتنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر ہم بہت دور سے آئیں ہیں، آپ کو خوش کردیں گے۔‘‘ بس پھر کیا تھا، بابا جی نے قہر بھری نظروں سے اسے دیکھا اور میں نے ان کی آواز سنی: تُو مجھ پر احسان کر رہا ہے، میں نے تو تجھے نہیں بلایا، اور تیرے سلام کا جواب میں کیوں دوں، صبح جب تیری ماں نے تجھے ڈرتے ڈرتے سلام کیا تو تُونے انہیں کیا کہا تھا، یہی ناں کہ جا جا اپنا کام کر بُڑھیا، مجھے تیرے سلام کی ضرورت نہیں ہے، یہی کہا تھا ناں! دفع ہوجا میری نظروں کے سامنے سے ورنہ تجھے یہیں کسی قبر میں گاڑھ دیں گے، تُو ماں کا نہیں بنا جس نے تجھے جنم دیا۔

جس نے تیری خاطر مصیبتیں جھیلیں، راتیں سیاہ کیں، دُکھ سہے اور تُو ان کے مال پر بھی قابض ہوگیا اور اُسے دھتکارنے بھی لگا، جا اپنی راہ لے اور سُن کان کھول کے سُن آئندہ میں نے تجھے اس جگہ کے آس پاس بھی دیکھا تو انجام بہ خیر نہیں ہوگا، اگر تیرے کرتوت یہی رہے تو انجام تو تیرا ویسے بھی بہ خیر نہیں ہوگا، لیکن آنا تو تجھے یہیں ہے، چل اپنی راہ لے اور ہاں کان کھول کے سُن، کیا کہا تھا تُو نے، مجھے خوش کردے گا، یہی کہا تھا ناں تو سُن جا، جاکر اپنی ماں کو خوش کر بدبخت کہ جس کا تجھ پر حق ہے۔

اگر تیری ماں تجھ سے خوش ہوجائے تو سمجھ لینا میں خوش ہوں۔ بابا جی یہ کہتے ہوئے اشک بار ہوئے۔ وہ صاحب پہلے تو خاموش رہے پھر بولے: بابا جی مجھے معاف کردیں۔ جا پہلے اپنی ماں سے ان کے پاؤں پکڑ کے معافی مانگ اور اس سے ہر کام کی اجازت لینا، اور اگر تیری ماں اجازت دے تب میرے پاس آنا، بابا جی یہ کہتے ہوئے خاموش ہوگئے۔ وہ صاحب سر جھکا کر چلتے بنے۔ کیا کہانی تھی اس کی، کیوں اور کہاں سے آیا تھا وہ، میں جاننا چاہتا تھا لیکن بابا جی کے جلال کی وجہ سے نہ پوچھ سکا۔

یہ جو شُکر گزار بندے ہیں ناں یہ راز حقیقت کو جانتے ہیں، شُکر گزاری کوئی معمولی وصف نہیں ہے، جو شُکر گزار ہو بس وہی راضی بہ رضائے الٰہی ہوتا ہے، بغیر شُکر گزار بنے انسان پیکر تسلیم و رضا بن ہی نہیں سکتا، اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان شُکر گزار بنے، لیکن کس کا شُکرگزار۔۔۔۔۔ ؟ تو بتایا گیا ہے کہ مجسم تشکر ہونا چاہیے انسان کو جس سے وہ فائدہ اٹھائے اس کا شکریہ ادا کرے۔ انسان کا شکر گزار تو ہونا ہی چاہیے لیکن اصل میں تو ہر ایک کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے، جس سے اس نے کوئی ذرا سا بھی فیض پایا ہو، جیسے کسی درخت کے سائے میں بیٹھے یا اس کا پھل کھائے تو خالق کے ساتھ اُس درخت کا بھی شکریہ ادا کرے، کیا آپ درختوں کو بے جان و بے حس سمجھتے ہیں، نہیں جناب درخت بے حس نہیں انتہائی حسّاس ہوتے ہیں۔

کریں گے اس پر کبھی بات۔ تو جس سے فیض اٹھائے اس کا شکر گزار بنے، بات کچھ الجھ گئی ہے اور آپ سمجھ نہیں پارہے تو اس میں آپ کا کیا دوش! میں سیدھی بات کرنے سے نابلد ہوں اور میں خود ہی اب تک نہیں سمجھ سکا تو آپ کو کیسے سمجھاؤں، لیکن میں یہ کوشش ضرور کروں گا، باقی رب سائیں جانے۔

دیکھیے جو انسان کا شُکر گزار نہ ہو وہ رب کا کیا ہوگا! جو مخلوق سے محبت نہ کرے وہ خالق سے کیسے کرسکتا ہے ۔۔۔۔ ! محبوب کے پاؤں کی تو دُھول بھی معتبر ہوتی اور معطر لگتی ہے، محب تو محبوب کی ہر ادا پر نثار اور اس کی بے اعتنائی میں بھی پیار تلاش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان مصوّر سے عقیدت و عشق کا دعویٰ کرے اور اس کی بنائی ہوئی تصویروں کو نیست و نابود کرتا پھرے، کیا خالق کی بنائی ہوئی مخلوق کو قتل کرنا خالق کا انکار نہیں ہے! لیکن رنگ برنگی دنیا ہے یہ اور نت نئے انسان ۔۔۔۔۔ ہر ایک دوسرے سے جُدا۔ وادی مہران کے سوہنے شاہ سائیں لطیف نے کہا ہے ناں: ’’سانپ دیکھنے میں بہت خوب صورت ہوتے ہیں لیکن ان کے پہلو میں شہد نہیں زہر بھرا ہوتا ہے۔‘‘ بہت سے ملتے ہیں یہاں۔

آوارگی جو میری سرشت میں گندھی ہوئی ہے، شہر شہر گاؤں گاؤں قریہ قریہ دشت و بیاباں، حجر و شجر سے باتیں کرتا ہوا میں رواں تھا تو اس سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ مجھ سے ایک دن اُس نے پوچھا: ’’تم نے جگنو دیکھا ہے؟‘‘

میں نے کہا: ہاں کیوں نہیں … بہت سے جگنو، چمکتے ہوئے، جنگل کی رات، سنّاٹا اور جگنو۔

پھر میں نے اس سے کہا: میں نے تو بیر بہوٹیاں بھی دیکھی ہے۔

’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘

تم نے نہیں دیکھی بیر بہوٹی؟

’’نہیں تو‘‘ اس نے معصومیت سے کہا۔ تب میں نے اسے بتایا: برسات برس کر تھم گئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا مسکرا رہی تھی۔ میں گاڑی چلاتا ہوا گاؤں کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا دونوں طرف درخت اور سناٹا۔ تب مجھے چائے کی طلب ہوئی۔ بہت دور نکل گیا تھا میں کہ ایک چھپّر ہوٹل نظر آیا میں نے گاڑی سڑک سے نیچے اتاری اور ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔

’’صاحب چارپائی گیلی ہے۔‘‘ کوئی بات نہیں، میں نے کہا۔ چائے مل جائے گی؟ تب اس نے آواز دی ’’خانے چائے بنا۔‘‘ ایک نوجوان چھپر کے پیچھے سے برآمد ہوا۔ ایک نظر مجھ پر ڈالی اور چائے بنانے لگا۔

آپ اس طوفان میں اکیلے کہاں سے آرہے ہیں؟

میں نے مسکرا کر اسے دیکھا، میں تمہیں اکیلا نظر آرہا ہوں۔۔۔ ؟

تو وہ حیرت سے بولا ’’آپ اکیلے ہی تو ہیں۔‘‘

دو فرشتے تو میرے کاندھے پر بیٹھے ہوئے ہیں، میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تب وہ بہت ہنسا، میں نے چائے پی تو وہ پیسے لینے سے انکاری ہوگیا۔ میں نے کہا، لے لو تو کہنے لگا ’’آپ دعا کریں بس‘‘ عجیب آدمی تھا وہ، اب کہاں رہ گئے ایسے لوگ، کم ہیں لیکن اب بھی ہیں، دنیا کبھی ایثار کیش انسانوں سے خالی نہیں رہی اور نہ کبھی ہوگی۔ مجھے چائے دے کر وہ نوجوان پھر چھپّر کے پیچھے چلا گیا تو تجسس مجھے اس کے پاس لے گیا۔ میں نے پہلی مرتبہ اتنی ساری بِیر بہوٹیاں ایک ساتھ دیکھیں … نرم و نازک، لال سُرخ اور مخمل کی طرح ریشمی۔ وہ نوجوان انھیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے ایک اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لی اور فوراً ہی اسے نیچے رکھ دیا تو وہ مسکرایا۔

’’صاب یہ تو بہت معصوم ہیں، کاٹتی نہیں ہیں۔‘‘ میں نے کہا اچھا!

’’ صاب انھیں ماچس کی ڈبیا میں بند کرکے دوں؟ گھر جاکر بوتل میں ڈال لینا۔‘‘

میں نے کہا کیوں ۔۔۔۔ ؟

’’ بہت خوب صورت لگیں گی۔‘‘

تب مجھے کہنا پڑا، کیا ضروری ہے خوب صورتی کو قید کردیا جائے! وہ یہاں خوب صورت لگ رہی ہیں۔ بوتل میں اداس ہوجائیں گی اور پھر ایک دن مرجائیں گی، نہیں نہیں، انھیں یہیں رہنے دو، ابھی میں نے ایک اٹھائی تھی تو اس نے مجھ سے کہا تھا: آپ کیسے انسان ہیں، میری ہم جولیوں سے جدا کردیا مجھے، تب مجھے اسے رکھنا پڑا اور معذرت کرنا پڑی۔ وہ میری باتیں سن کر پریشان ہو رہا تھا۔

میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر ایک سفر، زندگی کی طرح طویل تنہا سڑک، یادیں اور باتیں، آنسو اور قہقہے ۔۔۔۔۔ میری ساری زندگی اسی طرح گزرگئی۔ مجھے یہ سب کچھ میرے بابوں نے بتایا تھا، ایسے ویسے بابے نہیں جیسے آج کل کے بہت سے ہیں، کھاؤپِیر، اپنے نفس کے پُجاری، معصوم خلق خدا کو گم راہ کرنے والے، عیّار و مکار۔ وہ تو دانش مند تھے اپنے لوگوں کی خدمت پر معمور، وہ گاتے تھے، ناچتے تھے۔

مصیبت میں سب کے ساتھ کھڑے ہوجاتے اور خلق خدا کے ہر پل کام آتے، تعصب، نہیں بالکل بھی نہیں، تعصب تو انہیں چُھو کر بھی نہیں گزرا تھا، وہ ہر انسان کو بس انسان سمجھتے تھے، کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے، ہندو، مسلم، سکھ، مسیحی، نہیں، کبھی نہیں، بے ریا اور بے لوث۔ وہ اگر نہ ہوتے تو میں نہ جانے کس گڑھے میں پڑا ہوتا۔ وہ تو میں اب بھی گر جاتا ہوں لیکن انھوں نے ایسا چمتکار کیا کہ گڑھے میں گرنے سے بچانے والے پیدا کردیے۔ ورنہ تو میں نے دلدل میں دھنسنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

میں خود کو ہی اہم سمجھتا ہوں۔ کوئی مجھ سے محبت سے پیش آئے تو اس کے خلوص کی قدر نہیں کرتا، بل کہ اسے اپنا حق سمجھ بیٹھتا ہوں۔ میں اسے نعمت نہیں، اپنا استحقاق سمجھ بیٹھتا ہوں۔ یہی کچھ کیا ہے میں نے۔ میں ہر خوش بُو کو بوتل میں قید کردینا چاہتا ہوں، جب کہ خوش بُو تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔ میں خود جینا چاہتا ہوں، اس لیے کسی کو جیتے دیکھ کر کسی کو ہنستے دیکھ کر مجھ پر غشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ میں خود پر کبھی غور نہیں کرتا کہ تنگ دلی جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگیا ہوں، میں دوسروں کی ٹوہ میں لگا رہتا ہوں۔ میں اپنی خامیوں، جنھیں میں چُھپانے کے لیے اتنی محنت کر رہا ہوں، اس سے بہت ہی کم محنت میں ان سے نجات حاصل کرسکتا تھا۔ لیکن نہیں، میں تو خود کو بیمار ہی نہیں سمجھتا تو علاج کیسا! کتنا سفاک ہوگیا ہوں میں۔ اس اندھے کا کیا علاج جو قدم قدم پر ٹھوکر کھائے اور خود کو اندھا ماننے سے انکار کردے۔

مجھے اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ زبان سے نہیں روح کی گہرائی سے نکلی ہوئی بات سفر کرتی، خوش بُو پھیلاتی، لوگوں کو مہکاتی اور روح میں اتر جاتی ہے۔ میں خود کو بڑا فصیح البیان سمجھ بیٹھا ہوں۔ مجھے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب کرم ہے، توفیق ہے یہ جو میری آنکھ میں آنسو ہیں، یہ لطف و کرم ہے، یہ جو میرے ارد گرد بہار ہے عنایت ہے، میں سوچتا ہی نہیں، میں رب کا نہیں اپنی ذات کا پجاری بن گیا، خود کو پُوج رہا ہوں، خود نمائی خود ستائی اور خود فریبی کا شکار ہوگیا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میری چرب زبانی سے زندگی کی پریشانیاں اور پستیاں ختم نہیں ہوسکتیں، مجھے خود بدلنا ہے، خود کو بیمار سمجھوں گا تب ہی تو میرا علاج ہوگا، لیکن میں دوسروں کو بیمار سمجھ بیٹھا ہوں۔

مجھے ہر ایک سازش کرتا نظر آتا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے ہر آنکھ میری نگرانی کررہی ہے۔ میں ایک عجیب چکر میں گھوم رہا ہوں اور سمجھ ہی نہیں پارہا۔ مجھے سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی ایک درخت ہے جسے سانس کی آری مسلسل کاٹ رہی ہے۔ ہاں میں ایک دن نہیں رہوں گا، مجھے تو یہ کرنا چاہیے کہ میں نہ رہوں تو میری باتیں رہیں، میری خوش بُو رہے، میرا خلوص رہے۔ میں جسم کو بچانے کے چکر میں اپنی روح کو مار چکا ہوں، میں بہت خسارے میں ہوں اور رب سے کہتا بھی نہیں کہ مجھے اس مرض سے نجات دے۔

بہت لمبی سڑک تھی وہ ۔۔۔۔ اور میں یہی سوچ رہا تھا۔ پھر میں ان کے پاس پہنچا۔ دوست کے پاس، جن سے میں ہر بات کرسکتا تھا، ہر بات دریافت کرسکتا تھا۔ ہاں پھر میں نے سنا مجھے یاد ہے۔

’’دوست اور دشمن انسان کی اپنی پسند اور ناپسند کے مظاہر ہیں۔ محبت اور نفرت انسان کے اپنے مزاج کے حصے ہیں، جو انسان سراپا محبت ہو اسے دنیا میں کوئی انسان قابلِ نفرت نظر نہیں آتا۔ محبت بھری آنکھ کو محبوب چہرے کا ملنا فطری ہے۔ اپنی نظریں نظارے کو حُسن بخشتی ہیں۔ اپنا دل ہی سرِِ دل براں ہے۔ اپنا ذائقہ خوراک کو لذیذ بناتا ہے۔ اپنی حقیقت کو دریافت کرو تو کائنات کی حقیقتیں آشکار ہوجائیں گی۔ خود آگہی، خدا آگہی۔ اپنی سماعت کی اصلاح کرو تو آوازِ دوست مل جائے گی۔ نظر عطا کرنے والا نظاروں میں جلوہ گر ہے، ہم جس کے لیے ہیں وہی ہمارے لیے ہے۔ دنیا یا آخرت، جسم یا روح، ظلمات یا نور ۔۔۔۔۔ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔ آسمان سے نور آتا ہے۔ روٹی زمین سے پیدا ہوتی ہے۔ زمین و آسمان کا رشتہ ہمارے دم سے ہے۔ انکار و اقرار ہمارے اپنے نام ہیں۔ بلندی اور پستی ہمارے اپنے مقامات ہیں۔ ہم خود ہی گُم ہوگئے تو اس میں کسی کا کیا دوش!‘‘

نجانے کیا کہنا چاہ رہا تھا، کیا کہہ گیا ہوں۔

دیکھا ہی نہ ہو جس نے کبھی خاک سے آگے

کیا اس کو نظر آئے گا افلاک سے آگے

شامل تو ہیں ہم قافلۂ ہوش و خرد میں

جانا ہے مگر منزلِ ادراک سے آگے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔