برداشت

امجد اسلام امجد  اتوار 30 ستمبر 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

فوک لور، یا عوامی ادب میں آپ کو بعض اوقات بہت پیچیدہ سوالوں کے ایسے آسان اور برمحل جواب مل جاتے ہیں کہ بندہ حیران بھی رہ جاتا ہے اور ان گزرے ہوئوں کی ذہانت، معاملہ فہمی اور بصیرت کی داد دینے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے جنھوں نے کالج اور یونیورسٹی تو کیا شاید کسی اسکول کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔

اسی طرح رکشوں، بسوں اور ٹرکوں وغیرہ کے پیچھے لکھی ہوئی کوئی کوئی بات بھی ایک جہان معنی کا در وا کردیتی ہے اور کوئی بظاہر مزاحیہ اور بچگانہ سا جملہ کئی کتابوں پر بھاری پڑجاتا ہے۔ مثلاً یہ بات کہ ’’پاس کر یا برداشت کر‘‘ آپ نے اکثر رکشوں اور بسوں وغیرہ کے پیچھے لکھا دیکھا ہوگا اور اس کی برجستگی پر مسکرائے بھی ہوں گے لیکن ذرا غور کیا جائے تو یہ جیسا نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ گہرا، بامعنی اور ایک سطح پر فلسفیانہ بھی ہے کہ اس میں ہماری زندگی کی ایک بہت بڑی حقیقت کو چند لفظوں میں سمو دیا گیا ہے۔

ایک انگریزی محاورے کے مطابق ’’بھکاریوں یعنی ہاتھ پھیلانے والوں کی کوئی اپنی پسند نہیں ہوتی۔ یہ دینے والے کی مرضی ہے کہ وہ کیا دیتا ہے یا سرے سے نہیں بھی دیتا۔ اسی طرح پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ ’’جھتے کہنا ’’جی‘‘ اوتھے کہنا کہیہ؟‘‘ یعنی جہاں سر ہی جھکا دیا تو پھر بحث کی گنجائش ہی کہاں رہتی ہے۔

اب اگر دیکھا جائے تو ان تینوں باتوں میں مشترک بات وہی ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے انداز میں ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا، مرگ مفاجات‘‘ کہا تھا لیکن یہاں برداشت کے صرف اسی پہلو کی بات کی گئی ہے جس کا تعلق کمزوری اور مجبوری سے ہے جب کہ اس کا ایک دوسرا روپ بھی ہے جس کا تعلق اخلاق، بردباری، رواداری اور ایک دوسرے کو اس کے حصے کی Space دینے سے ہے۔ عام طور پر یہ صورتحال کسی مسئلے یا موضوع پر ’’اختلاف رائے‘‘ کے دوران زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے۔

گزشتہ دنوں میری مادر علمی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ جدید سائنس کی معرفت ایک ایسے مذاکرے میں شریک ہونے کا موقع ملا جس کا موضوع مذہبی شدت پسندی اور عدم برداشت تھا کہ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اور بالخصوص نوجوان نسل ان بہت سے خوبصورت انسانی اوصاف سے محروم ہوتی جارہی ہے جن کی موجودگی معیار زندگی یعنی Quality of Life کو بڑھاتی اور لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ زندگی ان روز و شب اور مہ وسال کی گنتی کا نام نہیں جو ہم اپنی مدت عمر میں گزارتے ہیں بلکہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ جو وقت ہم نے گزارا اس میں کتنی ’’زندگی‘‘ تھی۔

برداشت اور رواداری کا فقدان یوں تو ہماری زندگیوں کے ہر شعبے میں بڑھتا چلا جارہا ہے مگر مذہبی معاملات میں اس کی صورت حال انتہائی خطرناک، غور طلب اور قابل اصلاح ہے کہ اس علاقے میں عام طور پر عقل کا داخلہ ممنوع کردیا گیا ہے اور ہم دین سے روشنی لینے کے بجائے عقیدوں اور فرقوں کی نیم تاریک بھول بھلیوں کا شکار ہوگئے ہیں اور یوں نہ عقل کو راستہ دیتے ہیں اور نہ غیر بنیاد اختلاف رائے کو۔ غالباً اسی طرح کی صورتحال کے ردعمل میں علامہ اقبال نے ’’دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘‘ اور اکبر الٰہ آبادی نے یہ شعر کہا تھا کہ

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں

فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

اس محفل کی سب سے پہلی، دل خوش کن اور حوصلہ افزا بات تو یہ تھی کہ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کا الرازی ہال طلبہ و طالبات کی کثرت کی وجہ سے تنگی داماں کا شکار نظر آرہا تھا۔ پینل کے ممبران میں میرے علاوہ بلال قطب، حبیب اکرم اور ڈاکٹر سعیدہ شامل تھے۔ جن میں سے ہر ایک نے نہ صرف اس موضوع پر اپنے خیالات کا عمدگی سے اظہار کیا بلکہ سامعین کی طرف سے کیے گئے سوالات کے جواب بھی بہت تحمل، محبت اور ذمے داری سے دیے جس کا لب لباب یہی تھا کہ اول تو عدم برداشت کے اس معاملے کو مذہب یا علماء تک محدود کرنا اور اس کی ساری ذمے داری ان پر ڈالنا غلط ہے کہ ایک تو فی الوقت زندگی کے ہر شعبے میں اس کا دور دورہ ہے اور دوسرے ہم نے علمی اور معاشرتی سطح پر دین اور دنیا کی تعلیم سے متعلق افراد کو (مختلف عقائد کے چند بڑے بڑے نمائندوں سے قطع نظر) جس حال میں رکھا ہوا ہے اور جس طرح سے ان کی روزی روٹی کو عقیدہ پرستی اور ذاتی مفادات سے جوڑ کر اور ان کو جدید تعلیم اور تہذیب سے محروم اور دور رکھ کر معاشرے کا ایک ہر اعتبار سے پسماندہ حصہ بنا دیا گیا ہے وہ اپنی جگہ پر ایک غور طلب اور قابل اصلاح مسئلہ ہے کہ ان بے چاروں کا رزق اسی طرح سے ’’عدم برداشت‘‘ میں رکھ دیا گیا ہے جس طرح بعض مخلوقات کا آب و دانہ ہوتا ہی آگ میں ہے۔

جس ماحول میں ان کی ذہنی تربیت ہوتی ہے اور جو باتیں انھیں پڑھائی جاتی ہیں اور جس طرح سے ان کی سوچ کو مفلوج کرکے انھیں اس سسٹم کا حصہ بنایا جاتا ہے اس میں دوسرے کی بات کو سننا، سمجھنا اور اسے اختلاف رائے کا حق یا وہ Space دینا جو ہم اپنے لیے مانگتے ہیں سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ سو ایسے میں ان سے برداشت کی توقع کرنا یا عدم برداشت کا سارا ملبہ ان پر ڈالنا صحیح نہ ہوگا کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر کسی نہ کسی شکل میں یہی کچھ کررہے ہیں۔ سو ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھی، معیاری اور ہمہ جہت تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو اختلاف رائے کے اظہار اور دوسرے کو اپنی بات کرنے کا موقع اور Space دینے کی تربیت بھی دی جائے کہ حق اور خیر کی تلاش کا بہترین راستہ یہی ہے کہ ابتدا ہی سے ذہنی رویوں کو انصاف اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بنیاد پر استوار کیا جائے۔

کیا ٹی وی کے ٹاک شوز میں Dialogue کے بجائے Mono Logue کرنے والے سب کے سب مولانا حضرات ہوتے ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ماہرین اور لاکھوں لوگوں  کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر اسمبلیوں میں آنے والے عوامی نمائندے ایک دوسرے سے بات کرتے اور اپنی اپنی آواز کو زیادہ سے زیادہ بلند کرنے کے چکر میں ’’برداشت‘‘ کی ’’ب‘‘ تک کا خیال نہیں رکھتے۔

کہا جاتا ہے کہ اپنے حق کی حفاظت کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ آپ دوسروں کے جائز حق کی بھی حفاظت اور عزت کریں کہ اسی صحت مندانہ برداشت سے ہی وہ رویے جنم لیتے ہیں جن سے افراد اور معاشرے ترقی کے ان مدارج تک پہنچتے ہیں جن سے زندگی کی مدت مقدار کے بجائے معیار سے پرکھی جاتی ہے اور ایک فرانسیسی مفکر کی یہ بات ہماری زندگیوں کا حصہ بن جاتی ہے کہ

’’مجھے فلاں شخص کی باتوں اور نظریات سے قطعاً اتفاق نہیں ہے اور میں اس کو سخت ناپسند کرتا ہوں مگر جس دن کسی نے اس کے اظہار رائے پر پابندی لگانے یا اس کا یہ بنیادی حق اس سے چھیننے کی کوشش کی میں سب سے پہلے اس کے خلاف آواز اٹھائوں گا اور اس کے کندے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوں گا‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔