کینگروز کو اسپن جال میں الجھانے کی تیاریاں

عباس رضا  اتوار 30 ستمبر 2018
پاکستان کو ایونٹ سے اخراج کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کو ایونٹ سے اخراج کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ فوٹو: فائل

ایشیا کپ میں پاکستان ٹیم ایک فیورٹ کے طور پر میدان میں اتری، گرین شرٹس نوآموز ہانگ کانگ کا باآسانی شکار کرنے میں کامیاب ہوئے،دوسری جانب بھارتی ٹیم کی اسی حریف کے خلاف کارکردگی زیادہ متاثر کن نہ تھی۔

شائقین نے امیدوں کے چراغ روشن کرلئے کہ پاکستان ٹیم خاص طور پر بولرز زبردست فارم میں ہیں اور گروپ میچ میں روایتی حریف کو بھی زیر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن سرفراز الیون نے آسانی سے ہتھیار ڈال دیئے،بیٹنگ بری طرح فلاپ ہوئی اور معمولی ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بولرز بھارتی ٹاپ آرڈر کیلئے ذرا سی مشکلات بھی پیدانہیں کرسکے،سپر فور مرحلے میں افغانستان نے ناکوں چنے چبوا دیئے،شعیب ملک ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے تو ناکامی یقینی نظر آرہی تھی۔

شائقین نے ایک بار پھر آس لگالی کہ چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر بھارت کے خلاف میچ میں شکست کا بدلہ چکادے گی،اس بار بھی کہانی مختلف نہیں ہوئی، بیٹنگ میں تھوڑی بہتری آئی لیکن بھارتی بیٹنگ لائن نے بغیر کسی تردد کے فتح سمیٹ لی۔

بنگلہ دیش کے ساتھ میچ سیمی فائنل کی صورت اختیار کرگیا،اس میچ کیلئے محمد عامر کو ڈراپ کرکے ایونٹ میں پہلی بار جنید خان کو پلیئنگ الیون میں شامل کیا گیا،انہوں نے ابتدا میں ہی کاری ضربیں لگاکر اپنا انتخاب درست ثابت کیا لیکن درمیانی اوورز میں رنز روکنے میں ناکامی کی وجہ سے بنگال ٹائیگرز کو قابل ذکر مجموعہ حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔جواب میں ٹاپ آرڈر میں صرف امام الحق ثابت قدم رہے، دیگر کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔

پاکستان کو ایونٹ سے اخراج کا صدمہ برداشت کرنا پڑا،دیکھا جائے تو ہانگ کانگ کے خلاف میچ کے سوا پورے ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم تینوں شعبوں میں اعتماد سے عاری نظر آئی،ایک عرصہ سے یواے ای کی کنڈیشز میں کھیلنے کا تجربہ رکھنے والوں کی یہاں پلاننگ اور اس پر عملدرآمد کچھ بھی نظر نہیں آیا،افغانستان کے خلاف جیتے تو بڑی مشکل سے،بھارت اور بنگلہ دیش سے ہارنے میں تو بڑی آسانی سے ہتھیار ڈال دیئے۔

چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کا سب سے بڑا ہتھیار فخر زمان تھے، زمبابوے کے خلاف سیریز میں بھی ریکارڈ پر ریکارڈ توڑتے نظر آرہے تھے،ایشیا کپ میں ان کا بیٹ رنز اگلنا ہی بھول گیا، بیشتر میچز میں انہوں نے عجیب و غریب سٹروکس کھیلتے ہوئے اپنی وکٹ کی قربانی پیش کردی، بنگلہ دیش کے خلاف پہلے ہی اوور میں انھوں نے جو شاٹ کھیلا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یواے ای کی سخت گرمی میں ان کی خود اعتمادی مکمل طور پر پگھل چکی تھی۔

فخرزمان ابھی تک ایشیائی میدانوں پر کھیلی گئی 19اننگز میں ایک بھی ففٹی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، اوپنر کی بہترین کارکردگی ان مپچز پر رہی ہے جہاں گیند اچھے بائونس کے ساتھ بیٹ پر آتی ہے، بعض مبصرین انہیں بیس بال سٹروکس کا ماہر قرار دیتے ہیں، یہی بات ڈیوڈ وارنر کے بارے میں بھی کہی گئی تھی۔

آسٹریلوی اوپنر نے اپنی تکنیک پر کام کیا اور کارکردگی میں تسلسل لانے میں کامیاب ہوئے، نہ صرف ون ڈے بلکہ ٹیسٹ ٹیم میں بھی اپنی جگہ بنائی، اگرچہ وہ اب بال ٹمپرنگ سکینڈل کی وجہ سے باہر بیٹھنے پر مجبور ہیں لیکن ان کی بیٹنگ میں نکھار فخرزمان کیلئے ایک مثال ہے، پاکستانی اوپنر کو بہت جلد ہر طرح کی کنڈیشنز میں پرفارم کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا، امام الحق نے بہرحال ٹیم کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بھارت کے خلاف اہم میچوں میں اس وقت وکٹ گنوائی، جب ٹیم کو سخت ضرورت تھی۔

بابر اعظم یواے ای میں گزشتہ مقابلوں کے دوران پاکستان کے بہترین بیٹسمین رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی میں بھی تسلسل کا فقدان لمحہ فکریہ ہے، ٹاپ آرڈر کی ناکامی دیگر بیٹسمینوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجادیتی ہے۔

شعیب ملک نے ایشیا کپ میں ایک سینئر کا کردار ادا کرتے ہوئے چیلنج قبول کئے اور کنڈیشنز کو سمجھتے ہوئے ٹیم کو سہارا دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن ماضی میں کئی بار ٹیم کو مشکلات سے نکالنے والے کپتان سرفراز احمد کی غلطیاں بھی ٹیم مسائل میں اضافہ کرتی رہیں، ذاتی کارکردگی نہ ہونے کا اثر قیادت کے دوران کئے جانے والے فیصلوں پر بھی پڑا، محمد عامر کی کارکردگی مسلسل زوال پذیر ہے، اکا دکا میچز کے سوا وہ کبھی بھی حریف بیٹسمینوں کیلئے خطرے کی گھنٹی نہیں بنتے نظر آئے۔

کم بیک کرنے والے پیسر کی پرفارمنس خراب ہونے کی کئی وجوہات بھی ہیں لیکن حسن علی اور شاداب خان جیسے بولرز کا توقعات پر پورا نہ اترنا مینجمنٹ کیلئے لمحہ فکریہ ہے، ایشیا کپ میں پاکستان کیلئے سب سے مثبت پہلو شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی تھی، نوجوان پیسر نے اپنی رفتار اور جذبے سے روشن مستقبل کی نوید سنا دی ہے، محمدعامر تو ڈومیسٹک کرکٹ میں واپس آگئے، ورلڈکپ تک جنیدخان کو تسلسل کے ساتھ کھیلنے کے مواقع دینے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ بیک اپ بولرز بھی تیار کرنا ہوں گے۔

ایشیا کپ میں پاکستان کیلئے ایک اور پریشان کن بات فیلڈنگ کے معیار کا اچانک پست ہوجانا، گرین شرٹس نے اتنے کیچ پکڑے نہیں جتنے ڈراپ کئے،اس کا اثر بولرز اور پاکستان کی مجموعی کارکردگی پر پڑا، ایک ڈراپ کیچ صرف بولر ہی نہیں پوری ٹیم کا مورال گرا دیتا ہے،گرین شرٹس نے یہ حرکت بار بار کی، نئے فیلڈنگ کوچ گرانٹ بریڈ برن کا پاکستان ٹیم کے ساتھ پہلا تجربہ خوشگوار نہیں رہا ، لگتا ہے اب نئے سرے سے ہوم ورک کرنا ہوگا۔

ون ڈے کرکٹ کا ایشیائی میلہ پاکستان کیلئے کئی سوال چھوڑ کر رخصت ہوچکا، اب یواے ای میں ہی 7اکتوبر سے شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز کی تیاریاں ہیں، انضمام الحق کی سربراہی میں کام کرنے والی سلیکشن کمیٹی نے کینگروز کے خلاف مہم جوئی کیلئے 17رکنی قومی سکواڈ کا کا اعلان کیا، پھر ایشیا کپ میں کوئی میچ نہ کھیل پانے والے شان مسعود کو بھی اے ٹیم میں شامل کرتے ہوئے سکواڈ میں شمولیت کا اشارہ دیدیا۔

یواے ای میں ناقص کارکردگی پرسخت تنقید کا سامنا کرنے والے محمدعامر کو بالآخر ڈراپ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وہاب ریاض کو کم بیک کا موقع دیا گیا، پیسر نے اپنا آخری ٹیسٹ گزشتہ سال اکتوبر میں سری لنکا کے خلاف یواے ای میں کھیلا تھا،حیرت کی بات ہے کہ مکی آرتھر ان کو وکٹیں نہ لینے اور میچ ونر نہ ہونے کے طعنے دیتے ہوئے پلان سے خارج کرتے رہے ہیں۔

اب ایک بار پھر ان کو شامل کرلیا گیا، آئوٹ آف فارم راحت علی اپنا بہترین وقت گزار چکے،پیسر کو باہر بٹھانے کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے، آئی لینڈرز کے خلاف سیریز میں سارے میچ باہر بیٹھ کر دیکھنے والے نوجوان بولر میر حمزہ رواں سال دورہ انگلینڈ اور آئرلینڈ کیلئے نظر انداز کردیا گیا تھا، اب ایک بار پھر سکواڈ میں شامل ہوئے اور ٹیسٹ کرکٹ میں بہتر کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کینگروز کو سپن جال میں پھیلانے کیلئے 3سپنرز کا انتخاب کیا گیا ہے، سٹریس فریکچر کی وجہ سے دورہ انگلینڈ اور آئرلینڈ سے محروم رہ جانے والے لیگ سپنر یاسر شاہ کی واپسی ہوگئی،طویل فارمیٹ کی کرکٹ میں ناتجربہ کار شاداب خان معاون ہوں گے، ماضی میں ون ڈے کرکٹ کھیلتے ہوئے مشکوک بولنگ کے باعث ایکشن قانون کی زد میں آنے والے بلال آصف کو بھی شامل کرلیا گیا ہے لیکن یواے ای میں پاکستان کا ٹرمپ کارڈ یاسر شاہ ہی ہوں گے۔

یواے ای کی کنڈیشنز میں محمد حفیظ کی آف سپن لیفٹ ہینڈرز کیلئے پریشیانیاں پیدا کرسکتی تھی لیکن انہیں نظرانداز کردیا گیا، سعد علی انگلینڈ اور آئرلینڈ کا سیرسپاٹا کرکے ڈیبیو کئے بغیر ہی واپس آگئے تھے، ان کی صلاحیتوں کو پرکھے بغیر ہی باہر کیا جانا افسوسناک ہے، سمیع اسلم کو بھی باہر کردیا گیا، محمد رضوان بھی ریزرو وکٹ کیپرکے طور پر سکواڈ کے ساتھ موجود ہوں گے۔

بیٹنگ کا بوجھ سینئرز اظہر علی اور اسد شفیق کے ساتھ بابر اعظم اور حارث سہیل کو اٹھانا ہوگا، یواے ای کی کنڈیشنز میں مسلسل ناکام ہونے والے فخرزمان کو بدستور شامل رکھا گیا ہے، امکان یہی ہے کہ اظہر علی کے ساتھ امام الحق اننگز کا آغاز کریں گے، پیس بیٹری میں کائونٹی کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے محمد عباس کے ساتھ حسن علی کو بھی شامل کیا گیا لیکن ان کی فارم پر سوالیہ نشان ہے، فہیم اشرف بطور آل رائونڈر ٹیم کیلئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

بال ٹمپرنگ کیس کی وجہ سے سٹیون سمتھ اور ڈیوڈ وارنر کی خدمات سے محروم ہوجانے والی آسٹریلوی ٹیم بھی ٹم پین کی قیادت میں تشکیل نو سے گزر رہی ہے،ایرون فنچ اور ٹریوس ہیڈ جیسے کھلاڑی یواے ای کی کنڈیشنز کو سمجھتے ہوئے قدم جمانے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستانی بولرز دبائو میں آسکتے ہیں،ناتھن لیون کی کمان میں کینگرو سپنرز بھی اپنا جال بچھائیں گے، ایشیا کپ میں ناکامیوں کے بعد ٹیسٹ سیریز میں اعتماد کی بحالی کیلئے پاکستان ٹیم کو اچھی پلاننگ اور بھرپور محنت کی ضرورت ہوگی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔