قومی کھیل ہاکی کا زوال، ذمہ دار خود اولمپیئنز ہیں

میاں اصغر سلیمی  اتوار 30 ستمبر 2018
قومی کھیل کو دوبارہ عروج پر لے جانے کیلئے سابق اولمپئنز کو ایک بار پھر میدان میں آنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

قومی کھیل کو دوبارہ عروج پر لے جانے کیلئے سابق اولمپئنز کو ایک بار پھر میدان میں آنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

توقیر احمد ڈار سابق اولمپئن ہیں، لاس اینجلس 1984ء کی فاتح ٹیم کا حصہ بھی رہے، توقیر ڈار کو منفرد اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ ان کے خاندان کو تینوں بار اولمپکس کی فاتح ٹیموں میں ملک کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل رہا، ان کے والد منیراحمد ڈار روم اولمپکس1960ء اورچچا اولمپئن توقیر ڈار میکسیکو اولمپکس1968ء سکواڈز کا حصہ رہے۔

توقیر ڈار قومی کھیل کی موجودہ حالت زار سے اس قدر دلبرداشتہ ہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم پاکستان سے مطالبہ کر دیا ہے کہ اگر انہیں ہاکی پسند نہیں تو بے شک اس کھیل پر تاحیات پابندی لگا دی جائے، اگر ان کو پی ایچ ایف کے موجودہ عہدیدار پسند نہیں ہیں تو انہیں تبدیل کردیں۔

بلاشبہ پاکستان نے سب سے زیادہ میڈلز ہاکی میں جیتے ہیں لیکن 1994ء کے بعد سے گرین شرٹس عالمی سطح پر کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان ہاکی ٹیم کے وہ کھلاڑی بھی ہیں جنہوں نے اس کھیل میں بڑا نام کمایا، عہدوں کیلئے تو لڑتے ہیں لیکن اب اپنے بیٹوں، بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو اس کھیل میں لانے کیلئے تیار نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ماضی کے سٹارز ہی منہ موڑ لیں تو ہاکی میں بہتری کیسے آسکتی ہے؟ پاکستان کی عالمی ایونٹس میں مسلسل کامیابیوں کی بڑی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ پلیئرز قومی کھیل سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے، بڑوں کی دیکھا دیکھی ان کے قریبی رشتہ داروں میں بھی شوق پیدا ہوتا اور وہ عالمی ہاکی کے افق پر چھا جاتے۔

لاہور کے ایس خرم اور شاہ رخ حقیقی بھائی تھے جنہوں نے 1948ء اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کی، نجم الحسن اسی خاندان سے ابھرے۔ اصغر علی اور قمر بھی سگے بھائی تھے، بھتیجے شاہد علی نے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔

عزیز ملک کے بعد ان کے بیٹے رشید ملک نے بھی نام پیدا کیا، گوجرانوالہ سے لطیف میر کے بیٹے فرخ میر بھی میدان میں اترے، ایم نصیب کے بھتیجوں پرویز مٹھو اور گلریز اختر نے ہاکی سے اپنا مستقبل وابستہ کیا، بڑے بھائی حمیدی نامور کھلاڑی تھے، ان کے بعد رشید جونیئر نے میکسیکو اولمپکس 1968ء میں قومی ٹیم کو چیمپئن بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اولمپئن محمود الحسن کے بیٹے ایاز محمود نے بھی بڑا نام کمایا، منظور جونیئر کے دو بھائی مقصود احمد اور محمود بھی جونیئر اور سینئر ٹیموں کا حصہ رہے، ڈاکٹر غلام رسول چوہدری کے بیٹے اختر رسول نے ہاکی نے نام بنایا، فاروق رسول جونیئر اور خالد اقبال قومی کیمپس کا حصہ رہے، ارشد چوہدری بھی ان کے رشتہ دار تھے جو 1976ء کے اولمپکس مقابلوں میں شریک رہے۔

بعد ازاں ارشد چوہدری کے بھائی افضل چوہدری بھی جونیئر ٹیم کا حصہ رہے۔خواجہ ذکاء الدین کے بیٹے عمران ذکاء بھی جونیئر ٹیم میں شامل رہے۔ فل بیک منظور الحسن کے بعد ان کے بھائی رشید الحسن نے بھی نام کمایا، شہناز شیخ قومی ہاکی ٹیم میں شامل ہوئے اور خوب شہرت پائی، ان کے ماموں زاہد شیخ اور کزن طارق شیخ بھی ہاکی میں آئے۔

روم اولمپکس1960 میں تاریخی گول کرکے پاکستان کو پہلی بار چیمپئن بنوانے والے نصیر بندہ کے بعد ان کے2 بیٹوں آصف نصیر اور ناصر نصیر نے بھی ہاکی کھیلی، لالہ رفیق کے بیٹے عابد زمان بھی اس کھیل سے وابستہ رہے، سگے بھائیوں ایم عظیم اور ایم رشید کے بعد ان کے چچا زاد بھائی ایم اسلم بھی میدان میں آئے۔ہاکی میں ایک اور معروف نام نعیم اختر کا بھی ہے جو فضل الرحمن کے بھانجے ہیں، اسی طرح قمر ضیا اور ریاض الحق بھی بھائی ہیں۔

خواجہ محمد اسلم ہلینسکی اولمپکس کا حصہ تھے، اسی گھرانے سے خواجہ بلال بھی ہاکی کے میدان میں آئے، بھائی خواجہ اویس جونیئر ٹیم کا حصہ رہے، خواجہ محمد جنید نے نام کمایا، قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی رہے، ان کی دو صاحبزادیاں خواجہ شبنم توحید اور ڈاکٹر تبسم شاہین بھی قومی خواتین ٹیم کا حصہ رہیں،اپنے زمانے کے بہترین لیفٹ آؤٹ مطیع اللہ پھر سمیع اللہ کے بعد ہدایت اللہ اور رائٹ آؤٹ کلیم اللہ کو کون نہیں جانتا، معروف اولمپئن سعید انور کے عزیز اسد ملک میونخ اولمپکس میں کپتان رہے،سعید انور کے بیٹے انجم سعید نے بھی ہاکی میں بڑا نام کمایا، نعیم امجد بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

قومی کھیل کو دوبارہ عروج پر لے جانے کیلئے سابق اولیمپئنز کو ایک بار پھر میدان میں آنا ہوگا اور اپنے علاقوں میں اکیڈمیز اور کلبز بنا کر نوجوان نسل کے ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی اس کھیل کی طرف لانے کی ترغیب دینا ہوگی۔

پاکستان کو اب تک 4 بار عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے، آخری بار گرین شرٹس نے شہباز احمد سینئر کی قیادت میں ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ سیکرٹری بھی ہیں اپنی آنکھوں سے قومی کھیل کو سسکتا اور دم توڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں، قومی پلیئرز کی مہارت اور فٹنس کا اندازہ شائقین کامن ویلتھ گیمزاور ایشین گیمز میں کرچکے،کھلاڑیوں کی مایوس کن کارکردگی نے قومی کھیل سے محبت کرنے والوں کا دل کرچی کرچی کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ موجودہ ٹیم میں مہارت ہے، نہ جیت کی تڑپ، محض وقت پاس کر رہے ہیں اور زیادہ تر توجہ لیگز پر ہے۔

ملکی کھیلوں کا جو حال ہے وہ تو سب کے سامنے ہے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ 20 کروڑ سے زائد باسیوں کی سرزمین باصلاحیت کھلاڑ ی پیدا کرنے میں بانجھ دکھائی دیتی ہے جبکہ 50 ،60 اور ایک کروڑ تک کے آبادی کے بیشتر ممالک اولمپکس سمیت دنیا کے بڑے ایونٹس میں میڈلز جیت کر اپنے ملک کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں، ہاکی سے قوم کو عالمی ایونٹس میں میڈلز کی امید ہوتی تھی لیکن اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ دیوار چین، فلائنگ ہارس پکارے جانے والے کھلاڑی کہاں گئے؟

کہاں ہیں وہ اے جی خان، شاہ رخ، بریگیڈیئر حمیدی، ڈاکٹر غلام رسول چوہدری، نصیر بندہ، انوار خان، منیر ڈار، ذاکر سید، خالد محمود، استاد سعید انور، اشفاق احمد، رشید جونیئر، شہناز شیخ، منظورالحسن، اختر رسول، منظورجونیئر، سمیع اللہ، حسن سردار، شاہد علی خان، حنیف خان، اصلاح الدیں صدیقی، شہباز سینئر، سہیل عباس، کہاں گئے وہ دن جب پاکستانی کھلاڑیوں کے اللہ اکبر کے نعرے اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائیوں اور ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو گرما دیتے تھے۔

کہاں گئے وہ دن جب مخالف ٹیموں کے کھلاڑی مقابلے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے تھے، کہاں گئے وہ دن جب دنیا فخر سے کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہو تو پاکستان جاؤ۔کہتے ہیں جب نیتوں میں کھوٹ ہوں تو نتائج بھی ویسے ہی ملتے ہیں، اب عالم یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم عالمی رینکنگ میں ابتدائی10 پوزیشنوں سے بھی باہر ہو کر 13ویں نمبر پر ہے، قومی کھیل کی تنزلی کا سفر کہاں تک جاری رہتا ہے، اس کا ہمیں اورآپکو انتظار رہے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔