محمود خان اچکزئی اور پریس گیلری کا فیصلہ

نصرت جاوید  جمعرات 6 جون 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

محمود خان اچکزئی صرف میرے دوست نہیں بڑے بھائی سے بھی زیادہ محترم ہیں۔ محض خواب نہیں دیکھتے۔ انھیں عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ جب سے سیاست کررہے ہیں، اچھے سے کہیں زیادہ بُرے دنوں کا سامنا رہا۔ پھر بھی آج تک انھیں کبھی اداس،پریشان یا غصے میں نہیں دیکھا۔ ہر حالت میں ٹھنڈے ٹھار اور خوش گفتار۔ اپنے قریب ترین دوستوں پر پورے عزت واحترام کے ساتھ شگفتہ فقرہ کسنا بس ان ہی کا خاصہ ہے۔

قومی اسمبلی میں نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد جو خیر مقدمی تقاریر ہوئیں، ان میں حصہ لینے کی دعوت ان کو بھی دی گئی۔ پریس گیلری میں بیٹھے لوگوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ بس ایک رسمی سی تقریر کرنے کے بعد وہ اپنی نشست پر واپس بیٹھ جائیں گے۔ انھوں نے مگر ہم سب کو بڑی گہری مگر بنیادی باتیں کرتے ہوئے حیران وپریشان کردیا۔ 1990ء سے محمود خان جب بھی قومی اسمبلی کے رکن بنے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے باہمی اختلاف بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر جمہوری قوتوں کے خلاف متحد ہوجانے کی شدت سے تلقین کرتے رہے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے خلاف جب صدر غلام اسحاق خان نے افسر شاہی کے ایک خاص گروہ اور جاسوسی ادارے کے چند لوگوں کو ساتھ ملاکر سازشوں کا جال بچھانا شروع کیا تو بلوچستان سے آیا یہ پشتون قوم پرست پنجاب سے آئے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔

محمود خان کی مسلم لیگ سے کہیں زیادہ دوستیاں پیپلز پارٹی کے لوگوں کے ساتھ تھیں۔ موصوف ان کے سامنے ہاتھ باندھ باندھ کر التجائیں کرتے رہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف سول اور ملٹری بیوروکریسی کی سب سے بڑی علامت اسحاق خان کا ساتھ نہ دیا جائے۔ ان دنوں کوہاٹ کے سید افتخار گیلانی پیپلز پارٹی کی صفوں میں بڑے موثر مانے جاتے تھے۔ انھوں نے محمود خان کا ساتھ دیا۔ خورشید شاہ اور عبدلستار بچانی بھی ان کی سوچ کے حامی بن گئے۔ فاروق خان لغاری، چوہدری الطاف حسین، آفتاب احمد شیر پائو اور غلام مصطفیٰ کھر مگر نواز شریف کو کسی بھی طریقے سے گھر بھیجنے کو بے چین تھے۔

محمود خان نے ان بہت ہی طاقتور لوگوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود حوصلہ نہ ہارا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی سربراہی قبول کرلیں۔ وہ مان گئیں تو محمود خان اچکزئی کے مخالفوں نے پیپلز پارٹی والوں کو طعنے دے دے کر یاد دلانا شروع کردیا کہ آصف علی زرداری اب بھی جیل میں ہیں۔ سازشیوں کے ایک اور گروہ نے نواز شریف کے مرحوم والد کو من گھڑت کہانیاں سنانا شروع کردیں اور بالآخر غلام اسحاق خان اپنا کھیل دکھانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف کی پہلی حکومت برطرف کرنے کے بعد ان کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔ نئے انتخابات کروانا پڑے۔ ان کے ذریعے بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئیں مگر غلام اسحاق خان کو ایوانِ صدر رسواہوکر چھوڑنا پڑا۔

محمود خان 1997ء کی اسمبلی کے لیے منتخب نہ ہوپائے تھے۔ اس کے باوجود جب نواز شریف کی دوسری حکومت کے خلاف غیر جمہوری قوتوں نے اپنا کھیل رچانا شروع کیا تو وہ اسلام آباد آکر ان کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ 2002ء سے 2008ء کی اسمبلی میں بھی ان کا کردار ایسا ہی رہا۔ عدلیہ کی آزادی کے اصول کی خاطر انھوں نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے وہ گزشتہ پانچ سال تقریباََ گمنامی میں رہے۔ مگر عدلیہ کی آزادی کے اصول کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی پر ایک لمحہ کے لیے بھی نادم نہ ہوئے۔ محمود خان ایسا شخص اب قومی اسمبلی میں اُٹھ کر اصرار کررہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ میڈیا، عدلیہ اور عسکری ادارے اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں لیکن اس بات کو بھی تہہ دل سے تسلیم کریں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فیصلہ سازی کی اصل قوت عوام کی منتخب کردہ پارلیمان کے پاس ہے۔

اس ملک کا ہر دوسرا ادارہ اس پارلیمان کے بنائے قوانین کا احترام کرے اور آئین میں طے شدہ حدودوقیود سے کبھی تجاوز نہ کرے۔ محمود خان نے درد بھری آواز میں یہ فریاد بھی کی کہ ماضی میں لگے مارشل لائوں کی عدالتی توثیق نہ کرنے والے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے پسماندگان کو ڈھونڈ کر ایسے منصفوں کی قربانیوں کا ان کے سامنے ریاستی سطح پر اعتراف کیا جائے۔ صرف جج ہی نہیں محمود خان اچکزئی پاک فوج کے سابق سربراہ جہانگیر کرامت کے اس استعفٰے کا بھی ریاستی سطح پر اعتراف مانگتے رہے جو انھوں نے 1998ء کے وزیر اعظم کے سامنے رکھا تھا۔

محمود خان اپنے تئیں بڑی اصولی اور مثبت باتیں کررہے تھے۔ مگر ہم بحیثیتِ قوم مریضانہ حد تک شقی القلب اور شکی مزاج ہوچکے ہیں۔ اس وقت پریس گیلری میں بیٹھے بہت سارے لوگوں کے ماتھے ٹھنکے جب محمود خان نے جنرل مشرف کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کرنا شروع کردیا کہ 1999ء سے 2007ء تک پاکستان کے آئین کو پامال کرتے ہوئے وہ آمر تنہا نہ تھا۔ اس کے اپنے ادارے اور سیاستدانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس ضمن میں جنرل مشرف کا ساتھ دیا۔ احتساب واقعی کرنا ہے تو ان سب کا بھی ہو ورنہ اکیلے مشرف کی تذلیل کا کوئی فائدہ نہیں۔

محمود خان کی باتوں میں چھپے خلوص اور گہرائی کو یکسر فراموش کرتے ہوئے پریس گیلری اور لائونج میں ’’اکثریتی فیصلہ‘‘ یہ ہوا کہ بلوچستان سے آیا پشتون قوم پرست یہ سب باتیں نواز شریف کے گلے میں اٹکے مشرف کے مقدمے سے جان چھڑانے کے لیے کررہا ہے۔ کئی ایک تو دور سے یہ کوڑی بھی لے آئے کہ محمود خان یہ ساری باتیں نواز شریف کی ’’فرمائش‘‘ پر کررہے تھے۔ ایک جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کرنے کے بعد قوم کی منتخب شدہ ایک اور حکومت کو اقتدار منتقل کردیا ہے۔ پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں یہ خوش گوار واقعہ پہلی بار ہوا ہے۔ ہمارے عوام اور خاص کر میرے صحافی بھائیوں کے ذہن مگر ابھی بھی صاف نہیں ہوئے۔ وہ سامنے نظر آنے والی باتوں پر غور کرنے کے بجائے ان کے پیچھے ’’چھپی سازشوں‘‘ کو ڈھونڈنے میں جانے کب تک مصروف رہیںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔