دعا کی فضلیت اور اہمیت

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  پير 1 اکتوبر 2018
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

عبادت کی ایک افضل شکل دعا ہے۔ عبدکی زیر دستی اور معبود کی بالادستی کا برملا اقرار و اظہار ہے۔ دعا عبادت کا جز لاینفک ہے۔ گود سے لے کر گور تک زندگی کے ہر موڑ پر دعا کرنا، دعا دینا، دعا لینا، معمولاتِ زندگی میں معمول کی بات ہے۔ ہر دم بلکہ تادم کا وظیفہ ہے۔ ہر گھڑی چھوٹی ہو یا بڑی ہر تدبیر سے پہلے خیر و برکت کے لیے پہلے دعا ہے۔

ایمان و ایقان کا تقاضا ہے۔قبولیت میں دیر سویر دونوں روا ہے۔ تاثیر میں اکسیر ہے مگر تاخیر دیکھ کر دل شکستہ ہوکر دعا سے بیزار اور فرار سخت گناہ ہے۔ بغیرکسی واسطے اللہ اور بندے کے درمیان صیغہ راز میں ون ٹو ون شرف ملاقات کا ذریعہ ہے۔ موجب تبدیلیٔ قدر و قضا ہے۔ محبوب خداؐ کا اسوۂ حسنہ ہے۔

مسلمان ہر کام کا آغاز اللہ کے نام سے کرتا ہے۔ بسم اللہ اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ اپنی محنت میں برکت اور شیطان کی حرکت سے بچنے کے لیے اللہ کی حفاظت اور پناہ مانگتا ہے۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب بندی اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی اپنے بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے۔ اللہ کی نگاہِ رحم و کرم کو جو چیز ہماری طرف مائل کرتی ہے وہ ہمارا اس کی طرف ہاتھ پھیلانا اور اس سے گڑگڑا کر دعائیں مانگنا ہے۔ دعا سے متعلق قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اے نبیؐ میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ (البقرہ 186)

’’اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو‘‘ (النساء 32)

مندرجہ بالا قرآنی آیات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تک دعائیں پہنچانے کے لیے کسی رابطے اور واسطے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا اپنے بندے سے براہ راست تعلق ہے۔ وہ اپنے بندے کی دعا سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ خوف صرف اللہ کا اور امیدیں بھی صرف اس کی ذات پاک سے وابستہ ہونی چاہیے۔ احساس ندامت کے آنسوئوں کے ساتھ اس سے معافی مانگنا اور اس کی طرف پلٹنا اسے بے حد پسند ہے۔ وہ دعا کے عوض مانگنے والے کو اس کی توقع سے زیادہ فضل فرماتا ہے۔ جب تک ہے دم میں دم، ہر دم اس سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے، اس سے دعا نہ مانگنے والوں کو ٹھکانہ جہنم ہے۔ صاحب قرآن کے ارشادات بھی دعا کے متعلق واضح، صاف اور روشن ہیں۔ ’’دعا عین عبادت ہے‘‘ (احمد، ترمذی، ابو دائود، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر)

’’دعا جان عبادت ہے‘‘ (ترمذی)

’’جو اللہ سے دعا نہیں مانگتا، اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے‘‘ (ترمذی)

’’آدمی جب اللہ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ اسے وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کی جائے‘‘ (ترمذی)

کم علمی یا لا علمی کی وجہ سے عوام الناس میں یہ رائے کثرت سے پائی جاتی ہے۔ جو سراسر غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تقدیر میں جو لکھ دیا گیا ہے وہ دعا سے بدل نہیں سکتا۔ اس نظریہ سے دعا کی فضیلت جو عین عبادت اور جانِ عبادت ہے پر ضرب پڑتی ہے اور لوگ دعا کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جو اس کا حق ہے اور اگر دعا کرتے بھی ہیں تو بے دلی سے، رسمِ وفا نبھانے کے لیے۔ یہ نظریہ اللہ کے اختیارات کو محدود کردیتا ہے اور اس کی ذات کو مجبور اور بے بس۔ فرمان الٰہی ہے ’’مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروںگا‘‘ کے تحت دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے۔ اللہ کا تصور حاکمیت کو سمجھ لیا جائے تو یہ الجھی ہوئی ڈور خود بخود سلجھتی ہے چلی جاتی ہے۔

دلیل دعویٰ کے طور پر مندرجہ ذیل قرآنی آیات گواہ کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔

وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (البقرہ:284)

یہ ہیں آئین قرآن کی سیکڑوں دفعات میں سے چند دفعات جو بطور دلیل دعویٰ پیش کی گئی ہیں۔ قرآن کی رو سے اللہ اپنے بندے کے قریب ہے۔ وہ بندے کی دعا سنتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ اللہ سے دعا مانگتے رہو کا حکم ہے۔

یہ قاعدہ، کلیہ اور اصول کی بات ہے جو صرف اللہ کی ذات تک مختص ہے۔ قرآنی ارشادات کی روشنی میں رسول خدا کا یہ قول ’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتا مگر دعا‘‘ برحق نظر آتا ہے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتا۔ صرف اسلام کے تصور خدا کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور یقین محکم رکھنے کی ضرورت ہے۔

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول قرآن

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف

المختصر درد و سوز میں ڈوبی ہوئی صدا مقام احسان پر پہنچی ہوئی بندے کی دعا شاہد یا مشہود بن کر اللہ کے حضور گڑگڑاکر یا چپکے یا دل ہی دل میں رجوع کرتا ہے تو اللہ کی رحمت جوش میں آجاتی ہے اور ارحم الراحمین اس کی عاجزی، انکساری، جذبۂ بندگی کو دیکھ کر اس کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نواز دیتا ہے اس لیے کہاجاتا ہے کہ دعا، تقدیر بدل دیتی ہے یہ ہے دعا کی شان وعظمت۔ فضیلت و اہمیت، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہردم دعا کو ورد زبان اور رطب اللسان رکھیں اور یہ پختہ یقین رکھیں کہ رب کریم ہماری دعا کو ضرور بالضرور پوری کرے گا کیونکہ یہ اس کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے۔ ذوق یقین کی ضرورت ہے۔

عبادت اگر صورت ہے تو دعا اس کی سیرت، عبادت اگر جسم ہے تو دعا اس کی روح، عبادت اگر پھول ہے تو دعا اس کی خوشبو جو اہمیت سیرت، روح اور خوشبو کی ہے وہی فضیلت اور اہمیت دعا کی ہے جو عبادت، دعا سے عبارت نہیں، وہ ایسی ہے جیسے جسم بغیر روح کے، پھول بغیر خوشبو کے۔ اللہ تو مائل بہ کرم ہے۔ ہمیں خلوص دل سے سائل بننے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظرِ فضل و کرم تو چشم براہ ہے۔ ہمیں دست بدعا ہونے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔