جنرل باجوہ کا دَورۂ چین، سی پیک اور قاہرہ کانفرنس

تنویر قیصر شاہد  پير 1 اکتوبر 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ہمارے ہاں بعض ’’اہلِ دانش‘‘ کے سامنے جب یہ معروف بات کہی جاتی ہے کہ پاک چین دوستی سمندروں سے گہری، پہاڑوں سے بلند اور شہد سے زیادہ شیریں ہے تو انھیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ وہ اِسے مبالغہ خیال کرتے ہیں۔ ایسے’’اصحابِ دانش و فہم‘‘ ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ پاکستانیوں کو اِس غیرحقیقی اور مبالغہ آمیز فضا سے باہر نکل کر حقائق کی دُنیا میں سانس لینا چاہیے۔ اُن کا خیال ہے کہ پاک چین دوستی میں تینوں مذکورہ عناصر کا کہیں بھی وجود نہیں ہے۔

اگر کسی شئے کا کوئی وجود ہے تو وہ اِن دونوں قریبی ممالک میں باہمی مفادات ہیں جو دونوں کو منسلک کیے ہُوئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں ایسے تبصروں اور ’’حقائق آشنائی‘‘ سے اعراض برتنا چاہیے۔ جہاں محبت، دوستی اور گہرا تعاون کارفرما ہو، وہاں اگر تعلقات کی گرمجوشی کے اظہار کے لیے مبالغہ آمیز الفاظ بھی استعمال کر لیے جائیں تو کوئی حرج ہے نہ گناہ۔

واقعہ یہ ہے کہ جب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری ، جسے ’’سی پیک‘‘ کے مختصر نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کے 60 ارب ڈالر کے معاملات آگے بڑھنے لگے ہیں، پاکستان کے اندر اور باہر کئی عناصر اور گروہوں کے پیٹ میں بَل پڑ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’سی پیک‘‘ بھی بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی معاندینِ ’’سی پیک‘‘ کے پیٹ میں اُٹھتے مروڑوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دَور میں بھی کئی لوگ ایسے تھے جو ’’سی پیک‘‘ کے بارے میں غیروں کی زبان بول کر غلط فہمیوں کو فروغ دینے میں لگے رہتے تھے ۔ الحمد للہ، ایسے عناصر کی خواہشات پوری ہُوئی ہیں نہ پروپیگنڈہ کامیاب ہو سکا ہے۔ ان بدگمان افراد نے مگر ہمت نہیں ہاری ہے۔ اُن کی مخالفت بدستور جاری ہے۔

عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں تو بھی ’’سی پیک‘‘ کے خلاف کئی آوازیں اُٹھتی سنائی دے رہی ہیں۔ ان آوازوں پر نواز شریف نے کان دھرا تھا نہ خان صاحب کان دھرتے دکھائی دے رہے ہیں؛ چنانچہ ناکام مخالفین کی مایوسیاں قابلِ دید ہیں۔معاندینِ ’’سی پیک‘‘ بھی بخوبی جان چکے ہیں کہ یہ راہداری اب محض اقتصادی معاملہ نہیں رہ گیا بلکہ آگے بڑھ کر دونوں دوست ممالک کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات کی نوعیت کا حامل بے مثال منصوبہ بن چکا ہے۔

اِس منصوبے کی بنیادیں اگرچہ پاکستان کی سول حکومتوں نے رکھیں لیکن اس کی حفاظت اور سیکیورٹی کی ذمے داری پاک فوج نے لے رکھی ہے۔ وہی اس کے ضامن ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے زیر تکمیل منصوبوں پر کام کرنے والے ہزاروں چینیوں کی ہر قسم کی حفاظت ہمارے سیکیورٹی اداروں کا ذمے ہے۔ چین بھی ہماری افواج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی اور اہلیت پر گہرایقین رکھتا ہے۔

اِسی پس منظر میں پچھلے ہفتے سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کا دوروزہ دَورہ کیا تو پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کی ہمیشہ دعائیں مانگنے والے پاکستانیوں کو یقینِ کامل تھا کہ اُن کا دَورہ پاکستان کی حفاظت وطاقت، معاشی خوشحالی اور باہمی تعلقات کے مزید استحکام ہی کا باعث بنے گا۔حقیقت یہ ہے کہ جب سے نئی حکومت نے عنانِ اقتدار سنبھالی ہے، چینی حکومت کی ہر قابلِ ذکر شخصیت نے ’’سی پیک‘‘ جاری رکھنے اور اس کی حفاظت کے بارے میں خصوصی طور پر اظہارِ خیال ضرور کیا ہے۔

خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دَورہ کیا تو بھی ’’سی پیک‘‘ کا ذکر اُن کے لبوں پر تھا۔ پاکستان میں متعین چینی سفیر جب بھی ہمارے آرمی چیف سے ملاقات کرنے جی ایچ کیو جاتے ہیں، سی پیک کا ایجنڈا ہی سرِ فہرست سنائی دیتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ چین کسی صورت میں بھی ’’سی پیک‘‘ کو ادھورا نہیں چھوڑناچاہتا۔ ہاں ، اگر پاکستانیوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ ’’سی پیک‘‘ کی شرائط کو سامنے لایا جائے تو اِنہیں سامنے لایا جانا چاہیے تاکہ شک اور ابہام کی دھند چھَٹ سکے۔ شرائط کو راز کی پٹاری میں رکھنا قابلِ فہم بھی نہیں لگتا۔ وزیر منصوبہ بندی ، خسروبختیار، نے مگر پاکستان آئے آئی ایم ایف کے وفد کو سی پیک کنٹریکٹس کی تفصیلات دینے سے انکار کر کے اچھا اقدام کیا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دَورۂ چین ہر لحاظ سے کامیاب تھا۔ اُن کی نہ صرف چینی افواج کے سربراہ سے مفصل اور سیر حاصل ملاقاتیں رہیں بلکہ چین کے معزز صدر جناب شی چنگ پنگ سے بھی میٹنگ ہُوئی۔ ان ملاقاتوں میں اعلیٰ درجے کے حامل فریقین نے ایک بار پھر پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا عہد کیا بلکہ ’’سی پیک‘‘کو بھی ہر صورت میں منزلِ مقصود تک پہنچانے کی یقین دہانیاں کروائی گئیں۔

سی پیک کو پاکستان میں جس اسلوب میں تمام مطلوبہ سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے، چینی قیادت نے جنرل باجوہ کا اس معاملے میں خصوصی شکریہ ادا کیا ۔ پاک فوج کی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا گیا اور چینی سپہ سالار جنرلZhang  نے ہمارے سپہ سالار کو مبینہ طور پر یہ بھی کہاکہ’’ پاکستان آرمی پاک چین تعلقات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘

یوں یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ جنرل باجوہ کے یہ دَورے پاکستان کے لیے اعلیٰ سفارتی خدمات بھی انجام دینے کا باعث بن جاتے ہیں۔ جنرل باجوہ کے اِس دَورۂ چین کا فوری اور سب سے بڑا فائدہ وطنِ عزیز کو یہ پہنچا ہے کہ دشمنانِ پاکستان’’سی پیک‘‘ کے بارے میں جو منفی مہمات جاری رکھے ہُوئے تھے اور جو افواہیں چھوڑی جا رہی تھیں، سب کا خاتمہ بھی ہو گیا ہے اور سب کے منہ بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ جنرل باجوہ کا یہ کامیاب دَورۂ چین توبھارتیوں کے لیے ایک ایسی کڑوی گولی ثابت ہو رہا ہے جسے نگلنا اُن کے لیے ناممکن ہے۔

ہر پاکستانی کی آرزو ہے کہ ’’سی پیک‘‘ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اِس کے ثمرات آہستہ آہستہ پاکستانی عوام تک پہنچیں گے۔ اگر کہیں کوئی خامی ، کوئی کجی یا مبہم بات تھی بھی تو چینی حکام اب نئے سرے سے پاکستانیوں کو ’’سی پیک‘‘  میں اکاموڈیٹ کرنے کی کوششیں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔یہ نئی ڈویلپمنٹ ہے اور اِس کا سہرا خانصاحب کی نئی حکومت کے سر بندھنا چاہیے۔

فی الحقیقت’’سی پیک‘‘ کی تکمیل ہمارے لیے عزت اور وقار کا مسئلہ بھی بن چکا ہے۔ اِسے ہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے، بصورتِ دیگر ہمارے دشمن اپنی چالوں کی کامیابی پر رقص کریں گے۔ ہم انھیں کبھی یہ موقع نہیں فراہم کریں گے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وسعتوں اور کامیابیوں کی بازگشت مصر کے دارالحکومت، قاہرہ، تک بھی جاپہنچی ہے۔

پچھلے ہفتے ہی قاہرہ میں حکومتِ پاکستان اور پاکستان کے مشہور تھنک ٹینکSASSIکے باہمی تعاون سے ’’سی پیک‘‘ کی نعمتوں کے پھیلاؤ کو سائنٹفک انداز میں یاد کرنے کے لیے قاہرہ میں دو روزہ کانفرنس ہُوئی ہے۔ مذکورہ تھنک ٹینک کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ سلطان اور ہمارے وفاقی وزیر منصوبہ بندی، خسرو بختیار، کا اس کانفرنس میں خطاب عرب دانشوروں، صحافیوں، بزنس کمیونٹی کے سینئر ارکان اور مصری حکام کے لیے چشم کشا تھا۔ قاہرہ کانفرنس میں نہ صرف پاکستان اور مصر کے درمیان 70سالہ تجارتی و سفارتی تعلقات کی یادیں تازہ کی گئیں بلکہ ’’سی پیک‘‘ کو بحیرۂ عرب کے ذریعے نہر سویز سے ملانے کی تجاویز بھی سامنے لائی گئی ہیں۔

بحری تجارتی جہازوں کے توسط سے نہر سویز کا جب گوادر کی بندرگاہ سے انسلاک عمل میں آئے گا تو پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کو ناقابلِ تصور بڑھوتری ملے گی۔ ہمارے لیے بحری تجارتی راستوں کے نئے ایونیوز کھلیں گے۔ ہمارے ہاں تو قاہرہ کانفرنس کا ذکر کم کم سنائی دیا ہے لیکن عرب دُنیا نے ’’سی پیک‘‘ کے حوالے سے اِسے توجہ کا مرکز بنایا ہے۔

اِس حوالے سے سعودی عرب کے ممتاز انگریزی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ نے25ستمبر2018ء کو اپنے دو تجزیہ کاروں (محمد الشمعیٰ اور یاسمین عیسیٰ)کی جو تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے ، نہایت دلکشا بھی ہے اور اُمید افزا بھی۔ اِس رپورٹ میں مستقبل کے حوالے سے ’’سی پیک‘‘ کی وسعتوں اور پھیلاؤ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اب تو خود سعودی عرب نے پاکستان میں ’’سی پیک‘‘ کے تین بڑے پراجیکٹوں، جو اربوں  ڈالر کی مالیت کے ہیں،میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔یہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کی خوش قسمتی ہے۔ انشاء اللہ ’’سی پیک‘‘ کے سبھی دشمن خاک چاٹیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔