بڑی طاقتوں کا عالمی اور اخلاقی جرم

ظہیر اختر بیدری  پير 1 اکتوبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

’’ایران نے مذاکرات کی امریکی پیشکش مسترد کر دی ۔‘‘ یہ ایکسپریس کی پانچ کالمی سرخی تھی ، اس سرخی پر نظر ڈالنے سے یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ امریکا جیسے امن پسند ملک کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر کے ایران نے نہ صرف امن کی امریکی پیشکش ٹھکرا دی ہے بلکہ دنیا کی سپر پاورکی توہین کی ہے۔ یہ امریکا کے صدر کی عیارانہ سیاست کی ایک چال ہے۔

امریکی صدر نے اس فراخدلانہ پیشکش کے ساتھ یہ وضاحت نہیں کی کہ ایرانی حکام امریکا سے بار بار مطالبہ کرتے رہے کہ 2015ء میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والا ایٹمی معاہدہ جسے اقوام متحدہ اور دوسری بڑی عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی منسوخ نہ کرے، لیکن امریکا کے آمر صدر نے ایران کی ایک نہ سنی اور یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو منسوخ کر دیا۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ امریکا نے معاہدہ نہ توڑنے کے ایرانی اصرار کے باوجود ایٹمی معاہدہ یکطرفہ طور پر توڑ کر ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

واضح رہے کہ طویل کوششوں کے بعد دونوں ملکوں کی رضامندی اور اقوام متحدہ اور بڑی عالمی طاقتوں کی حمایت سے یہ معاہدہ طے پایا تھا جسے عالمی نیم پاگل ڈکٹیٹر نے بغیر کسی معقول وجہ کے بہ یک جنبش قلم توڑ دیا اور اب ایران پر یہ مضحکہ خیز الزام لگا رہا ہے کہ ’’ایران دنیا میں دہشتگردی کا سب سے بڑا سرپرست ہے اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا  کے کئی ملکوں میں موجود دہشتگردوں کو ایران کی طرف سے مدد دی جاتی ہے۔ ‘‘ یہ وہ الزام ہے جو امریکا کی طرف سے اپنے مخالف ملکوں پر لگائے جاتے رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے لیے ایرانی سفیر نے عالمی ادارے کے سربراہ انتونیوگوئرش کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ایران کے خلاف اسرائیلی دھمکیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور اسرائیلی دھمکیوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ ایرانی خط میں کہا گیا ہے کہ امریکا ایران کو دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد کہہ کر اسرائیل کی دہشتگردی پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے ، خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کو اسرائیلی جوہری پروگرام کی بھی نگرانی کرنا چاہیے۔

ویسے تو تمام امریکی صدور کی دنیا خاص طور پر پسماندہ ملکوں کے خلاف پالیسیاں جارحانہ ہی رہی ہیں لیکن جب سے موجودہ صدر حضرت ٹرمپ نے امریکا کا عہدہ صدارت سنبھالا ہے عالمی سطح پر دھونس دھاندلی اور طاقت کی دھمکیوں کا ایک ایسا شرمناک سلسلہ چل پڑا ہے جو عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

اصل میں ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں اپنے ایجنٹ اسرائیل کو علاقے کا ’’ دادا ‘‘ بنائے رکھنا چاہتا ہے اور اس شیطانی خواہش کی راہ میں ہمیشہ ایران رکاوٹ بنتا رہا ہے اور ٹرمپ سمیت امریکی حکمران ہمیشہ اسرائیلی سلامتی کو امریکی سلامتی سے مماثل بتاتے رہتے ہیں۔

امریکا ایران کے ایٹمی پروگرام کا تو دشمن کی حد تک مخالف ہے لیکن اسرائیل کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنا اور ہر طرح کی چھوٹ دینا امریکی صدور اپنی قومی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ اس پالیسی کی وجہ سے یہ علاقہ مستقل عدم استحکام کا شکار رہتا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک امریکی حکمران اسرائیل کی غیر اخلاقی حمایت کرتے رہیں گے۔

ٹرمپ کے اقتدار کا پورا عرصہ دھونس، دھاندلی اور ناانصافی پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے ٹرمپ کی دھاندلی کی تازہ مثال پاکستان کو دی جانے والی 30 کروڑ ڈالرکی رقم پر پابندی ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ یہ رقم امریکی امداد نہیں کہ جس وقت چاہے اسے روک لیا جائے یہ افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں حصے داری کا معاوضہ ہے جسے عرف عام میں ’’کولیشن فنڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔

ٹرمپ کو قطعی یہ اختیار نہیں کہ وہ پاکستان کو دیے جانے والے کولیشن فنڈ پر پابندی لگا دے۔ لیکن ٹرمپ کے اقتدارکی ساری تاریخ ہی عالمی دھاندلیوں سے بھری ہوئی ہے لہٰذا پاکستان کو دیے جانے والے 30 کروڑ ڈالر پر ٹرمپ کی طرف سے پابندی عائد کرنا حیرت انگیز نہیں ہے۔

اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد ہے اور روایتی ہتھیاروں کی بھی بہتات ہے جس کی وجہ سے وہ علاقے میں کھلی دادا گیری کر رہا ہے ایران وہ واحد ملک ہے جو اس علاقے میں اسرائیل کی دادا گیری کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے اور اسرائیل اپنے سرپرست امریکا کی دھونس کے بل پر ایران کو باندھے رکھنا چاہتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے شاہ امریکی حمایت کے محتاج ہیں۔ اس لیے وہ اسرائیل کے خلاف کوئی اسٹینڈ نہیں لے سکتے۔ شاہی حکمرانوں کی محتاجی کی وجہ سے امریکی حکومتیں ہمیشہ ان حکومتوں کی طرف سے بے فکر رہتی ہیں۔ امریکا کی یہ پالیسی ہے کہ وہ شاہوں کی حکومتوں کو ہتھیار سازی سے دور رکھے تاکہ ایک طرف اسرائیل محفوظ رہے تو دوسری طرف امریکا ان ملکوں کو اربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرتا رہے۔

دنیا میں امن سے مخلص بڑی طاقتوں کی یہ ایماندارانہ اور مخلصانہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر اس تنازعہ کا فوری طور پر حل تلاش کریں جو عالمی اور علاقائی امن کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن بڑی طاقتیں خصوصاً امریکا ایسے تنازعات کی طرف سے آنکھ بند کیے ہوئے ہے جو عشروں سے علاقائی امن کو تہس نہس کر رہے ہیں اور جن میں اب تک لاکھوں بے گناہ عوام جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان  تنازعات میں تنازعہ کشمیر اور فلسطین کا تنازعہ سرفہرست ہے ان دونوں تنازعات میں اب تک لاکھوں بے گناہ مارے گئے ہیں اور لاکھوں در بدر ہوگئے ہیں لیکن بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر ان قابل حل تنازعات کی طرف سے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔ یہ ایک عالمی اور انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہے اور اس کے مجرم ہر سزا سے بچے ہوئے ہیں۔

جس طرح امریکا نے شمالی کوریا کو بلیک میل کرکے ایٹمی ہتھیار بنانے سے روک دیا ہے وہ اسی طرح ایران کو بھی پابہ زنجیر کرنا چاہتا ہے۔ ایٹمی ہتھیار بنانا ایک سنگین عالمی جرم ہے بشرطیکہ اس پر بلا امتیاز عمل کیا جائے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکا شمالی کوریا اور ایران کو تو ایٹمی ہتھیاربنانے سے روکنا چاہتا ہے لیکن جنوبی کوریا اور اسرائیل کو اس حوالے سے آزاد چھوڑے ہوئے ہے۔ یہ امریکا کا ایسا عالمی اور اخلاقی جرم ہے جسے آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔