- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
عرب شہزادوں کیلیے اجازت سے 500 کسٹم فری گاڑیاں پاکستان آئیں
لاہور: گزشتہ چند برسوں کے دوران اربوں روپے مالیت کی 500 سے زائد لگژری گاڑیاں پاکستان میں لائی گئیں۔
ماضی کے حکمرانوں نے متحدہ عرب امارات کے 17، قطر کے 11 اور بحرین کے 2 شہزادوں کو شکار اور پاکستان میں ان کی امداد سے چلنے والے منصوبوں کیلئے کسٹم ڈیوٹی فری گھریلو اشیاء اور گاڑیاں پاکستان لانے کی اجازت دی تھی، یہ اجازت 18 برس کیلیے دی گئی ہے اور اس حوالے سے ایف بی آر نے SRO 9905 جاری کیا تھا جس میں شہزادوں کے نام بھی درج ہیں جبکہ اس ایس آر او میں واضح کیا گیا تھا کہ ہر سفارتخانہ 6 ماہ بعد اپنی گاڑیوں کی اپ ٹو ڈیٹ فہرست حکومت پاکستان کو فراہم کرے گا۔
ان گاڑیوں کو صرف شاہی خاندان پاکستان میں موجودگی کے دوران استعمال کر سکیں گے جبکہ ان گاڑیوں کی دیکھ بھال کیلیے شاہی افراد اپنے ملک کا کوئی نمائندہ مقرر کریں گے کسی پاکستانی کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جائیگی۔
ایس آر او میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ ان گاڑیوں کو کوئی بھی پاکستانی کسی بھی صورت اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا اگر ایسی کوئی شکایت سامنے آئی تو پاکستانی وزارت خارجہ متعلقہ سفارتخانے کو تحریری اطلاع دے گی جس کے بعد کوئی ایجنسی یا ادارہ کارروائی کرے گا۔
ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ گاڑیاں متحدہ عرب امارات سے منگوائی گئی ہیں جو سب سے زیادہ لگژری بھی ہیں اور ان میں سے درجنوں گاڑیاں با اثر سیاسی شخصیات کے زیر استعمال بھی ہیں جبکہ پاکستان میں متحدہ عرب امارات کی نمائندہ پاکستانی شخصیت بھی انہی لگژری گاڑیوں کا استعمال کر رہی ہے اور یہ گاڑیاں لاہور، اسلام آباد، رحیم یار خان، بہاولپور اور کراچی میں زیر استعمال ہیں۔
ذرائع کے مطابق صرف قطری گاڑیوں کے خلاف کارروائی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اور اس کارروائی کو بعض حلقے متحدہ عرب امارات اور قطر کے درمیان جاری سفارتی تنازع کے پس منظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ قبل قطر نے 3 ہزار پاکستانیوں کو اپنی فوج میں بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ہزاروں پاکستانیوں کو قطر میں ملازمت دینے کا بھی اعلان ہو چکا ہے ذرائع کے مطابق ایسے میں کسٹم انٹیلی جنس کی یکطرفہ کارروائی سے تاثر ابھرا ہے کہ بعض حلقے پاکستان اور قطر کے تعلقات کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کسٹم انٹیلی جنس کے جس ڈائریکٹر کو قطری گاڑیوں کی انکوائری پر مامور کیا گیا ہے وہ خود بھی متنازعہ ہیں اور ان کے خلاف نیب میں انکوائریز چل رہی ہیں۔ ایف بی آر پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ اگر ایسی گاڑیوں کیخلاف کارروائی کرنا ہے تو پھر سب ملکوں کی لائی گئی ایسی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو خلاف قانون زیر استعمال ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔