رواں سال طب کا نوبیل انعام جاپانی اور امریکی سائنس دانوں کے نام

سہیل یوسف  پير 1 اکتوبر 2018
امریکی ماہر پروفیسر جیمز پی ایلی سن اور جاپانی سائنس داں پروفیسر توسوکا ہونجو کو 2018ء کا نوبیل انعام برائے طب دیا جارہا ہے (فوٹو: نوبیل انعام کمیٹی)

امریکی ماہر پروفیسر جیمز پی ایلی سن اور جاپانی سائنس داں پروفیسر توسوکا ہونجو کو 2018ء کا نوبیل انعام برائے طب دیا جارہا ہے (فوٹو: نوبیل انعام کمیٹی)

اسٹاک ہوم: رواں برس طب (میڈیسن اور فزیالوجی) کا نوبیل انعام ایک جاپانی اور ایک امریکی پروفیسر کو عطا کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ یہ انعام کینسر کے علاج میں انتہائی مددگار ’امیونو تھراپی‘ کی ایک قسم ’امیون چیک پوائنٹ تھراپی‘ پر دیا جارہا ہے جسے انعامی کمیٹی نے جلد کے سرطان کا انقلابی علاج قرار دیا ہے۔

امریکی ماہر پروفیسر جیمز پی ایلی سن کا تعلق ٹیکساس یونیورسٹی سے ہے جبکہ جاپانی سائنس داں پروفیسر توسوکو ہونجو کیوٹو یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ ان دونوں کو 10 لاکھ ڈالر سے زائد رقم بطور انعام دی جائے گی۔ اس موقع پر پروفیسر ہونجو نے خوشی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ وہ اپنی تحقیق جاری رکھیں گے تاکہ مزید جانیں بچائی جاسکیں۔

پروفیسر ایلن نے کہا ہے کہ جب وہ سرطان سے شفا پانے والے اپنے مریضوں سے ملتے ہیں تو بہت جذباتی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ مریض بنیادی سائنس کی افادیت کے زندہ ثبوت ہیں اور ہمیں ان پر مزید تحقیق کرنا ہوگی۔

واضح رہے کہ کینسر امیونو تھراپی کو سمجھنے سے قبل پہلے کینسر کے طریقہ واردات کو سمجھنا ہوگا۔

کینسر کیا، کیوں اور کیسے؟

سادہ الفاظ میں یوں سمجھیے کہ ہمارے جسم میں روزانہ لاتعداد خلیات (سیلز) پیدا ہوتے ہیں اور اپنے مقررہ وقت پر مرتے ہیں لیکن کینسر میں یہ خلیات ڈی این اے کی بنیادی تبدیلیوں سے گزرتے ہوئے پہلے ایک گچھے اور پھر ایک پھوڑے یا رسولی کی صورت میں جمع ہوتے ہیں۔

صرف خون کے سرطان کو چھوڑ کر بقیہ 100 سے زائد طرح کے کینسر (جن کی مزید سیکڑوں ذیلی اقسام بھی ہیں) ان میں رسولیاں بہت چالاکی سے خون اور لمفی نظام میں داخل ہوکر پورے جسم کے اندر سفر کرتی ہیں۔ اس طرح جسم کے دیگر صحت مند اعضا اور حصے بیمار ہونے لگتے ہیں۔ یہ عمل کینسر کا حملہ یا انویژن کہلاتا ہے۔ یہ حملہ دماغ، جگر، پھیپھڑوں، آنتوں اور کسی بھی عضو پر ہوسکتا ہے۔

اگلے مرحلے میں کینسر کے خلیات مزید تقسیم ہوتے ہیں یعنی دو سے چار اور چار سے آٹھ ، پھر خود کو زندہ رکھنے کے لیے خون کی رگیں اور شریانیں تک بنالیتے ہیں۔ اس مرحلے پر کینسر پھیلنے میں کئی گنا تیزی آتی ہے۔

کیسنر کی درست وجہ اب تک سامنے نہیں آسکی لیکن تمباکو نوشی، بعض کیمیکل ، جسم کا اپنا دفاعی نظام اور دیگر عوامل اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔  مشکل یہ ہے کہ ایک سو سے زائد قسم کے کینسر  کا راستہ، پھیلنے اور پھولنے کی رفتار اور وجہ جاننے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے جسے ’پاتھ ویز‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طریقے کو سمجھ کر ہی ہم کینسر کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔

امیونو تھراپی کیا ہے؟

قدرت نے ہمارے جسم کے اعضا، خاص خلیات اور دیگر کیمیکلز میں ایک خاصیت رکھی ہے کہ وہ ہر وقت کئی بیماریوں سے لڑتے رہتے ہیں۔ مثلاً بیرونی جراثیم جیسے ہی ہمارے جسم کے اندر جاتے ہیں بدن کا قدرتی دفاعی (امنیاتی) نظام ان کے اجنبی پروٹین کو دیکھتے ہوئے اسے ختم کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے بدن کے سپاہی ان جراثیم کو ’حملہ آور‘ سمجھتے ہیں۔

امیونو تھراپی کے عمل میں خود مریض کے جسمانی دفاعی نظام کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ سرطانی رسولیوں کو پہچان کر انہیں ختم کرسکیں۔ دوسری صورت میں تجربہ گاہ میں تیار بعض پروٹین مریض کے جسم میں ڈالے جاتے ہیں جو چن چن کر سرطانی خلیات کو ختم کرتے ہیں لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔

امیونوتھراپی کی 4 قسموں میں مونوکلونل اینٹی باڈیز، امیون چیک پوائنٹ انہیبٹرز، کینسر ویکسین اور دیگر طریقہ علاج شامل ہے۔

پروفیسر جیمز اور پروفیسر توسوکا نے جسمانی دفاعی نظام کو اس قابل بنایا کہ وہ بعض پروٹین بند کرکے سرطانی پھوڑے پر حملہ کرکے اسے ختم کرسکے اور اس سے جلد کے سرطان کی خطرناک قسم کے علاج میں بہت مدد ملی ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ بھی دیگر اقسام کی امیونو تھراپی کے بھی بہت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔