بھارت ہوش کے ناخن لے

ایڈیٹوریل  منگل 2 اکتوبر 2018
بھارت مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامیتی پوزیشن سے بوکھلا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

بھارت مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامیتی پوزیشن سے بوکھلا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

بھارت خطے میں جنگ کی چنگاری بھڑکانے کے لیے کس قدر بے تاب ہے اس کی ایک ہولناک جھلک وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر کے ہیلی کاپٹر پر بھارتی چیک پوسٹ سے بلاجواز فائرنگ میں دیکھی جا سکتی ہے، خوش قسمتی سے بھارتی حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا اور وزیراعظم آزاد کشمیر کے سویلین ہیلی کاپٹر کو حویلی میں بحفاظت اتار لیا گیا۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر دو وزراء کے ہمراہ سول ہیلی کاپٹر پر لائن آف کنٹرول سے متصل پاکستانی گائوں تروڑی میں سفر کر رہے تھے۔ ان کا ہیلی کاپٹر لائن آف کنٹرول پر طے شدہ حد سے معمولی آگے چلا گیا کہ اسی دوران ہیلی کاپٹر پر بھارتی چیک پوسٹ سے فائر کیا گیا۔

راجہ فاروق نے بتایا کہ ایل او سی پر تعینات دونوں ملکوں کی افواج کی جانب سے ایک دوسرے کو فضائی نقل وحرکت کی باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے۔ تاہم بتایا جاتا ہے کہ اس سفر کی پیشگی اطلاع کی ضرورت تو نہ تھی مگر اس سفر کی اطلاع بھی دی جاچکی تھی لیکن موقع اور بہانہ کی تلاش میں سرگرداں بھارتی میڈیا اور وزارت خارجہ حکام نے اسے لائن آف کنٹرول پار کرنے کا الزام لگا دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار کو انتخابات کے ایک مڈ ٹرم دریا کو عبور کرنے کا سخت مرحلہ درپیش ہے اور بھارتی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے ہر انتخابی دنگل میں پاکستان کے خلاف شعلہ بیانی کا بازار گرم کرنا وہاں معمول کی بات سمجھی جاتی ہے اور اس بار بھی مودی اینٹی پاکستان الیکشن روڈ میپ پر الیکشن مہم کو تہلکہ خیز اور خونریز بنانے کے جنون کا مظاہرہ کررہے ہیں، بھارت کی جنگجویانہ سیاست کو کچھ ہاتھ نہ آیا تو سویلین ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کرکے بپن راوت کے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا ٹریلر چلادیا، جو خطے کے امن کو درہم برہم کرنے کی بہیمانہ خواہش کا عکس ہے۔

بھارتی میڈیا نے ہیلی کاپٹر ایشو پر الزامات کا جو شور برپا کررکھا ہے اسے خطے کے فہمیدہ اور سنجیدہ مبصرین اور تجزیہ کار مستقبل کی بھارتی مہم جوئی کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں جو ہندوتوا کے بعد اب ’’مودیتوا‘‘ کی شکل میں نمودار ہونے کو بے تاب ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہندوتوا کو بائی پاس کرتے ہوئے بھارت اپنے گھنائونے عزائم کی تکمیل کے لیے امن و استحکام کی عالمی اور علاقائی کوششوںکو سبوتاژ کرنے کے لیے جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

بھارتی فوج اور میڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا جواز پیش کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی ہے کہ پاکستان سے آنے والا سفید سول ہیلی کاپٹر ایل او سی پار کرکے آیا جس پر بھارتی فوج کی اگلی چوکیوں سے ہلکے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے بعد ہیلی کاپٹر واپس چلا گیا۔ اس حوالے سے بھارتی فوج نے وڈیو بھی جاری کی ہے۔

واضح رہے بھارتی فوج کی جانب سے سول ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارت کی ہٹ دھرمیوں اور دہشت گردی کا پردہ چاک کیا۔ دوسری جانب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر نے کہا ہے کہ آج کا واقعہ بھارتی فوج کی بزدلی اور مکاری کا عملی ثبوت ہے، انھوں نے بتایا کہ دوست کے بھائی کی وفات پر تعزیت کے لیے اپنے وزراء کے ساتھ سویلین ہیلی کاپٹر پر جارہے تھے، ان کے ساتھ کوئی گن شپ ہیلی کاپٹر نہیں تھے، بھارت نے ڈرامہ رچایا، ہم پاکستانی حدود میں تھے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی ادارے اور امن کے حامی ملکوں کو بھارتی معاندانہ حربی کارروائیوں اور انڈین آرمی چیف کی دھمکیوں کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے جو ایک بار پھر سرجیکل اسٹرائیک کی جعل سازی کے ذریعے خطے کے امن کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، دنیا بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کی پچھلی فراڈ ویڈیوز کی حقیقت جان چکی ہے۔

دریں اثنا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے جارحیت کی حماقت کی گئی تو پوری قوم یکجا ہو کر جواب دے گی، ہم خود دار قوم ہیں۔ بھارت نے جارحیت کی تو پاکستان امریکا کی طرف نہیں دیکھے گا، پاکستانی اپنے مفادات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں اور کریں گے۔ نیویارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا بھارتی سیاستدان سیاسی ضرورت کے قیدی ہیں، کچھ چیزیں توجہ ہٹانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ آج وہ اپنے الیکشن کی جیت کی قید میں جکڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا پاکستان اپنا ریکارڈ تیار رکھے.

کشمیر میں ظلم وبربریت کی پوری تصویر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے سامنے رکھی جائے جب وہ پاکستان آئیں گے، ان پر واضح کردیا جائے کہ خطے کو بھارتی جارحیت، جنگجویانہ تیاریوں سے خطرہ ہے، بھارت پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز نہیں آتا، اس نے پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو کمزوری پر محمول کرتے ہوئے ٹھکرا دیا ہے، اسے کلبھوشن کی دہشتگردی اور جاسوسی کی داستان کو یاد رکھنا چاہیے، ابھی عالمی عدالت انصاف میں اس کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے، بھارت کی بلوچستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کے ثبوت موجود ہیں۔

بھارت خطے کو تزویراتی مہم جوئی کی نذر کرتے ہوئے پاکستان پر نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کی آڑ میں جنگ مسلط کرنے کی دیوانگی میں مبتلا ہوگیا ہے تاہم بھارتی عزائم سے غافل رہنے کی کوئی گنجائش نہیں، صورتحال بدستور بگاڑی جارہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے ضلع کلگام کے علاقے ریڈونی میں احتجاجی مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے نتیجہ میں کئی افراد زخمی ہوگئے۔

بھارتی فوجیوں نے ریڈونی میں نیا فوجی کیمپ قائم کرنے کے خلاف احتجاج کرنیوالوں پر گولیاں اور پیلٹ برسائے اور آنسوگیس کے گولے داغے۔ پیلٹ سے شدید زخمی ہونیوالے تین نوجوانوں کو مقامی اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین نے کشمیر کے جنگ زدہ علاقے میں خواتین کی حالت زار اور خواتین کا کردار کے زیر عنوان ایک سیمینار منعقد کیا۔ میڈم شمیم شال نے سیمینار میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرانے میں مدد دے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اس تنازعے کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے امن کو بھی خطرہ ہے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں کمیونٹی کارنیوال کا انعقاد کیا گیا، کارنیوال کا اہتمام کشمیر کونسل ای یو اور کشمیر فری آرگنائزیشن جرمنی نے کیا، جس میں مختلف ثقافتوں وکمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

سچ تو یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامیتی پوزیشن سے بوکھلا گیا ہے، اس لیے بوکھلاہٹ میں الٹے سیدھے اقدامات اور لایعنی الزامات کی بوچھاڑ کررہا ہے۔ لیکن بھارت کو ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستانی قوم کبھی بھارتی مکروہ عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دے گی، خطے کی تقدیر، امن اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے مشروط ہے۔ بھارت کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ بھارت ہوش کے ناخن لے۔ گیدڑ بھبھکیوں سے کام نہیں چلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔