ملاقات ہی سے انکار

ظہیر اختر بیدری  منگل 2 اکتوبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد جہاں داخلی سطح پر مثبت پیش رفت جاری ہے، وہیں خارجی حوالے سے بھی خوش آیند پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ خارجہ امور میں ویسے توکئی ملکوں کے ساتھ تعلقات زیر بحث آتے ہیں اور امورخارجہ ہوں یا داخلہ ہر ملک اپنے قومی مفادات کے پس منظر میں ہی پالیسیاں تشکیل دیتا ہے۔

پاکستان اور بھارت دو پڑوسی ملک ہیں لیکن اسے ہم بھارت سرکار کی غیر منطقی اپروچ کہیں یا بچکانہ ضد کہ کشمیر کے مسئلے پر بھارتی پالیسی دوستی کی خواہش کے بجائے دشمنی میں اضافے کی بنیاد پر کھڑی ہوئی ہے۔ ہمارے نئے وزیر اعظم روایات سے ہٹ کر بھارت سے دوستانہ تعلقات کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں، پاکستانی وزیر خارجہ بھارتی وزیر خارجہ  سے بیرونی دورے کے دوران ملاقات کے حوالے سے بہت پرامید تھے۔

اس کے دو دن بعد بھارتی حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ اب ’’ہائے ہیلو‘‘ ملاقات بھی منسوخ کردی گئی ہے۔ خارجہ امور میں اس طرح ایمرجنسی رد و بدل بھارت جیسے بڑی جمہوریت کو زیب نہیں دیتا۔ بھارتی حکمرانوں کی پاکستان دشمنی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے سابق کرکٹر سدھو جی نے اپنے دورہ پاکستان میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی تجویز پیش کی تھی اور پاکستان کے آرمی چیف سے ملاقات کے دوران گلے ملنے کا جرم کیا تھا ۔

سدھو جی  کی اس مخلصانہ خواہش کا جواب بھارتی حکومت نے اس گھٹیا انتقامی کارروائی سے دیا کہ اس کے خلاف ایک پرانا کیس کھول دیا۔ یہ حرکت اس قدرگھٹیا ہے کہ ساری دنیا اس پر تھو تھو کر رہی ہے اس گھٹیا حرکت سے بھارت کی پاکستان دشمنی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اس خواہش کا اظہارکر رہے ہیں کہ بھارت دوستی کے حوالے سے ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو پاکستان دو قدم آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ عمران خان نے اس توقع کا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر تعلقات کو بہتر بنانے میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا آغاز ہوسکتا ہے جس سے دونوں ملکوں کے ایک ارب سے زیادہ غریب عوام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اب تک بھارت میں جتنی حکومتیں آئیں، کشمیر کے حوالے سے ان تمام حکومتوں کی پالیسیاں بالکل ایک رہی ہیں لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جب سے مودی حکومت برسر اقتدار آئی ہے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔

خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے مودی حکومت کی پالیسیاں غیر انسانی حد تک قابل شرم ہیں۔ اس پالیسی کے خلاف خود بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ میں نے خلوص دل سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی، جس کا جواب بھارت کی جانب سے بہت متکبرانہ دیا گیا۔

بھارتی حکمران ہمیشہ پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی کی حمایت کا الزام لگاتے آرہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے پاکستان دشمنی میں بھارتی عوام کو اس حد تک پاکستان دشمن اور مذہبی انتہا پسند بنادیا ہے کہ آج بھارت کی بدنام زمانہ مذہبی انتہا پسند جماعت بی جے پی برسر اقتدار ہے جب کہ پاکستان میں حالات اس کے برخلاف ہیں۔ پاکستان میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے ہیں ان میں پاکستانی عوام نے کبھی مذہبی جماعتوں کی حمایت نہیں کی اس زندہ حقیقت کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی عوام لبرل اور ترقی پسند ہیں جب کہ بھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے بھارتی عوام کو مذہبی شدت پسند بنادیا ہے جس کا زندہ ثبوت بی جے پی کا انتخاب جیت کر حکومت بنانا ہے۔

پاکستان کے وزیرخارجہ نے بجا طور پرکہا ہے کہ بھارت نے طے شدہ ملاقات کو بغیرکسی معقول وجہ کے منسوخ کرکے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی ہے۔ عمران حکومت خارجہ تعلقات میں تیزی سے پیش رفت کر رہی ہے ۔ عمران خان ابھی ابھی سعودی عرب متحدہ عرب امارات وغیرہ کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان کی معاشی مشکلات کو دیکھتے ہوئے 10 ارب ڈالر کی مالی امداد پاکستان کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔ میڈیا کے مطابق امریکا 30 کروڑ ڈالر کی کولیشن سپورٹ امداد بحال کرنے جا رہا ہے۔

مذاکرات کی منسوخی کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے ایک دلچسپ بات کی ہے کہ ’’میں نے ہمیشہ بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ دیکھے ہیں جو دور اندیش نہیں ہوتے۔‘‘ بھارتی وزیر اعظم کا تعلق نچلے ترین طبقے سے ہے ۔ دنیا کے جمہوریت پسند عوام مودی کو بھارت کا وزیر اعظم بننے سے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ چھوٹے طبقے سے تعلق رکھنے والا یہ شخص ایسے بڑے کام کرے گا کہ چھوٹے طبقے پر اشرافیہ کی طرف سے لگنے والا یہ الزام غلط ثابت ہوجائے گا کہ ’’ چھوٹے لوگ بڑے کام نہیں کرسکتے۔‘‘

بھارت کے چھوٹے یعنی نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والا مودی جب بھارت کا وزیر اعظم بنا تو چھوٹے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ پر امید تھے کہ مودی بھارت کے چھوٹے طبقات کے مسائل حل کرے گا اور ملک کو سیکولر نہ سہی لبرل بنا دے گا لیکن اے بسا کہ آرزو خاک شد والا معاملہ ہوگیا۔ مودی نے نہ غریب طبقے کے مسائل حل کیے نہ ملک کو لبرل بنایا اس کے برخلاف آج بھارت ایک انتہائی شدید مذہبی شدت پسند ملک بن گیا ہے۔

مسئلہ کشمیرکی وجہ سے کشمیر اور پاکستان ہی کے عوام معاشی بدحالی کے شکار نہیں بلکہ ہندوستان کے بھی ایک ارب کے لگ بھگ عوام سخت معاشی بدحالی کے شکار ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت اس معاشی بدحالی کا مستقل علاج کرنے کے لیے بھارت سے مذاکرات کرنا چاہتی تھی لیکن بھارت کے چھوٹے آدمی نے پہلے مذاکرات کی حامی بھری پھر شرمناک طریقے سے ملاقات ہی سے انکارکر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔