بارودی سرنگ ہٹاتے ہوئے دیکھا ہی نہیں کہ اسی پر کھڑا ہوا تھا

رضوان طاہر مبین  منگل 2 اکتوبر 2018
عملی سیاست میں کبھی دل چسپی نہیں لی،کرنل (ر) البرٹ نسیم کی کتھا۔ فوٹو: فائل

عملی سیاست میں کبھی دل چسپی نہیں لی،کرنل (ر) البرٹ نسیم کی کتھا۔ فوٹو: فائل

جنگ اگر ٹلتی رہے تو بہتر۔۔۔
مگر کبھی امن، کبھی بقا اور کبھی اور کسی سبب ریاستوں کو ایسے تلخ تجربات سے گزرنا ہی پڑ جاتا ہے۔۔۔ یہ امر آشیانوں پر شب خون مارنے کے مترادف محسوس ہوتا ہے، کہنے کو جنگیں افواج لڑتی ہیں، مگر اِن کے ساتھ اپنے کروڑوں عوام کا جذبہ بھی دشمن سے نبردآزما ہوتا ہے۔۔۔ ایک طرف جہاں عام شہری اپنے گھر کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف فوجیں بھی مورچہ سنبھالے ہوئے ہوتی ہیں۔۔۔

جنگ سے عموماً یہی اخذ کیاجاتا ہے کہ مسلح سپاہی نبردآزما ہوں اور گھمسان کا رن پڑا ہو۔۔۔ مگر ’جنگ‘ کے اور بھی بہت سے پہلو ہوتے ہیں، آنے والی سطروں میں ہم ایک ایسے ہی محاذ پر لڑنے والی ایک فوجی شخصیت سے ملنے والے ہیں، جن کا تعلق ہمارے ملک کی عیسائی برادری سے ہے، یہ حوالہ صرف اس لیے دیا کہ ہماری زیادہ معلومات صرف مسلمان فوجی افسران اور سپاہیوں سے متعلق رہی ہیں۔۔۔

یہ کرنل (ر) البرٹ نسیم ہیں، جو 1947ء میں بٹوارے سے ڈیڑھ ماہ قبل گجرات میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد وہاں مشن ہائی اسکول میں تدریس پر مامور تھے۔ دو چھوٹی بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ انہوں نے مشن ہائی اسکول سے 1960ء میں میٹرک کیازمیں دار ڈگری کالج، گجرات سے ایف ایس سی اور بی ایس سی کیا۔ 1966ء میں جامعہ پنجاب میں ایم ایس سی کیمسٹری کے طالب علم ہو گئے، وہیں آرمی کے لیے درخواست دی، منتخب ہوئے اور مئی 1968ء میں تربیت کے لیے کاکول چلے گئے اور وہاں سیکنڈ لیفٹننٹ ہو گئے۔ اپریل 1969ء میں وہاں سے پاس آؤٹ ہوئے تو ان کے ساتھ سینیٹر بریگیڈیر جان ولیم، لیفٹننٹ ڈیرک جوزف (تمغہ جرأت) اور رچرڈ لارنس بھی شامل تھے۔

کرنل البرٹ نسیم کہتے ہیں کہ اچھا طالب علم ہونے کے ناتے میں شروع سے ہی فوج میں شمولیت کے لیے بہت پُراعتماد تھا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران وہ کالج میں پڑھتے تھے، کہتے ہیں کہ گجرات میں بھی ہندوستانی طیاروں نے رات کو آکر بم گراے۔ چاندنی راتوں کے سبب جہاز دکھائی بھی دیتے تھے۔ ہم بھی پورے جذبے سے سرشار تھے، ایسا لگتا تھا کہ بس ہمیں موقع ملے تو ہم مٹی کے کسی مادھو کے مصداق دشمنوں کو پچھاڑ کر رکھ دیں گے۔

کالج میں انگریزی کے استاد نائب پرنسپل پروفیسر عنایت اللہ فوج میں جانے کے جذبے کی بہت حوصلہ افزائی کرتے، کچھ طلبہ شکایت کرتے کہ انہیں منتخب نہیں کیا جاتا، تو وہ کہتے یہ بعد کی بات ہے، پہلے آپ اپنا فرض تو پورا کریں۔کرنل البرٹ 1965ء کی جنگ میں مذہبی عنصر کے غلبے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایوب خان کا زمانہ کیا زمانہ تھا، اس وقت صرف پاکستانیت کا جذبہ تھا، میں بھی ہمیشہ خود کو پورا پاکستانی سمجھ کر دشمن کے خلاف دیگر ساتھیوں کے شانہ بشانہ ہوا۔

جوش دلانے کیلیے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ بعض ملکی قوانین کی وجہ سے اب سماجی طور پر یہ جھجھک رہتی ہے کہیں ہماری کسی بات کا کوئی غلط مطلب نہ لے لیا جائے۔ فوج میں جنرل ضیا الحق کے زمانے میں مذہب کو زیادہ جگہ دی گئی، لیکن پھر جب دیکھا کہ اس سے قوم گروہوں میں بٹ رہی ہے، تو اسے کم کیا گیا۔ انہوں نے ضیا الحق سے رسالپور میں ایک ڈگری وصول کرتے ہوئے ان سے ہاتھ بھی ملایا۔

ہم نے کہا آپ 1965ء کی جنگ دیکھ کر فوج میں آئے، لیکن آپ کے آنے کے بعد ہی 1971ء کی ناخوش گوار جنگ ہوگئی؟۔ کرنل البرٹ کہنے لگے کہ ’’جذبہ تو تب بھی تھا، ہمیں پورے ولولے کے ساتھ محاذ پر رخصت کیا جاتا، لیکن جنگ 1971ء کے نتیجے سے پوری قوم کی طرح ہم بھی ڈپریس تھے۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ کاش اتنے مضبوط ہو جائیں کہ اس شکست کا بدلہ لے سکیں۔‘‘’آپ کے خیال میں بدلہ لے سکے؟‘ ہم نے پوچھا۔ ’تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بدقسمتی سے بدلہ نہ لے سکے۔‘ انہوں نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔

ملک میں فوجی حکومت کے قیام پر ہم نے اُن کے احساسات جاننا چاہے تو انہوں نے اسے بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ’قومی اتحاد‘ کی تحریک کے دوران ملک بھر میں بہت زیادہ ہنگامے ہو رہے تھے، بھٹو صاحب اس پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے تھے، اس کے نتیجے میں مارشل لا لگا، یہ ایک ریلیف تھا کہ چلو ملک میں امن قائم ہوگیا، کیوں کہ کرفیو اور بے امنی کے سبب لوگ محصور تھے۔

لوگوں کو یقین تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، وہ بھٹو حکومت سے مطمئن نہ تھے!۔ کرنل البرٹ نسیم اپریل 1973ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے، شریک حیات اُن کی پسند سے چُنی گئیں۔ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد ہوئے، سب شادی شدہ اور بیرون ملک رہائش پذیر ہیں۔

بڑے صاحب زادے خرم شہزاد اور صاحب زادی نرمل صدف امریکا، جب کہ چھوٹے بیٹے انجم بہزاد کینیڈا میں ہیں۔ وہ دو تین سال میں وہاں چکر لگا لیتے ہیں، بچے انہیں مستقل وہاں آنے کے لیے کہتے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس ملک کے لیے اپنی جان داؤ پر لگائی ہے، اس لیے یہ ملک نہیں چھوڑ سکتا۔ اِن خطرناک واقعات کی بابت کرنل البرٹ نے ہمیں بتایا کہ بارودی سرنگ کی صفائی کرتے ہوئے دو مرتبہ ایسا ہوا کہ میں سرنگ کے بالکل اوپر کھڑا ہوگیا تھا، خوش قسمتی سے وہ سرنگ مضبوط تھی، ورنہ میرے وزن سے پھٹ جاتی۔ میں نے تو دونوں بیٹوں کو فوج میں جانے کے لیے پیش کیا، مگر وہ منتخب نہ ہو سکے۔‘

کرنل البرٹ نسیم کے والدین گجرات میں رہے، اور سروس کے دوران اُن کا ایک تہائی وقت رسالپور میں صرف ہوا، تربیت لینے کے علاوہ خود بھی انسٹرکٹر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے بارے میں آگاہ ضرور رہتا ہوں لیکن عملی سیاست میں کبھی دل چسپی نہیں لی۔ کرنل البرٹ اپنے پیشہ ورانہ مراتب کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’میں کیپٹن سے میجر، پھر لیفٹننٹ کرنل اور پھر 1993ء میں فل کرنل بن گیا، بریگیڈیر بھی بن جاتا، مگر پھر ریٹائر ہو گیا۔ اگر بریگیڈیر بن جاتا تو اور بھی اچھا ہوتا، لیکن کبھی یہ خیال بھی نہ آیا کہ میرے عیسائی ہونے کے سبب ایسا ہوا، بلکہ ہمیشہ یہ سوچا کہ میرا جو حق تھا وہ مجھے ملا!‘‘

1998ء میں اِن کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز (ملٹری) ملا۔ جولائی 1999ء میں ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد کرنل البرٹ ’راول پنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ سے بطور چیف انجینئر منسلک ہوگئے، چند ماہ بعد ’ڈی ایچ اے‘ کراچی میں بطور ڈائریکٹر پیش کش ہوئی، تو دوست احباب کے مشورے کے بعد 1999ء میں یہاں آگئے۔ 2004ء میں یہاں سے ریٹائر ہوئے اور یہیں رہائش اختیار کی۔ پانچ سال ایک اور نجی ملازمت کی، پھر 2009ء تا 2015ء وہ فارغ رہے، اس کے بعد ایک انجینئرنگ فرم سے منسلک رہے، یہ سلسلہ بھی ایک سال تک رہا۔

کرنل البرٹ ملازمت کے لیے جب کراچی آئے تو دونوں بیٹے کالجوں اور بیٹی میٹرک میں تھی۔ اُن کا خیال تھا کہ چار پانچ سال میں جب بچے پڑھ لیں گے، تو وہ لوٹ جائیں گے، کہتے ہیں کہ یہاں بہت اچھا وقت بیتا، بچوں کی شادیاں بھی یہیں ہوگئیں، تو گویا یہاں ہماری جڑیں اور گہری ہوئیں، جب بچے باہر چلے گئے اور 2012ء میں شریک حیات کا انتقال ہوگیا، تو اب اب عزیزواقارب اور بچے فکر کرتے ہیں کہ میں اکیلا ہوں، حالاں کہ مجھے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔

کرنل البرٹ نسیم ہماری ملاقات کے وقت اپنی لاہور منتقلی کے لیے سامان باندھ رہے تھے۔ لا محالہ ہمارا سوال ’کیوں؟‘ کا تھا، جس پر وہ یوں گویا ہوئے کہ کل چرچ والوں نے میری الوداعی دعوت کی، تو وہاں بھی میں نے یہی کہا کہ جب دن ڈھل رہا ہوتا ہے، تو پرندے اپنے گھونسلوں کا رخ کرتے ہیں، میرا خمیر پنجاب سے اٹھا ہے، میرا آشیانہ اب تک وہاں ہے۔

اس لیے میں وہاں لوٹ رہا ہوں۔۔۔ عمر کے اس حصے میں ہوں کہ مجھے وہاں پلٹنا چاہیے۔۔۔ میرے سارے رشتے دار وہیں رہتے ہیں۔‘ ’’کتاب نہیں لکھی اپنے تجربات پر؟‘‘ ان کی زندگی میں بہت سے اہم حوالے دیکھ کر ہم نے کرنل البرٹ سے استفسار کیا۔’’نہیں، کتاب لکھنے کے لیے بہت سا مواد جمع کرنا پڑتا ہے، باقاعدہ بیٹھ کر لکھنا ہوتا ہے۔ مگر میں مختصراً ہی لکھ پاتا ہوں۔‘‘ کرنل البرٹ نے کہا اور اپنا یہ خیال بھی آشکار کیا کہ انہیں اپنی کتاب لکھنا خود نمائی لگتا ہے، جب کہ انہوں نے ساری عمر خود نمائی نہیں کی۔

جب ہم نے اُس کتاب کے عام قارئین کے لیے مفید ہونے پر کچھ روشنی ڈالی تو وہ مثبت انداز میں کچھ سوچتے ہوئے گویا قائل ہوگئے کہ: ’’تجویز اچھی ہے کہ مجھے کتاب لکھنا چاہیے۔‘‘

وہ ساتھی جن کے نام یاد ہیں۔۔۔ مگر رابطے کا کوئی نشان نہیں!

کرنل البرٹ نسیم ہم سے جنگ 1971ء کے تجربات بانٹ رہے تھے کہ اس میں تب کے بنگالی ہم وطنوں کا ذکر آ نکلا اور وہ تاریخ کی ستم ظریفی کا ذکر کرتے ہوئے ہم کلام ہوئے کہ ’انہیں اپنے بنگالی سپاہیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا کہ کہیں وہ بارودی سرنگیں بچھاتے ہوئے دانستہ کوئی کمی نہ چھوڑ دیں، جس سے ہمارے کام کا معیار کم ہو، جیسے  بارودی سرنگ نصب کرنے کے بعد ایک ’سیفٹی ڈسک‘ نکالنا ہوتی ہے۔

اگر وہ چھوڑ دی جائے تو پھر وہ بارودی سرنگ کارگر نہیں رہتی۔ ہم نے پوچھا ’کبھی چھوڑی؟‘وہ نفی کرتے ہوئے بولے کہ ’’نوٹس میں آتی تو پھر کارروائی ہوتی، یا پھر ہم نے اتنا خیال رکھا کہ کسی نے ایسا نہیں کیا!‘‘۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اپنی طرف کی منظر کشی کرتے ہوئے کرنل البرٹ نے بتایا کہ اس کے بعد بنگالی سپاہیوں کو اختیار دیا گیا تو انہوں نے بنگلا دیش کو چنا، کچھ بہاری سپاہی تو رکے، شاید ہی کوئی بنگالی یہاں رہا ہو۔‘۔ کس قدر عجیب احساس ہوگا وہ، کہ جب کسی منظم لشکر کے کچھ سپاہی تاریخ کے ستم کے نتیجے میں اجنبی ہو کر ہمیشہ کے لیے یوں دور ہوجائیں۔۔۔

اپنے بنگالی سپاہیوں کے وداع ہونے کا احوال مذکور کرتے ہوئے کرنل البرٹ کہتے ہیں کہ ’ہم نے انہیں بہت اچھے طریقے سے رخصت کیا، ان کی باقاعدہ پارٹیاں کی گئیں، ان کو بنگلا دیش بھیجنے سے پہلے کیمپوں میں رکھا گیا، کیوں کہ اب انہیں فوج میں رکھنا مناسب نہ تھا۔ کچھ ماہ بعد وہ وہاں گئے اور بنگلا دیش کی فوج کا حصہ بن گئے۔ پھر کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ناخوش گوار تعلقات کے سبب ریٹائرمنٹ سے پہلے تو یہ ممکن بھی نہ تھا، مگر اب بھی نہیں پتا کہ وہ کہاں ہیں۔‘

ہم نے کہا نام یاد ہیں تو بتا دیں، ہم لکھ دیں گے، شاید کسی طرح اُن تک پہنچ بھی جائے، تو گزرے زمانے کی پرچھائیوں میں قید ان کے چہرے پر ایک بے ساختہ ہنسی رقص کرنے لگی اور انہوں نے سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے بتایا کہ جب ہم بھی کیپٹن تھے اور  وہ بھی۔۔۔ ایک کیپٹن عبداللہ الکافی تھے۔۔۔! بعد میں وہ وہاں بریگیڈیر بنے۔ یہاں سے ایک میجر محمد علی  بھی جدا ہوئے، وہ بھی وہاں بریگیڈیر بنے۔۔۔ ایک کیپٹن اشرف الدین احمد سکندر بھی تھے، بعد میں پتا چلا کہ وہاں لیفٹننٹ کرنل بن گئے شاید!    جب ایک بارودی سرنگ پھٹ گئی۔۔۔!

جب ایک بارودی سرنگ پھٹ گئی ۔۔۔!

کرنل البرٹ نسیم کی گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ بارودی سرنگوں کا یہ کس قدر نازک اور حساس ہے، ہم نے اس حوالے سے اُن کے کسی ناقابل فراموش لمحے کی کھوج لگائی تو  کرنل البرٹ کسی خیال میں کھونے لگے، پھر دھیرے سے بولے کہ ’ایک مرتبہ بارودی سرنگ بچھاتے ہوئے۔۔۔‘  اُن کا جملہ منقطع ہوگیا۔۔۔

پھر اُن کے لہجے میں اترا ہوا درد بڑھنے  لگا اور وہ گویا ہوئے: ’’بڑا افسوس ہوتا ہے۔۔۔ دکھ ہوتا ہے۔۔۔ بعض ٹینک شکن بارودی سرنگوں کے ساتھ ایک ’اینٹی لفٹ‘ سوئچ لگایا جاتا ہے،  تاکہ کوئی اسے ذرا سا بھی چھیڑے، تو وہ پھٹ جائے، مقصود دشمن انجینئروں کو اسے ہٹانے سے روکنا ہوتا ہے۔ یہ سوئچ لگانا بہت دشوار ہوتا تھا، ایک دن ہمارے ایک لانس نائیک غلام رسول کا ہاتھ یہ سوئچ لگاتے ہوئے چُوکا اور چشم زدن میں اس  کا وجود بکھر کر رہ گیا۔۔۔! میں نے اپنا عزیز ترین ساتھی کھو دیا۔ اس واقعے سے یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ بہترین لوگوں کو پہلے کھاتی ہے۔‘

ہم نے کہا اتنے پُرخطر کام کے لیے ہیلمٹ یا اور کوئی حفاظتی انتظام وغیرہ نہیں کیا جاتا؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہیلمٹ پہن کر یہ کام ممکن نہیں اور بارود کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ ہیلمٹ بھی نہیں بچا سکتا۔ تاہم ایسے حادثات کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آیندہ بارودی سرنگوں کے ساتھ ’اینٹی لفٹ سوئچ‘ نہ لگایا جائے، مگر تب تک میں اپنا بہترین سپاہی کھو چکا تھا۔

اعظم معراج ’تحریک شناخت‘ کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں

ہماری کرنل البرٹ نسیم سے تعارف اور اُن تک رسائی ’تحریک شناخت‘ کے وسیلے سے ہوئی۔ یہ تحریک، پاکستانی مسیحیوں میں معاشرتی بے گانگی ختم کرنے کے لیے اعظم معراج  کی قیادت میں رواں دواں ہے۔ اس حوالے سے کرنل البرٹ نسیم کہتے ہیں کہ ’اعظم معراج  نے اس کام کے لیے بہت سخت محنت اور جدوجہد کی ہے، کیوں کہ ہمارے محتاط سماج میں  لوگ اپنے حوالے سے معلومات دینے سے بہت زیادہ کتراتے ہیں، پھر جب انہیں یہ پتا چلے کہ یہ معلومات شایع کی جائیں گی، تو ان کا گریز دگنا ہو جاتا ہے۔ میں نے اعظم معراج کو نہ صرف اپنی طرف سے تمام معلومات دیں، بلکہ بہت سے دیگر لوگوں کے حوالے سے بھی ان کی خصوصی معاونت کی ہے۔‘

ہم پیچھے تو ہٹ گئے، مگر ملتان کی سمت سے حملہ نہ کرسکے!

کرنل البرٹ نسیم نے 1971ء کی ایک جنگی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’’شکر گڑھ کے علاقے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا کہ یہاں دشمن کو یہ تاثر دیا جائے گا کہ بہت گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے تاکہ وہ اپنی بھاری نفری لے کر اندر آجائے۔ اس کے بعد ہم ملتان کی طرف سے اُن پر حملہ کر دیں گے، اسی منصوبے کے تحت ہم پیچھے ہٹتے گئے، اور جہاں رکنا تھا وہاں رک گئے، دشمن فوج تو اندر آگئی، لیکن بدقسمتی سے ملتان سے حملہ نہ کیا جا سکا!‘‘

’اس کی کیا وجہ رہی؟‘ ہم اپنا بے ساختہ سوال نہ روک سکے۔

کرنل البرٹ بولے کہ اس کی وجہ جو کتابوں میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ فضائیہ نے معذوری ظاہر کر دی تھی کہ جب ٹینکوں کی اتنی بڑی فوج جائے گی، تو ہم اس کا تحفظ نہیں کر پائیں گے، اس خدشے کے باعث یہ نہ ہو سکا۔ شاید مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے پڑ گئے، اس کے سبب اس محاذ سے گریز کیا گیا۔

’’ہماری جنگ چھے ماہ پہلے شروع ہوتی ہے اور دو سال بعد تک جاری رہتی ہے!‘‘

کرنل البرٹ نسیم کا تعلق فوج کی کور آف انجینئر سے رہا، اُن کے فوج کا حصہ بننے کے کچھ عرصے بعد ہی 1971ء کی جنگ چھڑ گئی۔ اس حوالے سے وہ یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ تب وہ نارووال کے محاذ پر پلاٹون کمانڈر تھے۔

اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے کرنل البرٹ بتاتے ہیں کہ ہمارا کام جنگ میں بارودی سرنگ بچھانے کا ہے، اس میں کافی وقت لگتا ہے اور یہ کام جنگ سے قبل ہوتا ہے۔ 1971ء کے مقابلے میں آج کچھ جدید اور آسان میکنیکی طریقے بھی آگئے ہیں۔ ہم لوگوں کی جنگ اصلی جنگ سے چھے سے تین ماہ پہلے شروع ہو جاتی ہے اور جنگ ختم ہونے کے دو سال بعد تک جاری رہتی ہے، 1971ء میں ہماری جنگ جولائی میں شروع ہوئی، بلکہ ہم مارچ 1971ء میں بھارتی طیارہ اغوا ہونے کے واقعے کے بعد سے سرحدوں پر تھے اور جون یا جولائی میں ہم نے بارودی سرنگیں بچھانا شروع کر دی تھیں۔‘

بارودی سرنگیں بچھانے کا کام اگر پیشگی کر لیا جاتا ہے، تو ہمارے ذہن میں یہ سوال کوندا کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ جنگی تیاری کے تحت بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہوں، مگر خوش قسمتی سے جنگ کی نوبت نہ آئی ہو۔۔۔ ’’کبھی ایسا ہوا، اگر ہمیں بتانا چاہیں تو۔۔۔؟‘‘

کرنل البرٹ اس پر سوچتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 1971ء کے بعد کبھی بارودی سرنگیں نہیں بچھائی گئیں، سرحدوں پر کشیدگی ضرور ہوئی، بہت سی جنگی تیاریاں ہوئیں، لیکن بارودی سرنگوں کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔

’’جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوجیں سرحدوں پر آ گئی تھیں تب؟‘‘ ہم نے کرنل البرٹ کو یاد دلایا تو وہ بولے کہ تب میں فوج کا حصہ نہیں تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ تب بھی نہیں۔‘ 1998ء کی پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ تنائو جنگ والا نہ تھا، نواز شریف نے امریکی صدر بل کلنٹن کی امداد ٹھکرا کر جوابی ایٹمی دھماکے کرکے احسن اقدام کیا۔ اگر یہ تب نہ ہوتا تو شاید پھر کبھی نہ ہو پاتا۔

’’بارودی سرنگ بچھانے کے بعد اس کی نگرانی کیسے کرتے ہیں کہ کوئی نہ گزرے؟‘‘ ہم نے اپنا تجسس ظاہر کیا تو وہ بولے کہ یہ تو لگائی اس لیے جاتی ہے کہ کوئی نہ گزرے، باڑ لگی ہوئی ہوتی ہے، لیکن بہت سے عام شہری غلطی سے زخمی ہو جاتے، کئی لوگ خطرہ مول لیتے ہیں یا اپنے جانور کے پیچھے چلے جاتے ہیں جس سے حادثات ہو جاتے ہیں۔

1971ء کی جنگ کے بعد بارودی سرنگیں صاف کرنے کے حوالے سے کرنل البرٹ بتاتے ہیں کہ ’1973ء تک بارودی سرنگیں بچھی رہیں، کیوں کہ دونوں فوجیں جنگ بندی لائن پر موجود تھیں، فوجیں پیچھے ہٹانے کے معاہدے کے بعد صفائی کا کام شروع ہوا۔ یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے، کیوں کہ دھوپ اور بارشوں کے سبب بارودی سرنگوں کے خول بہت نرم ہو چکے ہوتے ہیں۔‘

کرنل البرٹ نسیم نے جب ہمیں یہ بتایا کہ بارودی سرنگوں کے دوسری طرف مورچے سنبھالے جاتے ہیں، تاکہ دشمن کی پیش قدمی نہ ہو، تو ہم نے پوچھا کہ اس کے باوجود 1971ء میں ہندوستانی فوج اندر تک کیسے آگئیں؟ وہ بولے کہ یہ تو مقابلہ ہے، انہوں نے حملہ کیا اور وہ بھاری نفری کے ساتھ اندر آگئے۔

کرنل البرٹ نسیم کے بقول سطح زمین پر بارودی سرنگوں کی تلاش مخصوص آلے کی مدد سے کی جاتی ہے۔ بارودی سرنگ بچھاتے ہوئے اپنی سہولت کے لیے اپنے راستے پر ایک سفید ٹیپ بچھاتے ہیں، جو رات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ کام ختم ہونے کے بعد وہ ہٹا لیا جاتا ہے، اس کے بعد جب بارودی سرنگیں صاف کرتے ہیں تو اپنے خفیہ ریکارڈ کی مدد اور نشانات سے بارودی سرنگوں تک پہنچتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔