اب راج کرے گی مریم نواز!

سلمان نثار شیخ  منگل 2 اکتوبر 2018
بات اب ’’میری آواز تیری آواز- مریم نواز، مریم نواز‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’اب راج کرے گی مریم نواز‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

بات اب ’’میری آواز تیری آواز- مریم نواز، مریم نواز‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’اب راج کرے گی مریم نواز‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

آنے والا کل کسی نے نہیں دیکھا، لیکن گزرا ہوا کل سب نے دیکھ لیا ہے۔ نواز شریف کل تک جیل میں تھے۔ وہ آئندہ بھی جیل جا سکتے ہیں۔ وہ باعزت بری بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ انہیں قید آمدن سے زائد اثاثوں پر ضرور ہوئی تھی لیکن وہ نااہل اقامے پر ہوئے ہیں۔ اور پاناما ریفرنسز کے مثبت یا منفی فیصلے، جو آتے جاتے رہیں گے، وہ ان کو جاتی امراء سے اڈیالہ اور اڈیالہ سے جاتی امراء تو پہنچا سکتے ہیں لیکن اس سے آگے نہیں۔ اب انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی چابی صرف دو اداروں کے پاس ہے۔ ایک سپریم کورٹ آف پاکستان اور دوسرا پارلیمان۔

کل کسی نے نہیں دیکھی، لیکن اگر ان سمیت ’’تمام‘‘ ممکنہ ’’ریلیف سینٹرز‘‘ کی ہیئت پر غائر نگاہ ڈالیں تو صرف اور صرف ایک ہی بات سمجھ آتی ہے، اور وہ یہ کہ کم از کم نومبر 2020ء تک بالخصوص اور نومبر 2023ء تک بالعموم میاں صاحب کی نااہلی ختم ہونا خاصا مشکل ہے۔ البتہ اس کے بعد ایسے حالات ضرور پیدا ہو سکتے ہیں۔ پارلیمان میں نمبر گیم بدل سکتی ہے، نئے اتحاد بن سکتے ہیں، نئی سیاسی ضرورتیں جنم لے سکتی ہیں، نیا میدان سج سکتا ہے اور مہرے پیادے اور پیادے بادشاہ بن سکتے ہیں۔ لیکن پھر کم از کم تب تک ن لیگ کو کون چلائے گا؟ اگلے انتخابات میں ن لیگ کا وزارت عظمیٰ کا امیدوار کون ہو گا؟ اور اگر آئندہ بھی وزارت عظمیٰ ن کے حصے میں نہیں آتی تو پھر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا امیدوار کون ہوگا؟

بظاہر یہ سوالات ذرا قبل از وقت محسوس ہو رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ضمنی انتخابات آن پہنچے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ہر بدلتا دن نت نئے سیاسی معرکوں اور ضرورتوں کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے۔ جس طرح مچھلی پانی، پودا مٹی اور انسان آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح سیاسی جماعت بھی ایک مقبول، معتبر، غیرمتنازعہ اور توانا رہنماء کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

بیگم کلثوم نواز جو بلاشبہ لیگی قائدین اور کارکنان کو اپنی قیادت میں جمع کرنے اور احتجاجی تحریک چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں، وہ تو اللہ کو پیاری ہو گئیں، جبکہ چھوٹے میاں صاحب بری طرح ایکسپوز ہو گئے۔ نہ بڑے میاں صاحب کے استقبال کےلیے لاہور ایئرپورٹ پہنچ سکے، نہ بھرپور اور دھواں دار انتخابی مہم چلا سکے، نہ دھاندلی کیخلاف مظاہرے میں شرکت کےلیے لاہور سے اسلام آباد پہنچ سکے، نہ پارلیمنٹ کے اندر بھرپور احتجاج کروا سکے، نہ مولانا فضل الرحمٰن کو ساتھ ملا کر سڑکیں بند کر سکے (حالانکہ دینی جماعتوں کی سڑکیں بند کرنے، مظاہرے کرنے اور دھرنے دینے کی قوت سے کون ناواقف ہے؟) اور نہ زرداری صاحب کو ساتھ ملا کر اپنا وزیر اعظم، صدر یا وزیر اعلیٰ پنجاب بنوا سکے۔

شہباز شریف اور ان کے ساتھی بار بار متحدہ اپوزیشن کی گردان کرتے رہے اور زرداری صاحب اور ان کے ساتھی بار بار واضح کرتے رہے کہ کوئی متحدہ اپوزیشن موجود ہی نہیں ہے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ شہباز تو ن لیگ جیسی بڑی سیاسی مشین کے سربراہ ہونے کے باوجود تنہاء پرواز بھی نہ کر سکے۔ حالانکہ جب تک نواز شریف اور مریم جیل سے باہر تھے، وہ دونوں اسی جماعت کے کارکنوں کے بل بوتے پر ایک زبردست اور نہایت سرگرم رابطہ عوام مہم جاری رکھے ہوئے تھے، مگر شہباز نہ تنہاء پرواز کر سکے اور نہ ہی کوئی ڈار بنا سکے۔ نہ کوئی سیاسی فائدہ حاصل کر سکے اور نہ ہی اپنے مخالفوں کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے ان کےلیے اپنے اہداف کا حصول مشکل بنا سکے۔ یعنی کھیا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

اور تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کےلیے یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ چھوٹے میاں صاحب اور ان کے صاحبزادے کو ملنے والی اپوزیشن لیڈری بھی صرف اس ووٹ بینک کی مرہون منت ہے جو انہیں بڑے میاں صاحب کے نام پر ملا ہے۔

یوں گزشتہ چند ماہ میں اور کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، ن لیگ کے ووٹر واضح طور پر سمجھ چکے ہیں کہ چھوٹے میاں صاحب پنجاب کی وزارت اعلیٰ چلانے کے اہل تو ہو سکتے ہیں لیکن اپوزیشن لیڈری سنبھالنے یا جارحانہ سیاست کرنے کےلیے وہ یکسر نااہل ہیں۔

لیکن چھوٹے میاں صاحب کے برعکس مریم نواز نے پانامہ فیصلہ آنے سے لے کر جیل جانے تک جس دلیری بلکہ کسی حد تک ضرورت سے زیادہ دلیری اور حیرت انگیز بیباکی سے اپنے ہر دیدہ و نادیدہ مخالف کو للکارا ہے، کم از کم ن لیگ کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مریم نواز کا دوٹوک اینٹی اسٹیبلشمنٹ مؤقف سن کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ اس نواز شریف کی بیٹی ہے کہ جسے آج تک ملک کی ایک قابل لحاظ آبادی ’’ضیاء کی باقیات‘‘ کے طور پر یاد کرتی ہے۔ مریم نواز پر آپ یہ الزام تو نہایت آسانی سے لگا سکتے ہیں کہ ان کی غیرضروری بیباکی نے اور ان کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ببانگ دہل اعلان جنگ نے ان کی اور ان کے والد کی مشکلات میں اضافہ کیا، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جارحانہ یا حکومت مخالف یا عوامی جذبات کو مہمیز بخشنے والی سیاست نہیں کر سکتیں۔

سچ تو یہ ہے کہ جب چوہدری نثار نے اس خدشے کے پیش نظر نواز شریف کے خلاف بولنا شروع کیا تھا کہ کہیں وہ مریم کو جماعت کی قیادت اور وزارت عظمیٰ نہ سونپ دیں اور انہیں ایک ’’چھوٹی بچی‘‘ کی زیرقیادت کام کرنے کا حکم نہ مل جائے تو اس وقت اگرچہ بول وہ اکیلے رہے تھے لیکن ترجمانی وہ کئی سینئر لیگی رہنماؤں کی کر رہے تھے؛ کیونکہ یہ بالکل فطری اور جائز بات تھی۔ کوئی بھی سینئر لیگی رہنماء اور نواز شریف کا پرانا ساتھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ نواز شریف کی جگہ شہباز یا وہ خود نہیں بلکہ مریم نواز ن لیگ کی قیادت کریں اور وہ بچی جو کل تک ان سب کو انکل کہتی تھی، اب انہیں اسے ’’یس میڈیم‘‘ کہنا پڑے۔

لیکن پانامہ فیصلے کے بعد مریم نواز کی جانب سے شروع کی جانے والی دبنگ سیاسی جدوجہد اور نواز، مریم کے جیل جانے کے بعد شہباز شریف کی جانب سے اختیار کی جانے والی کمزور اور بودی سیاسی حکمت عملی نے نہ صرف عام لیگی کارکنوں کو بلکہ ن لیگ کی سینئر قیادت کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر اگلے چند سال اپوزیشن کی سیاست ہی ن لیگ کا مقدر ہے اور بڑے میاں صاحب کی نااہلی برقرار رہتی ہے اور عوام کسی بھی ’’غیرشریف‘‘ لیڈر کی کال پر گھروں سے نکلنے پر تیار نہیں ہیں تو اس وقت ن لیگ کے پاس مریم نواز سے بہتر انتخاب اور کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ بھیجنے والے مریم نواز کو جیل تو بھیج سکتے ہیں لیکن نااہل نہیں کر سکتے۔

چنانچہ شہباز شریف مانیں یا نہ مانیں، وقت کا نقیب بہرحال نقارہ بجا رہا ہے کہ بات اب ’’میری آواز تیری آواز- مریم نواز، مریم نواز‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’اب راج کرے گی مریم نواز‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سلمان نثار شیخ

سلمان نثار شیخ

بلاگر قلمکار، صحافی اور محقق ہیں۔ وہ اردو اور اقبالیات کی کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔